قساوتِ قلبی

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُكْثِرُوا الكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ القَلْبُ القَاسِي(سنن الترمذی کتاب الزھد:شعب الایمان للبیھقی)

حضرت عبد اﷲ ابن عمررضی اﷲتعالیٰ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا ۔اﷲ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نہ کیا کرو کیونکہ اﷲ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں کرنا دل کی سختی کا باعث بنتے ہیں اوراﷲ سے وہ لو گ زیادہ دور ہیں جن کے دلوں میں قساوت ہوگی ۔

                ’قسوۃ‘‘اور’’قاسیہ‘‘ قساوت سے مشتق ہے جس کے معنی سخت دل ہونا ، سینہ کا تنگ ہونا اور پتھر بن جاناکے ہیں۔ ’’ارض القاسیہ ‘‘اس زمین کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز بھی نہ اُگے اور’’ لیلۃ القاسیہ‘‘ شدید اندھیری رات کو کہتے ہیں اس سے مراد سختی ،شدت اور شرہے اس کی ضد ’’رِقَّت‘‘ ہے جس کے معنی دل کی نرمی، رحمت ورأفت اور خشوع کے ہیں۔ جوشخص اﷲ کے ذکر اور اس کے احکامات کا اثر قبول نہ کرے اور حق کے نفوذ اور سرایت کی گنجائش نہ رکھتا ہو اس کے متعلق قرآن یہ لفظ استعمال کرتا ہے قساوت کاسوائے اﷲ کے ذکر کے کوئی علاج نہیں’’ فویل للقاسیۃ قلوبھم من ذکرا ﷲ‘‘پس ہلاکت ہے ان سخت دلوں کیلئے جو ذکر خدا سے متأثر نہیں ہوتے ۔(الزمر :22)

اذا قسا القلب لم تنفعہ موعظۃ کالارض اذا سبخت لم ینفع المطر

    جب قلب میں قساوت پیدا ہوتی ہے تو اسے نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی جس طرح زمیں کلر والی ہو جائے تو بارش اسے نفع نہیں دے سکتی

                ایسے قلوب جو علم وحکمت سے دور ہوتے ہیں ان میں حقیقی قساوت ہوتی ہے انہیں قرآن پتھروں کی طرح کہتا ہیفھی کالحجارۃ جبکہ لوہا اور پتھر تو نرم ہوجاتے ہیں جنکے دل نرم نہ ہوں ان پتھروں سے بدتر ہیں بلکہ ایسے پتھروں کی توہین ہے جو حق کی پہچان رکھتے ہیں کہ ان بدنصیبوں کے ساتھ تشبیہ دی جائے کہاں یہ پتھر جن کے متعلق آپ ا کا فرمان عالی شان ہے ’’میں مکہ کے ان پتھروں کو جانتا ہوں جواعلان نبوت سے پہلے مجھے سلام کرتے تھے اور میں اب بھی انہیں پہچانتا ہوں ‘‘ کیا سخت دل والے جو واضح احکامات کو چھوڑ کر نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں ان پتھروں جیسے ہوسکتے ہیں کہ آقا ان کی پہچان رکھتے ہوں؟۔فاعتبروا یا اولی الابصار

                اگر اﷲ کے ذکر کے بغیر دوسری باتوں سے قساوت قلبی پیدا ہوتی ہے تو اس کا علاج بھی یہی ذکر ہے جس سے دلوں کی نرمی اور رقت پیدا ہوتی ہے جسے قرآن اذا ذکر اﷲوجلت قلوبھم سے بیان فرماتا ہے ۔اور رسول اﷲﷺکا ارشاد گرامی ہے لکل شئی صقالۃ وصقالۃ القلوب ذکر اﷲ(البیہقی فی دعوات الکبیر ۔مشکوۃالمصابیح کتاب الدعوات )ہر شے کا زنگ دور کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے دلوں کا زنگ اﷲ کا ذکر دور کرتا ہے ۔

دل کی قساوت اﷲ کے ذکر سے دوری اور کثرت گناہ کا نتیجہ ہے ۔اورتنبیہ الغافلین میں علامہ سمر قندی فرماتے ہیں

قساوت قلبی کی چار وجوہات ہیں (۱)پیٹ بھر کر کھانا (۲)بُرے شخص کی صحبت(۳)پہلے کئے ہوئے گناہوں کو بھول جانا (۴)لمبی امیدیں رکھنا

اﷲ کا ذکر نہ کرنااور لا یعنی گفتگو بھی قساوت قلبی کا سبب ہے حدیث مبارکہ میں ہے

لا تکثرواالکلام بغیر ذکر اﷲفتقسواقلوبکم فان القلب القاسی بعید من اﷲ ولکن لا تعلمون (مؤطا امام مالک :کتاب الجامع)

مت باتیں کرو سوائے ذکر الٰہی کے کہ کہیں تمہارے دل سخت نہ ہو جائیں اور سخت دل اﷲ سے دور ہیں لیکن تم نہیں جانتے ۔

                بعض لوگ ظاہری علوم و معارف کو کافی جان کر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور اس قساوت کا علاج تو کجا اسے بیماری ہی نہیں جانتے ان کیلئے سوچنے کا مقام ہے اوراسی کے متعلق مفتی محمد بن مصطفےٰ الرومی کتاب ’’البریقۃ المحمودیہ فی شرح الطریقۃ المحمدیہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔

                ’’پس جب کوئی انسان صرف علم فقہ کو سیکھتا ہے اور علم تصوف و حکمت نہیں سیکھتا توتو یہ قساوت قلبی کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ ایسے علوم میں مشغول ہے جن کا تعلق مخلوق کے احوال سے ہے القلب القاسی بعید من اﷲ سخت دل اﷲ کی رحمت کاملہ سے دور ہوتا ہے لہذا صرف فقہ کا علم زہد اور حکمت کے بغیر قابل تعریف نہیں بلکہ قابل مذمت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم قلب کی غفلت کا سبب ہے اسی لئے کہا گیا جس نے بغیر زہد وورع کے فقہ حاصل کی فسق میں مبتلا ہوا ‘‘

اسی کی تائید یہ حدیث کرتی ہے

العلم علمان فعلم فی القلب فذالک العلم النافع(سنن الدارمی:مصنف ابن ابی شیبہ:شئب الایمان للبیھقی )

علم دو قسم کے ہیں وہ علم جو دل میں ہو یہی نفع دینے والا علم ہے ۔

امام غزالیؒ کو بطور حوالہ ہر کوئی پیش کرتا ہے آپؒ فرماتے ہیں

لیس العلم بکثرہ الروایۃ انما العلم نور یقذف فی القلب (احیاء العلوم الدین )

علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم ایک نور ہے جو اﷲ تعالیٰ قلب میں ڈالتا ہے ۔

                اس تعریف کے ساتھ اب اس حدیث مبارکہ کو پڑھا جائے تو بڑے بڑے ظاہری علم کے سمندر قطرہ آب کے محتاج نظر آئیں گے۔

                ما زہد عبد فی الدنیا الا اثبت اﷲ الحکم فی قلبہ وانطق لہالسانہ وبصرہ عیب الدنیا ودائھا ودوائھا (شعب الایمان للبیہقی)

                جو بھی شخص دنیا میں زہد وقناعت اختیار کریگا تو اﷲ تعالیٰ اس کے قلب میں حکمت کے چشمے پیدا فرمادے گا اور اس کی زبان کو ان حکمتوں کے ساتھ ناطق وگویا بنا دیگا اس کو دنیا کے عیب بھی دکھا دے گا اور اس کی بیماریاں اور علاج بھی ۔

                ایسی ہستیاں جن کے قلوب سے علم و حکمت کے چشمے جاری ہوتے ہیں اﷲ کو بہت مقبول ہیں المعجم الکبیر الطبرانی میں ہے

                عبدی المومن احب الی من بعض الملائکتی(بندہ مومن مجھے بعض ملائکہ سے بھی زیادہ محبوب ہے )

فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

مزید ظاہری علم اور وعظ نصیحت کے اثرات کے متعلق ابن عجیبہ تفسیر’’ البحر المدید‘‘ میں فرماتے ہیں ۔

                ’’وعظ و تذکیر اہل ایمان و تنویرکوہی سمجھ آسکتا ہے کیونکہ قلب کی قساوت کفر اور گناہ کا سبب ہوتی ہے سخت دلوں کو وعظ و نصیحت جانوروں کی طرح سنائی دیتا ہے جس کی آواز ہوتی ہے مگر سمجھ نہیں ہوتی ظاہری علم والوں کا وعظ دلوں میں رقت پیدا نہیں کرتابلکہ دلوں کی سختی کا سبب بنتا ہے کیونکہ جو وعظ رقت قلب اور تنویر قلب نہ پیدا کرے فضول ہے وعظ و نصیحت کا کام قربت حق اوراﷲ کی حرمت کی تعظیم پیدا کرنا ہے اور ایسی چیزوں کی تعظیم جو اﷲ کی طرف سے آئی ہیں ایسے علم کی وارث ہی اولیاء وعلماء اورعرفاء ہوتے ہیں ‘‘۔

لا ینجح الوعظ فی القلوب القاسیہ کما لا یزکوالبذر فی الارض الجاسیۃ

وعظ و نصیحت بھلا سخت دلوں کو کیا فائدہ دیگا یہ اسی طرح ہے جیسے ناکارہ زمین پر گٹھلی نہیں اُگ سکتی

اگرچہ ا لفاظ سخت ہیں مگرسلطان باہوؔفرماتے ہیں

                ’’علم کے معنی جاننا ہے سب سے پہلے آنحضرت نے علم کو جانا یعنی اﷲ جل مجدہ کی معرفت کو سب سے پہلے جانااور دنیا والوں کو معرفت عطاکی مجھے تعجب آتا ہے ان عالموں سے جو بے عمل ہیں علم محمدی کے جاننے کے خلاف کہتے ہیں اور دنیا کے علموں کو پڑھنا فرض سمجھتے ہیں اور کافروں کی رسموں کو قبول کرتے ہیں العالم الطامع کالفطیء والمستمع منہ کالعقیم فلا یتولد منہ نفع ولا حذر

 لالچی عالم کی مثال مرد عینین کی ہے کہ دیکھنے میں تو مرد ہے مگراصل میں نامردہے اور سننے والے کی مثال بانجھ عورت کی ہے کہ خوبصورت ہے مگر اس کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا ‘‘(محک الفقرص76,)

                اس بیماری کو پہچاننے والے ان کاملین کی صحبت کو اکسیر جان کر دوسروں کو بھی علاج بتاتے ہیں جیسا کہ حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں

  یا بنی جالس العلماء وزاحمھم برکبتیک فان اﷲ یحی القلوب بنور الحکمۃ کما یحی الارض المیتۃ بوابل (مؤطا امام مالک کتاب الجامع ما جاء فی طلب العلم )

                اے بیٹے اﷲ کی معرفت رکھنے والوں کے پاس بیٹھا کر اور اپنے گھٹنے ان سے ملا دے کیونکہ اﷲ تعالیٰ زندہ کرتا ہے دلوں کو حکمت کے نور سے جیسے زندہ کرتا ہے مردہ زمین کو بارش سے ۔

دلوں کو حکمت کا نور کیوں نہ عطا ہوانہوں نے اپنا سب کچھ پروردگار عالم کیلئے خالص کر لیا ہے ایسے مخلصین کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے طوبی لتلک القلوب والوجوہ والارواح التی اخلصت لی(دلائل النبوۃ الاصفھانی)ایسے دلوں ،چہروں اور جانوں کیلئے مبارک ہو جو میرے لئے اخلاص رکھتے ہیں ۔

اور علامہ مناوی فرماتے ہیں کے سخت دل انسان حق کو قبول کر ہی نہیں سکتا اگرچہ دلائل کی کثرت ہو ۔

معلوم یہ ہوا کہ قساوت قلبی کا علاج سوائے کاملین کی صحبت اور انکی صحبت کاملہ کیساتھ اﷲ کا ذکر ہی ہے ۔صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین نے یہ اعمال کئے تو ان کی زندگیاں سورج کی طرح روشن و منور ہمارے سامنے ہیں جس کی ایک ادنیٰ سی جھلک اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے ۔

                مسلم کتاب الجہاد والسیرمیں ہے ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا کہ رسول اﷲﷺکے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص ناراض ہو کر ان کے دین سے مرتد ہوا تو انہوں نے جواب دیا نہیں تو ہرقل نے کہا جب ایمان دل میں رچ بس جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے (وکذالک الایمان اذا خالط بشاشۃالقلوب )الحمد ﷲ ایسی مبارک ہستیاں ہمیں نصیب ہیں جن کے پاس آنے والے آج بھی دنیا ومافیھا کو چھوڑ کر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں ۔

اللھم انا نعوذبک من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم والقسوۃ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں