نور سے خالی حقیقتیں (بیسواں باب)

نور سے خالی حقیقتیں کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 185 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کا کلام ہی ان کے مرتبہ کے طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور تصوف انہیں کے ہاتھوں سے واضح اور درست ہوا۔ انہوں نے منزلوں کو قریب کر دیا اور مسلکوں کو بہترین طریقے پر اور مختصر لفظ و اشارہ میں بیان فرمایا۔ اللہ تعالی ان کو مسلمانوں کی طرف سےبہترین اجر عطا فرمائے۔ پھر حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کلام کو بیان فرمایا :- جس کے بیان کرنے کی اجازت کلام کرنے والے کو نہ دی گئی ہو ۔ چنانچہ فرمایا ۔
185)  رُبَّمَا بَرَزَتِ الْحَقَائِقُ مَكْسُوفَةَ الْأَنْوَارِ، إِذَا لَمْ يُؤْذَنَ لَكَ فِيهَا بِالْإِظْهَارِ
ا کثر اوقات حقیقتیں نور سے خالی ہونے کی حالت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ کیونکہ تم کو انہیں ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ کبھی انسان حکمتوں اور حقیقتوں کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ بے ساختہ بیان کرتا ہے، لیکن وہ نور اور اسرار سے خالی ہوتی ہیں۔ نہ ان میں کچھ شیرینی ہوتی ہے۔ نہ ان میں کوئی خوبی اور قبولیت ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کو ان کے بیان کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے کہ اگر اس کو ان کے بیان کرنے کی اجازت دی جاتی تو نور کا لباس ان کے اوپر ضرور ہوتا اور سننے والوں کے قلوب پر ان کا اثر یقینا ہوتا۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے لطائف المنن میں فرمایا ہے :- اللہ تعالی اپنے اولیا ئے کرام کو جو نعمتیں اور بخششیں عطا فرماتا ہے۔ ان میں بہت بڑی بخشش شریں بیانی اور عبارت کی فصاحت ہے۔
نیز مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے :۔ میں نے اپنے شیخ حضرت ابوالعباس سے سنا۔ وہ فرماتے تھے ۔ ولی معارف اور علوم سے بھر پور ہوتا ہے۔ اور اسکے نزدیک حقیقتیں مشہور ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کو بیان عطا کیا جاتا ہے تو یہ اس کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے بیان کرنے کی اجازت کے مثل ہے
نیز مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا – میں نے حضرت ابو العباس کو فرماتے ہوئے سنا:۔ اجازت پائے ہوئے کا کلام جب نکلتا ہے ، تو اس کے اوپر نور اور قبولیت کا غلاف ہوتا ہے۔ اور سننے والوں کے قلوب میں اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور جس کو اجازت نہیں دی گئی ہے، اس کا کلام نور سے خالی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کے قلوب میں اس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ دو شخص ایک ہی حقیقت بیان کرتے ہیں، لیکن ایک شخص کا بیان مقبول ہوتا ہے اور دوسرے شخص کا بیان مقبول نہیں ہوتا ہے اور رد کر دیا جاتاہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ بیان کرنے والوں کو چاہیئے کہ وہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق خطاب کریں اور ابتدائی درجہ والوں کے سامنے انتہائی درجہ والوں کی طرح بیان نہ کریں۔
حدیث شریف میں وارد ہے :- خَاطِبُوا النَّاسَ بِقَدْرٍ مَا يَفْهَمُونَلوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق خطاب کرو ۔
ہاں اگر وقت تنگ ہو اور ہر ایک کے لئے علیحدہ بیان کرنا ممکن نہ ہو، تو ابتدائی ، اور درمیانی انتہائی درجہ والے سب کے لئے ایک ساتھ بیان کریں۔ ہر شخص اپنا حصہ لے لیگا۔ اور اپنے چشمےسے پانی پئے گا۔
قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَناسٍ مَّشْرَبَهُم شخص نے اپنے پانی پینے کے گھاٹ کو پہچان لیا ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ کا یہی طریقہ تھا : وہ حاضرین کے سامنے علانیہ حقائق بیان فرماتے تھے ۔ ان سے اس کے بارے میں کہا گیا :- آپ سب کے سامنے حقائق ومعارف کیوں بیان فرماتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا :۔ ہمارا علم اس سے محفوظ ہے کہ نا اہل اس کو سمجھے۔ یا اسی قسم کی بات فرمائی جس کا مفہوم یہی ہے۔ پھر اجازت کے بعد ان کا کلام صرف حکمت ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں