انوارات اور زہد کا تعلق (چوبیسواں باب)

انوارات اور زہد کا تعلق کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 229 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت ابن عباد رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا ہے۔ لہذا تم اس میں غور کرو۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دنیا کی ان کدورتوں اور غیروں کا مقام ہونے کا سبب بیان کرتےہوے فرمایا:
229) إِنَّمَا جَعَلَهَا مَحَلاً لِلأَغْيَارِ وَمَعْدِناً لِوُجُودِ الأَكْدَارِ تَزْهِيداً لَكَ فِيهَا.
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو انور کا مقام اور کدورتوں کی جان تم کو دنیا میں زاہد بنانے کے لئے بنایا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ در حقیقت اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ان اوصاف کے ساتھ یعنی اس کےغیروں اور غموں کا مقام ہونے اور کدو رتوں اور فتنوں کی کان ہونے کے ساتھ اس لئے معیوب کیاہے۔ تاکہ وہ تم کو دنیا سے کنارہ کشی کر کے زاہد بنائے۔ لہذ ا تم پورے طور پر اس کی طرف بڑ ھواور اپنی ہمت کے ساتھ اس کی طرف متوہ ہو جاؤیا اس لئے معیوب بنایا ہے کہ تم دنیا سے منہ پھیرلو۔ اور آخرت کی طرف متوجہ رہو۔
ایک عارف نے فرمایا ہے ۔ دنیا کی مثال گھیر نے والے خوفناک سمندر کی طرح ہے اور آخرت اس سمندر کے اس پار ہے اور آخرت کی طرف دیکھنے کے لئے قلب کی آنکھ سے حجاب صرف اس صورت میں دور ہوتا ہے۔ کہ صبر ورضا کی کشتی میں سوار ہو کر اس سمندر سے پار ہو جائے ۔
کیونکہ وہ أَوۡ كَظُلُمَٰتٖ فِي بَحۡرٖ لُّجِّيّٖ يَغۡشَىٰهُ مَوۡج مِّن فَوۡقِهِۦ مَوۡج مِّن فَوۡقِهِۦ ‌سَحَاب ظُلُمَٰتُۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍ بہت بڑا اور گہرا سمندر ہے۔ جس کو موج ڈھانپے ہوئے ہے۔ اور موج کے اوپر پھر موج ہے۔ پھراس کے اوپر سیاہ اور اندھیر ابادل ہے ظلمتوں پر ظلمتیں ہیں ۔
اس کو خواہشات کی موج نے ڈھانپ لیا ہے۔ پھر اس کے اوپر غفلتوں کی موج ہے۔پھر اس کے اوپر کا ئنات کا بادل ہے۔ نیز اس لئے معیوب بتایا ہے کہ اگر دنیا تمہارے لئے وسیع کر دی جاتی ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند نہ کرتے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی تم سے ملنا پسند نہ کرتا۔ اور اگر تم کو زیادہ آرام اور نعمتیں دی جاتیں۔ تو روح اس دنیا پر بھروسہ کر لیتی۔ پھر وہ ہمیشہ عالم اجسام ہی میں پھنسی رہتی اور تمہارا ذات سے مقصود عالم ارواح کی طرف سیر کرنا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر اس عالم سفلی یعنی دنیا کو تنگ کر دیا ہے۔ تا کہ تم اپنی ہمت سے اس عالم سفلی سے عالم علوی کی طرف سیر کرو۔ لہذ اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان ہے لیکن امتحان کی شکل میں ہے۔ لہذا اہل بصیرت عارفین کے سوا اس کامزہ کوئی نہیں چکھتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں