بھروسے والی ذات (پہلا مراسلہ)

بھروسے والی ذات کے عنوان سے پہلے مراسلے کا تیسرا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔

وَإِلَيۡهِ ‌يُرۡجَعُ ‌ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُۥ فَٱعۡبُدۡهُ وَتَوَكَّلۡ عَلَيۡهِاوراللہ تعالیٰ ہی کی طرف سب امورلوٹتے ہیں۔ لہذا آپ اس کی عبادت کیجئے اور اس پر بھروسہ رکھیئے   ۔ اور دوسری جگہ فرمایا

قُلۡ إِنَّ ٱلۡأَمۡرَ ‌كُلَّهُۥ ‌لِلَّهِۗآپ فرما یادیجئے ، بیشک تمام امور اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں۔ لہذا جو شخص یہ یقین کر لیتا ہے کہ دنیا و آخرت اور نفوس وقلوب کے سارے امور اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ تو اس کی نظر اس کے ماسوا کی طرف باقی نہیں رہتی ہے اور وہ اپنے کل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ثابت قدمی سے جمع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وَمَن يَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ ‌حَسۡبُهُۥجو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کیلئے کافی ہے۔

اور جس شخص کیلئے اللہ تعالیٰ کافی ہو جائے تو اس سے کون سی شے فوت ہو سکتی ہے؟

حکایت ایک شیخ اپنے مریدین کے ساتھ حجاز کے میدان میں بغیر توشہ کے داخل ہوئے ۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد بھوک نے ان کو ستایا اور وہ بہت تکلیف میں مبتلا ہوگئے تو شیخ توکل کے راستے سے پھر گئے اور ایک درخت کوہلایا اس درخت سے پختہ کھجوریں گریں۔ ایک نوجوان کے سوا سب لوگوں نے ان کھجوروں کو کھایا۔ شیخ نے اس نو جو ان سے دریافت کیا تم نے کیوں نہیں کھایا؟ اس نو جوان نے جواب دیا میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کی نیت کی ہے اور کل اسباب کو ترک کر دیا ہے تو اب میں آپ کو اپنے لیے سب کیوں بنالوں تا کہ نفس اس کا مشتاق ہو جائے جو میں نے آپ ہی سے معلوم کیا ہے۔ پھر وہ نو جوان اپنے یقین کو درست رکھنے ، اور اپنے عہد کو پورا کرنے کیلئے ان لوگوں کی صحبت ترک کر کے علیحدہ ہو گیا۔

اور ان اشیاء میں سے جو یقین کو مضبوط کرنے ، اور توکل کو خالص کرنے میں مدد کرتی ہیں دنیا اور اہل دنیا کو ترک کر دیتا ہے۔

اس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔

وَإِنَّهُ لَا بُدَّ لِبَنَاءِ هَذَا الْوُجُودِ أَنْ تَنْهَدِمَ دَعَائِمُهُ ، وَأَنْ تَسْلُبَ كَرَائِمُه ُ

اور یہ ضروری ہے کہ اس وجود کی بنیاد کے ستون منہدم ہو جائیں اور اس کی زینتیں ختم ہو جائیں ۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری وجود کیلئے یہ حکم جاری کیا ہے ، کہ وہ باطن ہو جائیں لہذا یہ ضروری ہے کہ اس کے ستون منہدم ہو جا ئیں۔ اور ستون – و ہ اشیاء ہیں جن کے ذریعے کسی شے جو عادتا قائم رہتا ہے اور وہ یہاں ظاہری وجود کے منہدم ہونے اور اس کے دوسرے خلقت میں تبدیل ہونے کیلئے بطور استعارہ  استعمال کیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ

جس دن یہ ز مین اور آسمان دوسری زمین اور آسمان سے بدل دیے جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے۔

كُلُّ شَيْ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ اللہ تعالیٰ کے سوا ہرشے ہلاک ہو جانے والی ہے ؟۔ اہل ظاہر کی تفسیر کے مطابق ۔

اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زینتیں ختم ہو جائیں اور وہ دنیا کی وہ زیتیں ہیں جواللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں بیان فرمائی ہے۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ           خواہشات کی محبت انسان کیلئے مرغوب کر دی گئی ہے  ۔

لہذا جو شخص اس وجود کے فنا ہونے اور اس فانی عرض (دوسرے کی بنا پر قائم ہونے والی شی ) کے ختم ہونے کا یقین کر لیتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف گزرگاہ سمجھتا، اور اس سے گزر کر آخرت کی طرف چلا جاتا ہے۔ لہذاوہ اس کی سختیوں پر صبر کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے دنیا کے دن گزر جاتے ہیں۔ اور یہی وہ عقلمند ہے جس کا بیان مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے۔

فَالْعَاقِلُ مَنْ كَانَ بِمَا هُوَ اَبْقَى أَفْرَحَ مِنْهُ بِمَا هُوَ يَفْنٰى پس عقلمند وہ شخص ہے جو باقی رہنے والی اشیاء سے زیادہ خوش ہوتا ہے بہ نسبت فنا ہونے والی اشیاء کے  ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں