دعا عبودیت کا اظہار (اٹھارھواں باب)

دعا عبودیت کا اظہار کے عنوان سے اٹھارھویں باب میں  حکمت نمبر 166 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

اٹھارھواں باب

دعا کے آداب کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
166) لاَ يَكُنْ طَلَبُكَ تَسَبُّبًا إِلَى الْعَطَاءِ مِنْهُ فَيَقِلَّ فَهْمُكَ عَنْهُ ، وَلْيَكُنْ طَلَبُكَ لِإِظْهَارِ العُبُودِيَّةِ وَقِيَاماً بِحُقُوقِ الرُّبُوِبِيَّةِ .
اللہ تعالی سے تمہاری دعاء اس کے عطا کرنے کا سبب نہیں ہے۔ (لہذا تم اس سے کچھ حاصل کرنے کی نیت سے دعا نہ کرو) اور اگر تم ایسا کرتے ہو۔ تو اللہ تعالی کی سمجھ تمہارے اندر کم ہے۔ بلکہ اللہ تعالی سے تمہاری دعا عبودیت ( بندگی ) کے ظاہر کرنے اور ربوبیت کے حقوق کے ساتھ قائم رہنے کے لئے ہونی چاہیئے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اس کتاب کی ابتدا میں یہ بیان گزر چکا ہے۔ کہ عقل وسمجھ والوں( عارفین ) کے نزدیک ساری دعائیں معلول ( ناقص ۔ یا ۔ ثابت) ہیں۔ لہذا اگر دعا مانگو اور دعا مانگنی شرعا ضروری ہے تو عبودیت کے ظاہر کرنے اور ربوبیت کے حقوق کو ادا کرنے کیلئے دعا مانگنی چاہیئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی سے تمہاری دعا ۔ اس کے دینے کا سبب نہیں ہے اور ا گر تم ایسا سمجھتے ہو تو اللہ تعالی کے متعلق تمہارے اندر سمجھ کی کمی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی کی سمجھ کا تقاضا ہے ۔ اللہ تعالی کے علم کو کافی سمجھنا اور اس کی معرفت کے ساتھ بے نیاز ہونا۔ لہذا اللہ تعالی کی سمجھ رکھنے والا نہ کسی شے کا محتاج ہوتا ہے نہ کسی شے میں مشغول ہوتا ہے۔ تو جب کوئی شے اس کو نہیں ملتی ہے تو اس کی نظر صرف اس چیز پر ہوتی ہے، جو قدرت کی اصل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا ہے۔ جو اس کے لئے اس کے مولا کی مرضی ہے۔ بعض عارفین سے دریافت کیا گیا ۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ۔ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
دعاسے اور اپنے محبوب کی مناجات سے تمہارا مقصود ، اپنی حاجتوں کے پورے ہونے کی خوشی نہ ہونی چاہیئے ۔ تا کہ تم محبوبین میں شامل ہو جاؤ۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ دعا کا فائدہ – اللہ تعالی کے سامنے اپنی محتاجی ظاہر کرنی ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے :۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اےمیرے رب ! میں بھوکا ہوں ۔ مجھ کو کھانا کھلا دے۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی ۔ مجھ کو معلوم ہے کہ تم بھوکے ہو۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کی ۔ اے میرے رب مجھے کو کھلا دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:- جب میری مرضی ہو گی ۔ کھلاؤں گا ۔ اور یہ انتہائی درجہ والوں کا مقام ہے۔
لیکن ابتدائی درجہ والے ۔ تو ان کے لئے حاجتیں طلب کرنے اور کثرت سے دعا مانگنے اور عاجزی کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ ان کے لئے دعا واجب یا مستحب ہے۔ اور انہیں کے بارے میں دعا کرنے کی ترغیب اور اس میں عاجزی کرنے کی ہدایت وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :-
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تم لوگ مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا ۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا ۔
أَمَّن يُجِيبُ ٱلۡمُضۡطَرَّ إِذَا دَعَاهُ کون ہے۔ جو مجبور کی دعا کو قبول کرتا ہے ۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے۔
بعض اخبار میں وارد ہوا حضرت موسی علیہ السلام سے اللہ تعالی نے فرمایا ۔ مجھ سے مانگویہاں تک کہ اپنے آٹے کا نمک بھی مجھ سے مانگو۔ یہ کمزور لوگوں کے لئے بطور شرعی قانون کے فرمایا گیا۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کمزور اور طاقتور سب کے لئے معلم بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اور دعا میں پوری طرح ادب کا لحاظ رکھنا چاہیئے ۔ لہذا کسی ایسی چیز کے لئے دعا نہ کرنی چاہیئے ۔ جو شریعت میں منع کی گئی ہے۔ اور نہ ایسی چیز کے لئے دعا کرنی چاہیئے ۔ جو عقل کے نزدیک محال ہے۔ اور دعاء عاجزی وانکساری اور مجبوری و محتاجی کے ظہور کے ساتھ ہونی چاہیئے ۔ نہ کہ خوشی و ناز برداری کے ساتھ ۔ کیونکہ خوشی اور ناز کے ساتھ دعا ، ایسے اللہ والوں کا مقام ہے جو اہل رسوخ وکمال ہیں۔ اور اسی سلسلے میں حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے جو انہوں نے اپنے حزب کبیر میں فرمایا ہے۔ یہ بزرگی نہیں ہے، کہ تم صرف اسی کے ساتھ نیک سلوک کرو، جس نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیا ہے۔
قوت القلوب میں بیان کیا گیا ہے ۔ بنی اسرائیل سات سال تک قحط میں مبتلا ر ہے۔
پس حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ستر ہزار آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر دعا جو استسقا (پانی طلب کرنے ) کے لئےنکلے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی کی ۔ میں ان لوگوں کی دعا کس طرح قبول کروں۔ جبکہ ان کے اوپر ان گناہوں کی تاریکیاں چھائی ہوئی ہیں۔ اور ان کے باطن خبیث ( نا پاک) ہیں۔ لہذا یہ لوگ یقین کے بغیر دعا کریں گے اور میری حکمت سے بے خوف رہیں گے۔ تم ان کو لے کر واپس جاؤ۔ میرے خاص بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔ اس کا نام برخ ہے۔ تم اس سے کہو کہ وہ پانی مانگنے کے لئے نکلے ۔ تو میں اس کی دعا قبول کروں گا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے برخ کے متعلق دریافت کیا۔ لیکن ان کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اسی درمیان میں حضرت موسی علیہ السلام ایک راستے پر جارہے تھے کہ اچانک ایک حبشی غلام ان کے سامنے آیا۔ اس کے دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر سجدے کا نشان تھا۔ وہ اپنے کندھے پر ایک چادر رکھے ہوئے تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس کو اللہ تعالی کے نور سے پہچانا۔ تو اس کو سلام کیا۔ پھر پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا ۔ میرا نام برخ ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے فرمایا : میں کچھ عرصہ سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں۔ آپ باہر میدان میں چلئے اور ہمارے لئے اللہ تعالی سے پانی طلب کیجئے۔ تو وہ میدان میں تشریف لے گئے۔ اور اپنی دعا و مناجات میں اللہ تعالی سے اس طرح خطاب کیا:-
کیا یہ تیرا کام ہے۔ اور کیا یہ تیرا حکم ہے۔اور کیا تجھ کو یہ معلوم ہے۔ کہ تیرے پانی کے چشمے تیرے لئے خشک ہو گئے ہیں آیا ہواؤں نے تیرے علم کی فرماں برداری سے منہ موڑ لیا ہے۔ یا تیرا خزانہ ختم ہو گیا ہے۔ یا تیرا غضب گنہگاروں پر سخت ہو گیا ہے؟ کیا تو خطا کاروں کی خطا سے پہلے غفار بخشنے والا ) نہیں تھا؟ تو نے رحمت کو پیدا کیا۔ اور بخشش کا حکم دیا۔ تا کہ تو اپنے علم کی مخالفت کرنے والے کے لئے ہو۔ یا تو ہم کو یہ دکھاتا ہے۔ کہ تو روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یا تو فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔ اس لئے سزا دینے میں جلدی کرتا ہے ؟ وہ برا بر یہی فرماتے رہے اور اتنی بارش ہوئی کہ بنی اسرائیل پانی سے تر ہو گئے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدھے دن میں گھاس اور سبزیاں اگا دیں۔ اور وہ بڑھ کر گھوڑے پر سوار کے برابر ہوگئیں۔ پھر برخ واپس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کا استقبال فرمایا اور ان سے کہا:- آپ کا یہ خطاب کیسا ہے جس سے آپ نے اللہ تعالی کو مخاطب کیا ہے۔تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو وحی فرمائی :۔ ان کو چھوڑ دو ۔ کیونکہ ان کی دعا سے مجھ کوہنسی آ جاتی ہے۔
پس تم اس حکایت میں غور کرو ۔ دعا، کس طرح خوش طبعی (مذاق ) کے طور پر واقع ہوئی ہے۔ جس کو اہل معرفت اور تمکین کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے اور جو شخص اللہ والوں کے مقامات تک نہیں پہنچا ہے۔ اس کے لئے اللہ رب العالمین کے ساتھ ادب کا لحاظ رکھنا اور اس سے ڈرنالا زمی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں