علمائے سوء کی مثال (باب  نہم)

علمائے سوء کی مثال کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 85 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ظاہر میں مشغول ہونے والے، اور باطن کی طرف پہنچنے والے کا بیان کرتےہوئے فرمایا:
فَالنَّفْسُ تَنْظُرُ إِلَى ظَاهِرِ غِرَّتِهَا ، وَالقَلْبُ يَنْظُرُ إِلَى بَاطِنِ عِبْرَتِهَا.
پس نفس اس کے دھوکا میں مبتلا کرنے والے ظاہر کی طرف دیکھتا۔ اورقلب اس کے نصیحت کرنے والے باطن کی طرف دیکھتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: نفس اس کے دھوکا میں مبتلا کرنے والے ظاہر کی طرف اس لئے دیکھتا ہے کہ اس میں اس کی خواہشات اور فوائد کے سامان ہیں ۔ تو نفس کو اس میں سے نہیں نکال سکتا ہے ۔ مگر بے قرار کرنے والا شوق ، یا بھگانے والا خوف یا اللہ تعالیٰ کی عنایت ، جو شیخ کامل کے وسیلے سے، جس کے پاس ظاہر کو بدل دینے والی اکسیر ہو۔ یا بغیر وسیلے کے (وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ) اللہ تعالیٰ بڑافضل والا ہے ۔ اور قلب، اس کے نصیحت کرنے والے باطن کی طرف نظر کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس میں عرفان کا نور ہے۔ جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے۔ اور مفید اور مضر میں تمیز کرتا ہے۔ اور یہ تقویٰ اور تصفیہ کا نتیجہ ہے۔
یا تم اس طرح کہو:۔ قلب، باطن کی طرف اس لئے دیکھتا ہے کہ اس میں بصیرت کی آنکھ ہے۔ جو صرف حقیقت یعنی باطن کو دیکھتی ہے۔ بخلاف بصر کی آنکھ (سر کی آنکھ ) کے جو صرف محسوس یعنی ظاہر کو دیکھتی ہے۔
تو حاصل یہ ہوا: اہل نفوس: اشیاء کے ظاہر میں مشغول ہو گئے۔ اور اس کے وقتی اور فوری فائدوں سے دھوکا کھا گئے۔ اور آنے والے وقت یعنی آخرت کے لئے تیاری نہیں کیا۔ پس وہ عمل سے باز رہے۔ اور جھوٹی تمناؤں ، اور لمبی امیدوں نے ان کو دھو کے میں رکھا۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سید نا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خبر وارد ہوئی ہے۔ وہ فرماتے تھے۔
وَيْلَكُمْ يَا عُلَمَاءَ السُّوءِ مَثَلُكُم كَمَثَلِ قَنَاتٍ حَش ظَاهِرُهَا جَصٌ وَ بَاطِنُهَا نَتَنٌ اے علماء سوء! تمہارے لئے تباہی ہو۔ تمہاری مثال ایسے بیت الخلاء (پاخانہ) کی چھت اور دیوار کی طرح ہے جس کا ظاہر یعنی باہر کی طرف چونے سے قلعی کیا ہوا سفید اور چمکدار نظر آتا ہے۔ اور اس کا باطن یعنی اندر گندہ اور بد بو سے بھرا ہوا ہے۔
اور اہل باطن :- اشیاء کے ظاہر میں نہیں مشغول ہوئے۔ بلکہ وہ اس کے باطن میں پہنچے۔ اور آنے والے مقررہ وقت یعنی آخرت کے لئے تیاری کی۔ اور اس کے وقتی فائدوں کے دھو کے میں نہیں مبتلا ہوئے۔ پس محنت اور کوشش میں مشغول ہو گئے ۔ اور زاد راہ کی تیاری میں لگ گئے ۔ اوروہ عابدین اور زاہدین ہیں۔
اور اہل ارواح و اسرار تو وہ نہ دنیا کے موجود و ظاہر میں مشغول ہوئے ۔ نہ اس کے باطن یعنی آخرت کے ساتھ ٹھہرے۔ بلکہ وہ آگے بڑھ کر ملکوت کے نور کی طرف پہنچے ۔ تو وہ قلوب کی صفائی اور علام الغیوب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی حضوری کی تیاری میں مشغول ہوئے ۔ یہاں تک کہ وہ حضوری کے لائق ہو گئے۔ اور فکر و نظر یعنی مشاہدہ کے باغیچوں میں سیر کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:۔ أولئِكَ حِزْبُ اللهِ ، أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں۔ خبردار ہو جاؤ اللہ تعالیٰ کی جماعت والے ہی کامیاب
ہیں۔
أُولئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ یہی لوگ مقربین ہیں ۔ جو نعمت کے باغوں میں ہیں ۔ یا ہوں گے ۔
فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيکٍ مُّقْتَدِرٍ اقتدار والے بادشاه الله تعالیٰ کے پاس مقام صدق میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے احسان کرم سے ہم کو ان لوگوں میں شامل کرے آمین اور یہ لوگ اور جو لوگ ان سے تعلق رکھتے ہیں


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں