عبادات اوقات مقررہ میں مقید کرنا (اکیسواں باب)

عبادات اوقات مقررہ میں مقید کرنا کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 194 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
عبادتوں سے غفلت اورسستی کرنا نفس امارہ کی شان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کے لئے وقت مقرر کر دیا۔ جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
194) قَيَّدَ الطَّاعَاتِ بِأَعْيَانِ الأَوْقَاتِ لِئَلاَّ يَمْنَعَكْ عَنْهَا وُجُودُ التَّسْوِيفِ ، وَوَسَّعَ عَلَيْكَ الوَقْتَ لِتبْقى لَكَ حِصَّةُ الاخْتِيَارِ .
اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کو مقررہ اوقات کے ساتھ مقید کردیا تاکہ ٹال مٹول اور کاہلی تم کو عبادت سے نہ روک دے۔ اور تمہارے لئے عبادتوں کے ادا کرنے کے وقت کو وسیع کر دیا۔ تا کہ تمہارےلئے اختیار باقی رہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- عمل میں سستی اور ٹال مٹول کرنا ، اور لمبی امید باندھنا نفس کی شان ہے۔ تو اگر اس کو اس کے اختیار کے ساتھ چھوڑ دیا جائے، تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو گا۔ اور چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو یہ علم ہے، کہ اس کے بندوں میں ایسے لوگ بھی ہیں ، جن کو صرف محبت نہیں ابھارتی ہے اور صرف رغبت ان کو نہیں کھینچتی ہیں۔ بلکہ ان کو صرف دوزخ کا خوف اور امتحان کی زنجیریں اللہ تعالی کی طرف کھینچتی ہیں۔ یا جنت کی نعمت کے حرص کا جال ، اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچتا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طاعت سے پھر گیا، اس کے لئے اس نے درد ناک عذاب کی وعید فرمائی۔ اور جس شخص نے اس کی اطاعت کی اور اس کا قرب حاصل کیا۔ اس کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتوں کا وعدہ فرمایا۔ پھر وہ احکام اور فرائض ان کے اوپر واجب کئے ، جن میں اس کی اطاعت ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ان کے ادا کرنے کے لئے مخصوص وقت مقررفرمایا۔ کیونکہ اگر وہ ان کو اپنے بندوں کا اختیار پر چھوڑ دیتا، تو فرائض و احکام کے ادا کرنے کے ساتھ بہت ہی کم لوگ یعنی صرف شوق و محبت والے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، کہ اس نے عبادتوں کے لئے مخصوص اوقات کو وسیع فرما دیا۔ اس طرح بندوں کے لئے اختیار کا حصہ باقی رہ گیا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ظہر کے وقت کو عصر تک اور عصر کے وقت کو سورج کے زرد ہونے تک اور مغرب کے وقت کو عشا تک اور عشا کے وقت کو آدھی رات تک اور فجر کے وقت کو طلوع آفتاب کے قریب تک وسیع کر دیا۔ اے بندو! اللہ تعالیٰ نے ان عبادتوں کو جو تمہارے اوپر واجب کیا ہے ، مقررہ اوقات کے ساتھ مقید کر دیا۔ تا کہ کاہلی اور ٹال مٹول تم کو عبادتوں کے ادا کرنے سے روک نہ دے ۔ پھر تم کو اس حد تک نہ پہنچا دے کہ تم عبادتوں کو بالکل چھوڑ دو ۔ اور عبادتوں کے اوقات کو تمہارے لئے وسیع کر دیا ۔ تا کہ تمہارے لئے اختیار کا کچھ حصہ باقی رہے۔
اس لئے اگر اللہ تعالیٰ تمہارے لئے وقت کو تنگ کر دیتا ، تو یہ بہت سی پریشانیوں اور مجبوریوں کا سبب بن جاتی ۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مِلَّتِهِ وَوَسُعَةِ رَحْمَتِهِ سب تعریفیں اس کے احسان اور اس کی رحمت کے وسیع ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے :۔ میں تم کو عدم سے وجود میں لایا ۔
پھر میں نے فضل و کرم کی امداد سے تمہاری مدد کی۔ میں نے تمہاری آنکھ میں روشنی پیدا کی تا کہ تم اس سے میری قدرت کی دلیلوں اور عظیم الشان نشانیوں کو دیکھو ۔ اور تمہاری بصیرت میں نور عطا فر مایا تا کہ تم اس سے میرے خطاب کو سمجھو ۔ اور اطاعت کےذریعے میرے عذاب سے بچو۔ اور میرے ثواب کی امید رکھو۔ کیونکہ میں نے اطاعت پر تم سے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ اور نافرمانی پر تم کو عذاب کی وعید فرمائی ہے۔ پھر میں نے تم کو ان اعمال کی تکلیف دی ، جس کے کرنے کی تم طاقت رکھتے ہو اور میں نے تمہارے لئے اوقات کے سلسلے میں ہر تنگی کو وسیع کیا ۔ لہذا اگر تم ان اعمال کو جو میں نے تمہاری ابتدائی عمر میں تمہارے اوپر واجب کیا ہے، آخری عمر میں بھی ادا کرتے تو میں ان کو تمہاری طرف سے قبول فرمالیتا ۔ لہذا بتاؤ وہ کون ہے جس نے تم کو ان کے ادا کرنے سے روکا؟ اس کے لئے تمہارے پاس گمراہی اور سرکشی کے سوا کوئی عذر نہیں ہے۔
اور یہ مشہور مثل ہے ۔ جو طلب کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور جو ڈر جاتا ہے۔ وہ ناکام ہو جاتا ہے۔ اور غور کرو : اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو مجاہدہ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر وہ شے واجب کرلی جو اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کا قول سب سے سچا ہے ۔
وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَاور بیشک اللہ تعالیٰ احسان والوں کے ساتھ ہے۔
وَٱلَّذِينَ جٰهَدُواْ فِينَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ ‌سُبُلَنَاۚجولوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ، ہم اپنی راہوں کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
اور مندرجہ ذیل اشعار میں اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔
لَوْ صَحَ مِنْكَ الْهَوَى أَرْشِدْتَ لِلْجَبَلِ وَالصِّدُقُ سَیْفٌ يُنِيْلُ غَايَةَ الْآمَلِ
اگر تمہارا عشق سچا ہوتا تو پہاڑ کی طرف تمہاری رہنمائی کی جاتی ۔ کیونکہ سچائی ایسی تلوار ہے، جو امید کے آخری درجے تک پہنچا دیتی ہے۔
فَكُنْ أَخَاهِمَّةٍ تَسْمُو بِصَاحِبِهَا وَلَا تَكُنُ بِالتَّوَانِي مُحْبِطُ الْعَمَلِ
لہذا تم ایسی ہمت کے مالک ہو، جو اپنے مالک کو بلند کر دیتی ہے اور تم سستی سے عمل کو ضائع نہ کرو
حضرت ربیع بن خیثم رضی اللہ عنہ اس آیہ کریمہ کو بار بار پڑھتے اور روتے تھے ۔
أمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ تَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کیا جن لوگوں نے گناہ کیا ہے، انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے۔ کہ ہم ان لوگوں کو ان لوگوں کی طرح بنادیں گے، جو ایمان لائے ہیں اور اچھا عمل کیا ہے۔
اور چیخ کر کہتے تھے ۔ اے کاش مجھ کو یہ معلوم ہوتا ، اے میرے نفس ! تو دونوں گروہوں میں سے کس گروہ میں ہے؟
اور اس آیہ کریمہ کا نام : مبكِیَةُ الْعَابِدِينَ عابدین کو رلانے والی ہے۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ اہل موافقت ، اہل مخالفت کی طرح نہیں ہیں۔ اہل موافقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيکٍ مُّقْتَدِرٍ قدرت والے بادشاہ اللہ تعالیٰ کے پاس صدق کے مقام میں ہوں گے ۔
اور اہل مخالفت کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فِي عَذَابِ السَّعِيرِ عذاب دوزخ میں ہوں گے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں