اللہ کی مشیت کو کافی سمجھنا (بیسواں باب)

اللہ کی مشیت کو کافی سمجھنا کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 191 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے قول میں بیان فرمایا ہے :-

191)رُبَّمَا اسْتَحْيَا الْعَارِفُ أَنْ يَرْفَعَ حَاجَتَهُ إِلَى مَوْلاَهُ لاكْتِفَائِهِ بِمَشِيئَتِهِ فَكَيْفَ لاَ يَسْتَحِيَ أَنْ يَرْفَعَهَا إِلَىَ خَلِيْقَتِهِ ؟.

اکثر اوقات عارف اللہ تعالی  کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنے سے شرم کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی مشیت کو کافی سمجھتا ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنے میں وہ کیوں نہ شرم کرے گا ؟

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:- عارف :- وہ ہے ۔ جو تقریب اور قرب کے اس مقام پر پہنچ گیا ہو، کہ وہ اپنے نفس سے بالکل فنا ہو گیا ہو ۔ اور اس سے عینیت او رغیریت اس طرح مٹ گئی ہو، کہ اس کو اپنے وجود کی خبر نہ ہو اور اس کو اپنے مولائے حقیقی کے سوا کسی کے ساتھ قرار نہ ہو ۔ لہذا جب وہ عبودیت کو طلب کرتا ہے۔ تو وہ اپنے مولائے حقیقی سے اس بات پر شرم کرتا ہے، کہ اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرے۔ تو پھر اس کے غیر کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرنے میں وہ کیوں شرم نہ کرے گا؟ اور ایسی حالت میں یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس سے افضل چیز عطا فرماتا ہے ، جو وہ مانگنے والوں کو دیتا ہے۔ اور پھر اس کو صدق کے مقام میں انبیاء علیہم السلام اور صدیقین رضی اللہ عنھم کےساتھ قائم کرتا ہے۔ اور اس سے پہلے یہ حدیث شریف گزر چکی ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے . جس شخص کو میرے ذکر کی مشغولیت مجھ سے مانگنے سے غافل کر دیتی ہے۔ میں اس کو مانگنے والوں سے بہتر اور زیادہ عطا کرتا ہوں۔

حضرت سہل بن عبداللہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ  ہر وقت اپنے بندوں کے قلوب سے باخبر رہتا ہے۔ تو جب کوئی قلب اپنی حاجت کے لئے اس کے غیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ تواللہ تعالی  اس پر شیطان کو مسلط کر دیتا ہے۔ اور اپنے سے اس کو محجوب کر دیتا ہے۔

حضرت واسطی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا :-

آپ اللہ تعالی  سے کوئی چیز کیوں مانگتے ہیں؟ انہوں  نے جواب دیا ۔ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ مجھ سے یہ کہا جائے :- اگر تم ہم سے وو چیز مانگتے ہو، جو ہم نے تمہارے لئے پہلے کی مقدر کر رکھا ہے۔ تو تم ہمارے اوپر اتہام لگاتے ہو ۔ اور اگر تم ہم سے وہ چیز مانگتے ہو، جو ہم نے تمہارے لئے مقدر نہیں کیا ہے، تو تم ہمارے ساتھ بے ادبی کرتے ہو۔ اگر تم اپنا معاملہ ہمارے سپرد کر دیتے اور ہماری نظر پر اعتماد کرتے تو ہم تمہارے تمام معاملوں کو اپنی منشا کے مطابق بحسن و خوبی انجام دیتے۔ یہاں بیسواں باب ختم ہوا۔

اس باب کا حاصل : کرامات اور کرامات سے پیدا ہونے والی عبارت کو بیان کرتا ہے۔ کیونکہ حقیقی کرامات :- عبودیت پر استقامت اور ربوبیت کے انوار کا مشاہدہ کرنا ہے۔ اور جب استقامت اور مشاہد ہ ولی کے اندر ثابت و قائم ہو جاتا ہے۔ تو وہ حکمت یعنی معرفت سے فیضیاب ہوتا ہے ۔ اور اس کو بیان کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس وقت اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ مخلوق نذرانے اور عطیات لے کر اس کے سامنے آتی ہے۔ تو اگر وہ ان نذرانوں کے اندر اپنے مولائے حقیقی کی معرفت حاصل کرے ، تو اس کے لئے مخلوق سے ہدیہ نذرانہ لینا درست ہے اور اگر یہ معرفت اس کو حاصل نہیں ہے، تو اس کا لینا درست نہیں ہے۔ اور بشریت کی غذا کے لئے مخلوق سے مانگنا ، عارفین کے لئے ایسا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالی  سے بھی مانگنے سے شرم کرتے ہیں اور اس کے علم اور مشیت کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور یہ واصلین کا مقام ہے۔

اور سائرین اپنے نفوس کے مجاہدے اور ریاضت میں مشغول رہتے ہیں۔ لہذا اگر ان کے نفوس پر سوال گراں گزرے ، تو وہ سوال کی طرف بڑھیں ۔ اور اگر ان کے نفوس پر فاقہ اور صبر اور مشیت اور علم کو کافی سمجھنا گراں ہو ، تو وہ فاقہ اور صبر اور مشیت اور علم الہی کو کاف سمجھنے کی طرف بڑھیں۔

جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اکیسویں باب کی ابتدا میں اس کو بیان فرمایا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں