وجود عدم کیسے ظاہر ہوا (چوبیسواں باب)

وجود عدم کیسے ظاہر ہوا کے عنوان سےچوبیسویں باب میں  حکمت نمبر 235 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
قاضی علی کے پوچھے گئے مسائل میں سے بعض مسائل مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کی تشریح میں پہلے بیان کئے جاچکے ہیں ۔
يا عَجَبًا كَيْفَ يَظْهَرُ الْوُجُودُ فِي الْعَدَمِ تعجب ہے کہ وجود عدم میں کیسے ظاہر ہوتا ہے؟
اگر تم چاہتے ہو، تو اس قول کی تشریح کو پھر پڑھو ۔ اور باقی مسائل کو میں نے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ ان کا بیان میری تصنیف کردہ کتابوں میں کثرت سے موجود ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ
یہ صوفیائے کرام کی وہ تکلیف اور مصیبت ہے ، جو حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور اپنے انبیا علیہم السلام اور اولیا رضی اللہ عنھم کے لئے اللہ تعالیٰ کی نہیں سنت جاریہ واقع ہوئی ہے۔ ان حضرات پر تمام انسانوں سے زیادہ بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ اور تم ہمارے شیخ الشیوخ حضرت شیخ ابن مشیش رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر غور کرو جو اپنے زمانہ کے مشہور قطب تھے ۔لیکن وہ قتل کئے گئے ۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے ۔ اور اس طرح ان کے مرید کا واقعہ ، جو قاضی ابن براء کے ساتھ پیش آیا۔ اور وہ واقعہ اس طرح ہے:۔ قاضی ابن براء نے ان کو تیونس سے نکال دیا۔ اور ان کے بارے میں مصر کے گورنر کے پاس خط لکھا اور ان کے اوپر یہ بہتان قائم کیا کہ وہ ہنگامہ بر پا کرنا چاہتے ہیں اور وہ بادشاہت کے طلبگار ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی مددفرمائی اور ان کو ظالموں کے پنجے سے نجات عطا کی جس طرح اپنے اولیائے کرام کی مددکرنا ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی شان ہے۔
اور اسی طرح حضرت غزوانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ۔ جب ان کی تربیت مکمل ہو گئی اور ان کی ہدایت ظاہر ہو گئی۔ یعنی انکو معرفت میں استقامت حاصل ہوگئی ۔ تو ان کے شیخ حضرت شیم التباع نے ان کو ان کے شہر میں رہنے کے لئے بھیج دیا اور وہ حضرت شیخ ابن مشیش کے مزار مبارک کے قریب قبیلہ بنوز کار میں مقیم ہوئے ۔ جب انہوں نے وہاں کے بازار کو آباد کیا۔ اور مخلوقات ان کی طرف سر کے بل دوڑی۔ تو سلطان مرینی کے پاس ان کی شکایت کی گئی ۔ سلطان نے ان کے پاس سپاہیوں کو بھیجا۔ سپاہی ان کو گرفتار کر کے عرائش لے گئے۔ کیونکہ سلطان وہیں مقیم تھا۔ پھر ان کو فاس روانہ کر دیا۔ وہاں وہ چار مہینے یا چھ مہینہ جیل میں رہے ۔ یہاں تک کہ جب سلطان فاس میں آیا تو ان کو رہا کیا۔ لیکن ان کے اوپر اپنے ساتھ فاس میں رہنے کی پابندی لگادی ۔ لہذاوہ بادشاہ کے ساتھ رہنے لگے۔ پھر جب مرینیوں کا زمانہ ختم ہونے کے قریب آیا۔ تو وہ وہاں سے مراکش تشریف لے گئے۔ اور فرمایا ۔ بنی مرین کی حکومت ختم ہوگئی ۔ کچھ وہ مراکش میں مقیم رہے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ اور میں نے بیان کیا ہے :۔ حضرت شبلی رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اور حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ بسطام سے نکالا گیا۔ یہ بہت مشہور واقعہ ہے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ جب اللہ تعالیٰ حق کے ظاہر ہونے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو اپنے مخلوق میں سے کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ جو اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اور اس کو مٹاد دینا چاہتا ہے۔
پھر یہ اس کے ظاہر اور وسیع ہونے کا سبب ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نبی پر مجرمین میں سے ایک دشمن مسلط کیا اور اولیائے کرام پر بھی دشمنوں کو مسلط کیا۔
اسی مفہوم میں عارفین کے یہ اشعار ہیں:۔
إِذَا أَرَادَ اللَّهُ نَشْرَ فَضِيلَةٍ طُويَتْ أَتَاحَ لَهَا لِسَانَ حَسُودٍ
جب اللہ تعالیٰ کسی فضیلت کو مشہور کرنا چاہتا ہے۔ تو اس کے لئے حاسد کی زبان تیار کر دیتا ہے ۔
لَو لَا إِشْتِعَالُ النَّارِ فِي مَا جَاوَرَتْ مَا كَانَ يُعْرَفُ طِيبُ عَرفِ الْعُودِ
ا گربتی میں اگر آگ نہ جلتی تو اس کی خوشبو نہ ظا ہر ہوتی ۔
اور ہم نے اس موضوع پر اس لئے لمبی تشریح کی ہے، کہ اس موضوع کا تقاضا یہی تھا۔ کیونکہ تصنیف کا وقت جلال کے سامنے آ گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے احباب و متعلقین کو حضرت محمد مصطفے ﷺ اور ان کی آل کےطفیل اپنی تائید عطا فرمائے ۔
اور تائید کی علامت : سختیوں اور مصیبتوں کے وقتوں میں اس طرح تو حید کی حفاظت کرنی ہے کہ وہ ابرا ہیمی ہو جائے ۔ تاکہ جب وہ جلال کی آگ میں پھینک دیا جائے اور اس کے سامنے مخلوق آکر اس سے کہے ۔ کیا تمہاری کچھ حاجت ہے؟ تو عارف مخلوق کو جواب دے تم سے میری کوئی حاجت نہیں ہے۔ میری حاجت صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اور وہ اس سے بخوبی واقف ہے۔ پھر اس وقت اللہ تعالیٰ جلال کی آگ کو حکم دے۔
يَٰنَارُ كُونِي ‌بَرۡدٗا وَسَلَٰمًا عَلَىٰٓ إِبۡرَٰهِيمَ اے آگ تو میرے ولی پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا۔
لبذا آگ کی گرمی ،ٹھنڈک اور سلامتی میں تبدیل ہو جائے ۔
سید نا حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
مَا رَآبْتُ نَعِيمًا قَط مِثْلَ تِلكَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنتُ فِيهَا فِي النَّارِ جتنے دن میں آگ میں رہا، اس کی طرح کوئی نعمت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اسی طرح جلال کی آگ کی طرح کوئی نعمت نہیں ہے۔ ، جبکہ وہ ٹھنڈک اور سلامتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی جب وہ رضا کی ٹھنڈک اور تسلیم کی سلامتی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو نعمت مکمل ہو جاتی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں