معارف و اسرار کے لوازمات (بائیسواں باب)

معارف و اسرار کے لوازمات کے عنوان سےبائیسویں باب میں  حکمت نمبر 206 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے ۔
206) فَرِّغْ قَلْبَكَ مِنَ الأَغْيَارِ يمْلأْهُ بِالمَعَارِفِ وَالأَسْرَارِ.
تم اپنے قلب کو اغیار سے خالی یعنی پاک کرو ۔ تو یہ پاکیزگی تمہارے قلب کو معارف و اسرار سے بھردے گا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ اے فقیر تم اپنے قلب کو اغیار یعنی ماسوی اللہ سے اس طرح پاک کرو کہ تمہارے قلب کا تعلق کا ئنات کی کسی شے سے باقی نہ ر ہے ۔ خواہ وہ علوی ہو ، یا سفلی ۔ خواہ وہ دنیوی ہو، یا اخروی خواہ وہ ظا ہری ہو ، یا باطنی ۔ جیسا کہ فوائدمیں سے خصوصیت وغیرہ کی خواہش ۔ لہذا جب تمہارا قلب اس عالم سے بالکل کوچ کر جائے اور اس میں اس کے مولائے حقیقی کی محبت کے سوا کچھ باقی نہ رہے تو وہ یقینا معارف سے اس طرح بھر جائے گا کہ تمہارے اوپر سے رحم کا حجاب اٹھ جائیگا اور تمہارے اندر سے ظاہر کی تاریکی دور ہو جائے گی ۔ اور تم کل اشیا کو ملکوتی انوار مشاہدہ کرو گے۔ اور یہ مشاہدہ ذوق و تمکین کا مشاہدہ ہوگا۔ اور پھر قلب جبروت کے اسرار سے بھی بھر جائے گا۔ لہذا تم جمع کے ساتھ فرق سے اور جبروت کے مشاہدہ کے ساتھ ملکوت کے مشاہدہ سے غائب ہو جاؤ گے ۔ اور قدر کے اسرار تمہارے اوپر منکشف ہوں گے ۔ پھر تمہارے اوپر رضا و تسلیم کی ملکی اور ٹھنڈی ہوا چلے گی اور تم بادشاہ کریم اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیشہ قائم رہنے والی نعمتوں میں ہوں گے۔ لہذا اس بیان کے مطابق اسرار : معارف سے بلند اور کامل ہیں ۔ کیونکہ معارف . ملکوت کے انوار کو کہتے ہیں اور اسرار :- جبروت کے انوار کو کہتے ہیں ۔ اور کبھی سائر کے سامنے ملکوت کا نور ظاہر ہوتا ہے۔ تو وہ کل کائنات کو نور ہی نور دیکھتا ہے۔ اور وہ ان انوار کا اس لئے محتاج ہے۔ تاکہ وہ ان کے ذریعے ذات کے مشاہدہ تمکین کی طرف ترقی کرے۔
جیسا کہ پڑھنے والا لفظوں کے دیکھنے اور پڑھنے کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ معنی کو یاد کر کے مضبوطی سے ذہن نشین کر لیتا ہے۔ تو اس کو لفظوں کی حاجت نہیں رہتی ہے۔ لہذا وہ ان کا خیال بھی نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح، پہلے سالک کے سامنے کائنات کا نور ظاہر ہوتا ہے۔ تو وہ ظاہر کی تاریکی سے نکل کر اس نور میں گم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ہمیشہ سیر کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ حقیقت کے مقام پر قابض ہو کر متمکن یعنی مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو مشاہدہ کی حاجت باقی نہیں رہتی ہے۔
اور جبروت کے نور کے پالینے کی بناء پر وہ ملکوت کے نور سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔اور اس حقیقت کا بیان، مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کے ضمن میں پہلے ہو چکا ہے۔
سیر کرنے والے، جب معرفت کو پالیتے ہیں تو غیر اللہ ان کے قلوب کی آنکھ سے بالکل غائب ہو جاتا ہے۔ اور وہ احدیت کے مشاہدے میں اپنی ذات اور ظاہر سے بالکل گم ہو جاتے ہیں۔ ایک عارف شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے :-
إِنْ تَلاقَى الْكَوْنُ عَنْ عَيْنٍ قَلْبِي شَاهَدَ السِّرُّ غَيْبَهُ فِي بَيَانِ
اگر میرے قلب کی آنکھ سے مخلوق غائب ہو جائے ۔ تو سر اپنے غیب کو عیاں دیکھے۔
فَاطْرَحَ الْكَونَ عَنْ عِیَانِكَ وَامْحُ نُقْطَةَ الْغَيْنِ إِنْ أَرَدْتَ تَرَانِي
لہذاتم اپنی آنکھ سے مخلوق کو گرا دو ۔ اور غین کے نقطے (یعنی غیر کے عیب ) کو مٹادو۔ اگر تم مجھ کو دیکھناچاہتے ہو۔
اور یہ بھی احتمال ہے : کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے معارف سے علوم عرفان اور اسرار سے ، ذوق اور وجدان ، مراد لیا ہو۔ کیونکہ معارف :- معرفت کے علوم ہی ہیں، اس حیثیت سے کہ وہ ہرشے میں معرفت حاصل کرتا ہے۔ اور کسی شے کا انکار نہیں کرتا ہے۔ اور اسرار :- ان علوم کے ذوق کو کہتے ہیں اور معرفت پہلے علم ہوتی ہے۔ اور آخر میں ذوق بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی احتمال ہے :۔ کہ واؤ عطف تغیر کے لئے ہو ۔ اس صورت اسرار ہی معارف ہوں گے ۔والله تعالیٰ اعلم
اور جو شخص اس مقام تک سیر کر کے جلدی پہنچنا چاہتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ اپنے قلب کو اغیار سے خالی کر کے پوری طرح پاک وصاف کرے۔ کیونکہ قلب اغیار سے جس قدر خالی اور پاک ہوتا ہے۔ اس قدرا نوار و معارف سے آراستہ ہوتا ہے۔ اور جس قد رصفائی ہوتی ہے۔ اس قدر ترقی ہوتی ہے۔ اس لئے عارفین نے سائر کو نکاح کرنے اور اسباب و ذرائع کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے روک دیا ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر تعلق سے پاک نہیں ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی تعلق اس کو ہوتا ہی ہے۔ اور جب تک ہر تعلق سے پاک نہ ہو ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ پھر جب وہ حقیقت میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ تو اس کے معروف اللہ تعالیٰ کی مراد کے سوا ، اس کی کوئی مراد باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ اور وہ ایسا ہو جاتا ہے۔ کہ جو کچھ اس کے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوتا ہے۔ وہ اس کو بخوشی قبول کرتا ہے۔ اور اگر مرید کے لئے سفر لمبا ہو جائے ۔ یعنی اس کی کامیابی میں تاخیر ہو جائے ۔ اوروہ ان اسرار کو نہ پائے۔ اور اس کے اوپر وہ انوار نہ ظاہر ہوں ۔ تو وہ اس کو اپنے رب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش میں تا خیر نہ سمجھے ۔ کیونکہ وہ بہت بڑائی اور بخشش کرنے والا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے توجہ کرنے اور اس کی طرف سبقت کرنے میں کوتا ہی تصور کرے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں