محنت قابل قدر بناتی ہے (اکیسواں باب)

محنت قابل قدر بناتی ہے کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 198 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جو چیز دل کو روشنیوں میں داخل ہونے سے روکتی ہے وہ غیر قوموں کی موجودگی ہے۔حکم کی وضاحت میں جوش و جذبہ بیدار کرنا
رُبَّمَا وَرَدَتِ الظُّلَمَ عَلَيْكَ لِيُعَرِفَكَ فَدُرَمَا مَنَّ بِهِ عَلَيْكَ
اکثر اوقات تمہارے اوپر تاریکیوں کو وارد کرتا ہے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ اس احسان کی قدر تم کو پہنچوائے ، جو اس نے ان تاریکیوں کے ذریعے تمہارے اوپر کیا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ کہ جو چیز تلاش اور محنت کے بعد ملتی ہے، وہ اس سے زیادہ مزے دار اور قابل قدر ہوتی ہے۔ جو بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے۔ اور جدائی کے بعد جو محبت پیدا ہوتی ہے ، وہ اس محبت سے زیادہ شیریں اور پائدار ہوتی ہے، جو بغیر جدائی کے حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ خلوص اور صفائی جو ظلم اور سختی کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ وہ اس خلوص اور صفائی سے زیادہ خالص اور صاف ہوتی ہے، جو ظلم اور سختی کے بغیر حاصل ہوتی ہے۔ اور نفس کو اس کی مرغوب چیزوں اور عادتوں سے جدا کر کے فرمان بردار کرنا ، اس سے زیادہ اہم ہے کہ وہ بغیر محنت اور سختی کے فرماں بردار ہو جائے ۔ کیونکہ بردا را جرت ہو، یا قدر و منزلت محنت اور کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔
لہذا بندے کے اوپر پہلے غفلت اور شہوت وارد ہونے میں یہی حکمت ہے ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو اس غفلت اور شہوت سے باہر نکالے۔ تو وہ اس نعمت کی قدرومنزلت کو پہنچانے ، جو اللہ تعالی نے اس کو عطا فرمائی ہے۔
لہذا اے انسانو! اکثر اوقات اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ظلمتوں کو مسلط کرتا ہے اور ظلمتوں سے مراد : غیر اللہ اور کدورت نفسانی اور خواہشات و عادات کی محبت ہے۔ لہذا تم غیروں اور کدورتوں اور خواہشوں اور عادتوں کے سمندر میں ڈوب جاتے ہو ۔ اور انکی تاریکیوں کے قید خانے میں مقید ہو جاتے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ تم کو ایک گھڑی میں ان تاریکیوں سے نکال لیتا ہے۔ اور ایسا اللہ تعالیٰ اس لئے کرتا ہے۔ تا کہ تمہارے اوپر معرفت الہی کا دروازہ کھل جانے کے بعد تم اس احسان کی قدر و منزلت کو بہچا نو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر کیا ہے۔ پھر تم ایک پہچان کے بعد اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کا شکر زیادہ سے زیادہ کرو ۔ اور تمہارے نزدیک اس کے اسرار کا مرتبہ اور قدر بڑھ جائے اور تم ان کے حق کو پہچانوں اور غیر مستحق سے ان کی حفاظت کرو۔ اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جنت کو مکروہات ( سختیوں ) سے گھیر دیا ہے۔ تا کہ بندے اس میں داخل ہونے کے بعد اس نعمت کی قدر کو پہچا نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرما کر ان کے اوپر احسان کیا ہے۔ اسی طرح عارفین کی جنت بھی سختیوں سے گھری ہوئی ہے۔ تا کہ عارف اس سر کی قدرد منزلت کو پہچانے ، جو اللہ تعالیٰ نے اس پر ظاہر کیا ہے۔ اور اس کامیابی کی قدر کو جانے ، جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بخشی ہے۔
اور تم کو یہ جاننا چاہیئے ۔ کہ یہ ظلمتیں ، جو قلوب پر وارد ہو کر علام الغیوب اللہ تعالیٰ سے روک دیتی ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت سے دنیا اور نفس اور شیطان کی طرف سے پیدا ہوتی ہے۔ لہذا جو شخص دنیا کو ترک کر دیتا ہے۔ اور اپنے عکس سے غائب ہو جاتا ہے۔ اور اپنے ہاتھ کو اس سے آزاد کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اتنا کرتا ہے۔ کہ شیطان جل کر پگھل جاتا ہے۔ تو وہ شخص احباب کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ علم غیوب کا دروازہ اس پر کھل جاتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب قلب کو پیدا فرمایا۔ تو اس کو اپنے اسرار کا خزانہ اور اپنے انوار کی کان اور اپنے بندے کے اندر اپنے دیکھنے کا مظہر بنایا اور اللہ تعالیٰ نے بندے کے وجود میں قلب سے افضل کوئی شے نہیں پیدا فرمائی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قلب کے دروازے پر سب سے کمتر اور نجس شے ڈالدی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے۔ مختلف متضاد اشیا کا ایک جگہ جمع ہونا۔ جن کے ایک جگہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو قدرت حاصل نہیں ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے قلب کے دروازے پر مردار اور کتے کو ڈال دیا۔ مردار — دنیا ہے۔ اور کتا – شیطان ہے۔ کتا، مردار کو نوچ کر کھارہا ہے۔ لہذا جو شخص اللہ تعالیٰ کے سر کے خزانے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لئے مردار دنیا سے آنکھ بند کر لینا اور کتے شیطان سے منہ پھیر لینا لازمی اور ضروری ہے اس لئے کہ جس شخص نے شیطان سے اور اس کی مردار دنیا سے منہ پھیر لیا، اس پر شیطان کے غالب ہونے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ اور جو شخص دنیا اور شیطان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس سے وہ نور چھن جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کے قلب میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ اور یہ اس کے لئے اس طلسم کی طرح ہے، جو خزانے پر ہوتا ہے۔ اور و ہ لا محالہ خزانے میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔
عارفین نے فرمایا ہے ۔ دنیا، شیطان کی لڑکی ہے اور دنیا دار ، ابلیس کا داماد ہے۔ لہذا باپ اپنی بیٹی سے کبھی جدا نہیں ہو سکتا ہے۔ جب تک لڑکی شوہر کی حفاظت میں ہے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:۔
إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِ خَيْرًا زَهَدَهُ فِي الدُّنْيَا وَرَغَبَهُ فِي الْأُخْرَى وَبَصَّرَهُ بِعُيُوبِ نَفْسِهِ ، قيل : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَيُّ النَّاسِ شَرٌّ ؟ قَالَ : الْأَغْنِيَاءُ يَعْنِي الْبَخَلَاءَ ، ثُمَّ قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ : وَ مَنْ عَظَمَ غَنِيًّا لَآجُلِ غِنَاهُ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ كَعَابِدِ وَثَن وَ مَنْ آسف على دُنْيَا فَاتَتْهُ اقْتَرَبَ مِنَ النَّارِ مَسِيرَةَ سَنةٍ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے ۔ تو اس کے اندر دنیا سے نفرت اور آخرت کی طرف رغبت پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اس کے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا:- یا رسول اللہ کون لوگ برے ہیں ؟ حضرت ﷺ نے فرمایا ۔ وہ مالدار جو بخیل ہیں۔ پھر حضرت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ۔ جو شخص کسی دولتمند کی عزت و تعظیم اس کی دولت کی وجہ سے کرتا ہے۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک بت پرست کی طرح ہے۔ اور جو شخص دنیا کے کھو جانے پر افسوس کرتا ہے۔ وہ دوزخ کی طرف ایک سال کی مسافت ( فاصلہ ) کے برابر بڑھ کر قریب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی ۔ جس شخص نے مال سے محبت کی ۔ اس نے مجھ سے محبت نہیں کی۔ اور جس نے دنیا سے محبت کی ۔ اس نے مجھ سے محبت نہیں کی۔ کیونکہ ایک قلب میں میری محبت اور مال و دنیا کی محبت کبھی نہیں سما سکتی ہے اے موسے جو شخص مخلوق سے ڈرتا ہے، وہ مجھ سے نہیں ڈرتا ہے اور جو شخص روزی کے کھو جانے سے ڈرتا ہے وہ میرے اوپر بھروسہ نہیں کرتا ہے ۔ مجھ کو اپنی عزت و جلال کی قسم ، جو بندہ میرے او پر بھروسہ کرتا ہے، میں اس کے لئے کافی ہو جاتا ہوں۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ ملک اور ملکوت کی کنجیاں میرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں اور جو بندہ مجھ کو مضبوط پکڑتا ہے۔ میں اس کو جنت میں داخل کرتا ہوں۔ اور اس کے کل اہم اور ضروری کاموں کے میں کافی ہوں ۔ اور جو شخص میرے سوا غیر کو مضبوط پکڑتا ہے۔ تو میں اس کے اوپر کی طرف سے اسباب و ذرائع کو منقطع کر دیتا ہوں ۔ اور اس کے نیچے کی طرف سے زمین کو سخت کر دیتا ہوں اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کو کس طرح ہلاک کر دوں ۔
اے موسے میں نے تمہارے لئے توریت کو پانچ کلموں ( ہاتوں ) پر ختم کیا ہے۔ اگر تم ان پر عمل کرو گے۔ تو کل علوم تمہارے لئے مفید ہوں گے۔ ورنہ کوئی علم بھی تم کو فائدہ نہ پہنچا سکے گا۔
پہلا کلمہ :۔ تمہارے لئے جس روزی کی ذمہ داری میں نے لی ہے ۔ اس پر پورا یقین اور بھروسہ رکھو۔ جب تک میراخزانہ بھرا ہوا ہے۔ اور میرا خزانہ ہمیشہ بھرا ر ہے گا ۔ کبھی خالی نہ ہوگا۔
دوسرا کلمہ :- جب تک میری بادشاہت ہےتم کسی بادشاہ سے نہ ڈرو ۔ اور میری بادشاہت ہمیشہ رہے گی ۔ کبھی نہ مٹے گی۔
تیسراکلمہ : – جب تک تمہارے اندر کوئی عیب موجود ہے تم دوسرے کے عیب کو نہ دیکھو۔ اور بند ہ عیب سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا ہے۔
چوتھا کلمہ :۔ جب تک تمہارے جسم میں تمہاری روح ہے ، اس وقت تک تم شیطان سے جنگ کرنا بند نہ کرو ۔ کیونکہ شیطان کبھی تم سے جنگ کر نا بند نہیں کرے گا۔
پانچواں کلمہ – جب تک تم اپنے کو جنت میں نہ دیکھ لو، مجھ سے بے خوف اور بے فکر نہ رہو۔ اور جنت میں بھی آدم علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ تم کو معلوم ہے۔ لہذا مجھ سے بھی ہے خوف اور بے فکر نہ رہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یہ سب دوسروں کے لئے تشریع ( قانون سازی ) ہے کیونکہ تمام انبیاءعلیهم السلام معصوم ہیں۔ اور جو تعلیم و تربیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے مراد، ان کے علاوہ ، ان کی امت اور دوسرے لوگ ہیں ۔وباللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں