اہل صفا اور اہل وفا (بیسواں باب)

اہل صفا اور اہل وفا کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 190 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اب صرف اہل صفا اور اہل وفا باقی رہ گئے ہیں۔ اور صوفیا ئے کرام کے طریقے میں سوال کے شامل ہونے کا سبب یہ ہے:۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی اجمل عمرانی رضی اللہ عنہ کو فاس میں مرتبہ اور وزارت ، اور ریاست حاصل تھی ۔ جب وہ شیخ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور حضرت شیخ نے ان کی سچائی اور ریاضت کودیکھا۔ تو ان سے فرمایا میں آپ کے اندر ایک ایسا جذبہ اور نشہ د یکھتا ہوں ، جو آپ سے پہلے کسی دوسرے شخص میں میں نے نہیں دیکھا۔ اور اگر میں آپ کے اندر صدق دریافت نہ پاتا تو طریقت کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کرتا ۔ حضرت شیخ علی نے دریافت کیا : یا حضرت وہ کیا ہے؟ حضرت شیخ نے فرمایا : – وو بازار میں مانگنا ہے۔ میں نے ان کے متعلق اسی طرح اپنے بعض برادران طریقت سے سنا ہے ۔ لیکن جو میں نے ان کی کتاب میں دیکھا ، وہ یہ ہے حضرت شیخ نے ان سے فرمایا ۔ اے صاحبزادے ! میں دیکھتا ہوں کہ تم یہ علم حاصل کرنا چاہتے ہو۔ لیکن تم جو اس علم تصوف کا ارادہ رکھتےہو۔ تو یہ بغیر رہنمائی کرنے والے پیر و مرشد کے تم حاصل نہ کر سکو گے ۔ لہذاوہ ان کی بیعت میں داخل ہو کر علم تصوف حاصل کرنے لگے ۔ اور اپنی موت تک تصوف ہی میں ثابت قدمی سے قائم رہے ۔ پھر جب انہوں نے اس کے سر کا مزہ چکھا اور ان اسرار کو پایا جو اس کے اندر ہیں۔ اور ان منزلوں اور مقاموں کو طے کیا جو مرید اپنی سیر میں کرتا ہے۔ تو انہوں نے اپنے مریدین کو اس کی سیر کرائی اور اس پر عمل کرنے کے لئے ان کی رہنمائی کی۔ لہذا سوال کے جائز ہونے کی بنیاد :- نفوس کو مارنا ہے۔ نہ کہ روپیہ پیسہ حاصل کرنا ۔ اس لئے جس شخص نے نفوس کے مارنے کے لئے سوال پر عمل کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قدس میں داخل ہو گیا۔ کیونکہ صرف نفوس کے زندہ ر بنے ہی نے ہم کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے محجوب کیا ہے۔ اور جو شخص روپیہ،پیسہ حاصل کرنے کے لئے سوال کرتا ہے ۔ وہ بدبختی اور تنگدستی میں مبتلا
ہوتا ہے۔ اور مانگنے کی حالت میں سائل کے لئے مناسب یہ ہے : – ہاتھ سے مخلوق کی طرف اشارہ کرے اور اس کا قلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ۔ مباحث میں فرمایا ہے :-
وَآدَابُ الصُّوفِي عِندَ الْمَسْئَلَةِ أَنْ يَدْخُلَ السُّوقَ إِلَيْهِ يَسْأَلَهُ
اور سول کرنے کے وقت صوفی کے آداب یہ ہیں کہ وہ بازار میں داخل ہو کر لوگوں سے سوال کرے۔
لِسَانُهُ يُشِيرَ نَحْوَ الْخَلْقِ وَقَلْبُهُ مُعَلَق بِالْحَقِّ
اس کی زبان مخلوق کی طرف اشارہ کرے اور اس کا قلب اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ۔
اور حضرت ابن لیون تجیبی نے سوال اور اس کی اصلیت کو بیان فرمایا ہے ۔ اور زنبیل کے مسئلے کو بھی بیان فرمایا ہے۔ زنبیل کا طریقہ اس طرح بیان کیا ہے :- پہلے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے ۔ پھر زنبیل یعنی برتن اپنے داہنے ہاتھ میں لے اور بازار میں نکل جائے ۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا آدمی بھی ہو۔ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرے اور آدمیوں کا ذکر کرے ۔ لوگ جو کچھ دیں وہ زنبیل میں رکھتا جائے۔ یہاں تک کہ جو کچھ میسر ہو ، وہ سب درویشوں کے سامنے رکھ دے۔ پھر سب مل کر بغیر تکلیف اور زحمت کے یہ حلال کھانا کھا ئیں۔
سوال کے حکم کے بارے میں جو کچھ ہم کو معلوم ہوا، وہ میں نے بیان کیا ہے۔ اور اب اس زمانہ میں جو حال ہمارے سامنے ظاہر ہے۔ اس حال میں سوال کا ترک کر دینا ، سوال کرنے سے بہتر ہے۔ کیونکہ اب سوال کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ اور دوسرے پیشوں کی طرح مانگنا بھی ایک پیشہ بن گیا ہے۔ اس لئے بہت سے فقیروں کا نفس اس کی طرف بڑھتا ہے اور یہ صرف اس لئے کہ اس میں نفس کا فائدہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔
اور سوال کرنے میں جو کچھ ملے ۔ اگر فقیر اس کا محتاج ہو ، تو خود اس کو لے لے اور اگر اسکو اس کی ضرورت نہ ہو، تو وہ اس کو پوشیدہ طور پر رات میں صدقہ کردے۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ۔ سوال کرنے سے ہمارا مقصد ارواح کی غذا ہے۔ تو اگر اس سے اجسام کی غذا بھی نکل آئے ، تو تبارک اللہ یعنی جس شخص کو اس کی حاجت ہو، وہ اس کو اپنے استعمال میں لائے۔ وباللہ التوفیق۔
اور حکمت جس کو حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بیان فرمایا ان اہم حکمتوں میں سے ہے، جن کی اہل تجرید کو حاجت ہوتی ہے۔
اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا مقصد سوال پر بحث کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان کا مقصد ، یقین کی تربیت اور مخلوق سے بے تو جہی کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ لہذا سائل کا قلب مخلوق سے وابستہ نہ ہونا چاہیئے ۔ لیکن اگر اس کا قلب مخلوق کی طرف متوجہ ہو ، تو اس کو وہ چیز نہ لینی چاہیئے ۔ جو اس کو دی جا رہی ہے ۔ اور جب تک وہ یہ نہ سمجھے کہ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اس وقت تک مخلوق سے لینے کے لئے اپنا ہا تھ اس کی طرف نہ بڑھائے۔ اور یہ سمجھ ذوق اور حال سے پیدا ہوتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ یہ شرط صرف ان چیزوں میں ہے، جن کو وہ بغیر سوال کے لیتا ہے۔ لیکن سوال کی حالت میں یہ معرفت شرط نہیں ہے۔ بلکہ سوال علم اور مجاہدہ کے ساتھ ہونا چاہیئے ۔ تا کہ وہ ذوق بن جائے۔ لیکن جو چیزیں بغیر سوال کے ملے ، اس کے لینے میں یہ معرفت ضروری ہے۔ ہمارے شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
یہ معرفت شرط نہیں ہے کہ دینے والا فی الحقیقت اللہ تعالیٰ ہے۔ بلکہ صرف اس بات کا علم کافی ہے اور یہی صحیح ہے کہ وہ اسوقت تک لوگوں سے لے سکتا ہے، جب تک اس کے نفس کی توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو ۔ لیکن اگر اس کا نفس مخلوق کی طرف متوجہ ہو، تو اس کو چاہیئے کہ مخلوق سے لینے سے باز رہے ۔ اور اللہ تعالی کی ضمانت کو کافی سمجھے۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:-
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں ہے اگر اس کی روزی کی ذمہ داری اللہ تعالی پر ہے۔
اک عارف سے دریافت کیا گیا:- آپ نے دنیا کو کیسے ترک کیا۔ جبکہ پہلے دنیا آپ کے پاس تھی اور آپ اس میں مشغول تھے ؟ انہوں نے جواب دیا:۔ میں نے اللہ تعالی کی اس آیہ کریمہ کے مفہوم میں انصاف کے ساتھ غور وفکر کیا :- و ما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا تو میں نے تمام مخلوقات کومچھر سے لے کر ہاتھی تک دیکھا، کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی روزی کا ضامن ہے۔ لہذا میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دیا۔ اور اس کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ہے :۔ تم لوگ روزی کی فکر نہ کرو ۔ کیونکہ ایک بچے کوچھوٹا ہونے کے باوجود ہر روز روزی ملتی ہے۔ یہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے ۔ مجھےاس شخص پر تعجب ہے جو دنیا کے لئے عمل ( محنت و مشقت دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ حالانکہ وہ دنیا میں بغیر کسی عمل کے روزی پاتا ہے ۔ اور آخرت کے لئے عمل نہیں کرتا ہے۔ حالانکہ آخرت کی روزی ( عمل کا ثواب ) عمل کے بغیر نہیں لے گی۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
مَنْ كَانَتِ الآخِرَةُ هَمَّهُ ‌جَعَلَ ‌اللَّهُ ‌غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ ‌رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ ، إِنَّ ‌الرِّزْقَ ‌لَيَطْلُبُ الْعَبْدَ كَمَا يَطْلُبُهُ أَجَلُهُ جو شخص آخرت کے لئے ارادہ ، اور فکر و عمل کرتا ہے۔ اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ اپنی غنا ء و بے نیازی پیدا کر دیتا ہے۔ اور دنیا اس کے پاس ذلیل اور عاجز ہو کر آتی ہے۔ اور جو شخص دنیا کے لئے ارادہ اور فکر و عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس کی محتاجی ، اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور اس کو دنیا میں سے اتنا ہی ملتا ہے، جتنا اس کیلئے مقدر ہو چکا ہے۔ اور روزی بندے کو اسی طرح تلاش کرتی ہے، جس طرح بندہ روزی کو تلاش کرتا ہے۔
حضرت یحی بن معاذ رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے تھے ۔ ایسے قلب کو حکمت یعنی معرفت حاصل نہیں ہوتی جس میں تین خصلتیں ہوں :-
اول : روزی کی فکر۔ دوم: مخلوق سے حسد – سوم :- مرتبہ کی خواہش ۔ حضرت حبیب عجمی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت کیا کرتےتھے۔ ایک روز حضرت حبیب عجمی نے اپنے اور حضرت حسن بصری کے افطار کے لئے کھانا تیار کیا۔ ناگاہ ایک سائل ان کے پاس آ گیا ۔ حضرت حبیب عجمی نے سب کھانا اس سائل کو دے دیا ۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا :- اے حبیب تمہارا یقین زیادہ اور علم کم ہے۔ تمہیں سائل کو آدھا کھانا دینا چاہیئے تھا۔ باقی آدھا ہم اور تم کھاتے ۔ حضرت حبیب عجمی نے عرض کیا : یا حضرت ! اس کا ثواب آپ کے لئے ہے۔ اور میں اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں۔ اب بات ہوئی تو دروازہ کھٹکھانے کی آواز آئی۔ حضرت حبیب باہر نکلے، تو دیکھا کہ ایک غلام بہت سا کھانا لئے ہوئے سخت سردی میں کھڑار ورہا ہے۔ حضرت حبیب نے دریافت کیا ۔ یہ کیا ہے؟ غلام نے کہا ۔ یہ کھانا ہے۔ میرے آقا نے مجھ سے کہا ہے ۔ اگر یہ کھانا تمہارے ہاتھ سے حضرت حسن بصری نے قبول کر لیا ، تو میں تم کو اللہ تعالی کی رضا مندی کے لئے آزاد کر دوں گا۔ میں بہت دنوں سے اس کی غلامی کر رہا ہوں ۔ حضرت حبیب نے فرمایا:- لا الہ الا اللہ ، غلام کو آزاد کرنا ، اور بھو کے کو کھانا کھلانا۔ پھر اس غلام کو ساتھ لے کر حضرت حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا:۔ یا حضرت !بیشک آپ کا علم زیادہ اور یقین کم ہے۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا:- اے حبیب ا تم ہم سے آگے بڑھ گئے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ ہمارے شیخ الشیوخ سے بھی اسی قسم کے واقعہ کی حکایت ہے۔ جو مجھ سے ان کی بعض مریدین نے بیان کیا۔ میں نے ان سے مزید تحقیق کے لئے پھر دریافت کیا انہوں نے فرمایا:- یہ واقعہ صحیح ہے۔
اور وہ واقعہ اس طرح ہے۔ ان کے گھر والوں نے بہترین کھانا تیار کیا۔ جب کھانا سب کے سامنے رکھا گیا، تو اچانک ایک سائل سامنے آ کر سوال کرنے لگا۔ حضرت شیخ نے سب کھانا اٹھا کر سائل کو دے دیا۔ اور ان کے اہل وعیال سب بھو کے رہ گئے۔ نماز عشا کے بعد دروازہ کھٹکھٹانے کی آوا زآئی۔ حضرت شیخ باہر نکلے تو دیکھا ۔ ایک شخص ہے ، اس کے ساتھ ایک خوانچہ ہے۔ جس میں بہت قسم کے کھانے ہیں۔ حضرت اس کھانے کو لے کر اپنے اہل وعیال کے پاس تشریف لے گئے۔
ایک دولت مند آدمی نے بیان کیا ہے ۔ میں سور ہا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا – ایک آدمی میرے پاس کھڑا کہہ رہا ہے :۔ مظلوم کی فریاد رسی کرو ۔ میں خوفزدہ ہو کر بیدار ہوا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں۔ پھر اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ ڈالا۔ میں نے ایک تھیلی میں ایک سو دینار لیا۔ اور ایک گھوڑے پر سوار ہو کر اس کا لگام چھوڑ دیا۔ وہ گھوڑا مجھے لے کر آبادی سے باہر نکلا اور ایک ویران مسجد کے پاس پہنچ کر ٹھہر گیا۔ میں گھوڑے سے اتر کر مسجد داخل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک مسکین اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری کرتے ہوئے اس کا فضل مانگ رہا ہے۔ میں نے اس مسکین سے اس کا حال دریافت کیا۔ اس نے کہا : میں صاحب عیال ہوں۔ میرے تین بچے ہیں۔ انہوں نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ اس لئے میں اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگ رہا ہوں۔ میں نے وہ سو دینار، جو اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کو دیا۔ اور اس سے کہا ۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو مجھ سے پھر مانگنا۔ میں فلاں شخص ہوں۔ تم میرے پاس چلے آنا ۔ اس نے کہا ۔ ہر گز نہیں اللہ تعالی کی قسم میں اللہ تعالی کے سوا کسی سے نہ مانگوں گا۔ پھر میں اللہ تعالی پر اس کے کامل اعتماد سے تعجب کرتا ہوا واپس آیا۔ یہ اللہ تعالی کے لشکروں میں سے ایک شخص کی حکایت ہے۔ جو اللہ رب العالمین کے ساتھ یقین کو مضبوط کرتی ہے۔ اور اعتماد کامل کا سبب بنتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بندہ اس بات پر شرم کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے اپنی حاجت پیش کرے۔ تو پھر غیر اللہ کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنے میں تو وہ بہت ہی زیادہ شرم کرے گا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں