اکیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الحادی والعشرون فی عدم الالتفات الی الخلق ‘‘ ہے۔

  منعقده 25/ ذیعقدہ 545 بروزمنگل بوقت شام بمقام مدرسہ قادر یہ

 دنیا آخرت سے حجاب ہے، اور آخرت اللہ سےحجاب ہے

دنیا آخرت سے حجاب ہے ، اور آخرت ، دنیا و آخرت کے رب سےحجاب ہے، ہر ایک مخلوق اپنے خالق سے حجاب ہے۔ جس چیز پر ٹھہر جاؤ وہی حجاب ہے، چنانچہ تو خلقت اور دنیا اور ماسوی اللہ کی طرف توجہ نہ کر ، یہاں تک کہ اپنے باطن کے قدموں اور ماسوی اللہ کو چھوڑ چھاڑ کر سب سے بر ہنہ وا لگ ہو کر اللہ کے دروازے پر حاضر نہ ہو جاؤ ۔ اس حال میں کہ ذات الہی میں حیران، اس سے فریاد کر، اس سے مدد کے طالب ہو کر سابقہ تقدیر وعلم الہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، پس جب تیرے دل اور باطن کا وہاں پہنچ جانا ثابت متحقق ہو جائے گا ، اور یہ دونوں بارگاہ الہی میں داخل ہو کر مقرب بن جائیں ، اور نزدیک ہو جائیں تو وہ تجھے زندگی بخشے گا اور خلقت کے دلوں پر حاکم بنا دے گا اور تجھے ان پر امیر مقرر کر دے گا ، اور تمہیں مخلوقات کے دلوں کے امراض دور کرنے کے لئے طبیب بنا دے گا۔ اس وقت تو مخلوق اور دنیا کی طرف توجہ کرو، تمہاری تو جہ خلقت کے حق میں نعمت خداوندی ہوگی ، تیرا ان کے ہاتھوں سے دنیا کو لے لینا، اور فقیروں کولوٹا دینا، اور اس میں سے اپنا حصہ لینا تمہارے حق میں اطاعت و عبادت اور سلامتی کا باعث ہے۔ جو دنیا کو اس طرح سے حاصل کرے گا ، دنیا اسے کوئی نقصان نہ دے گی ، بلکہ وہ دنیا میں سلامتی کے ساتھ رہے گا اور جو کچھ اس کے نصیب میں ہے وہ دنیا کی خرابیوں سے پاک و صاف رہے گا۔

اولیاءاللہ کے چہرے پر ولایت کی علامت اہل نظر ہی پہچانتے ہیں

 اولیاء اللہ کے چہروں پر ایک خاص علامت ہوتی ہے جنہیں اہل نظر ہی پہچانتے ہیں۔ کیونکہ ولایت کا اظہار اشارت سے  ہوتا ہے زبان سے نہیں جو شخص نجات کا طالب ہے اسے چاہئے کہ اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اور اپنے  دل سے خلقت اور دنیا کو ایسے نکال دے جیسے بال گندھے ہوئے آٹے اور دودھ سے نکل جاتا ہے۔ اس طرح آخرت اور ما سوا اللہ سے نکل جائے ۔ اب اللہ کے حضور میں حاضر ہو کر ہر ایک حق دار کو اس کا حق ادا کرے، اور دنیا وآخرت سے اپنا نصیب بھی حاصل کرے ۔اس حال میں کہ تو دروازے پر ہے اور دنیا  اور آخرت تیرے سامنے ہاتھ باندھے خادم بنے کھڑے ہیں۔ تو دنیا سے اپنا نصیب یوں نہ کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو، بلکہ تو اسے بادشاہ کے دروازے پر اس طرح سے کھا کہ تو ۔ بیٹھا ہوا ہواوردنیا  تیرے سامنے سر پر خوانچہ اٹھائے کھڑی ہو۔ تم مخدوم بن کر بیٹھے ہو، اور وہ تمہارے سامنے ذلیل ہو۔ دنیا اس کی خدمت کرتی ہے جو اللہ کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، اور جو دنیا کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، دنیا اسے ذلیل کرتی ہے۔ تو دنیا سے غنا اور خدادادعزت کے ساتھ حصہ وصول کر ۔

 دنیا و آخرت میں اہل اللہ کی اللہ سے رضا مندی

اللہ کے خاص بندے اللہ تعالی سے دنیا میں مفلس رہ کر راضی ہیں ، اور آخرت میں اس کے قرب میں رضامند ہوں گے۔ وہ اللہ کے سوا کسی کے طالب نہیں ،انہوں نے جان لیاکہ دنیا تقسیم کی جا چکی  انہوں نے دنیا کی طلب کو چھوڑ دیا، انہوں نے جان لیا کہ آخرت کے درجات اور جنت کی نعمتیں بھی تقسیم ہو چکیں ۔ انہوں نے اس کی طلب اور اس کے لئے عمل کو بھی چھوڑ دیا۔ وہ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور چیز کو نہیں چاہتے  وہ جنت میں داخل ہونگے  تو اپنی آنکھیں نہ کھولیں گے جب  تک کہ جنت میں اللہ کی ذات کا نور نہ دیکھ لیں گے۔ تو تنہائی اور جدائی سے دوستی رکھ ، جس کا دل خلقت اور اسباب سے خالی نہ ہو ، وہ نبیوں اور صدیقوں اور صالحین کی راہ پر چلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ وہ قلیل دنیا پر قناعت کرے اور کثیر کوقدرت کے حوالے نہ کر دے تو زیادہ دنیا کی طلب نہ کر ورنہ وہ تجھے بربادکردےگی۔ اللہ تعالی اگر خود بخودتمہارے اختیار کے بغیر بہت سا عنایت کر دے تو تم اس میں سب طرح سے محفوظ رہو گے ۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لوگوں کو اپنےعلم اور کلام سے نصیحت کیا کر “ اے واعظ ! تو اپنے باطن کی صفائی اور دل کے تقوی کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کر ، ظاہرکوا چھا بنا کر برے باطن کے ساتھ نصیحت نہ کر اللہ تعالی نے ایمان والوں کے دلوں میں ان کے پیدا کرنے سے پہلے ایمان لکھ رکھا ہے، یہی سابقہ تقدیر ہے، مگرسابقہ کے ساتھ ٹھہر جانا اور اس پر بھروسہ کر لینا جائز نہیں ہے بلکہ کوشش اور ہمت اور طاقت صرف کرنی چاہئے ۔ ایمان اور یقین کے حصول کے لئے محنت کر ، اس میں اللہ تعالی کی خوشبوؤں کی طرف توجہ کر اور اس کی رحمت کی چوکھٹ پر پڑارہ ۔ ہاں ہمارے دلوں کو ایمان کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، عین ممکن  ہے کہ اللہ تعالی بغیر کسی محنت اور مشقت کے عطا کر دے، کیا تمہیں حیا نہیں آتی کہ اللہ تعالی تو اپنی ذات کے لئے ایسی صفات بیان کرتا ہے جن سے وہ راضی ہے، تم ان کی لا حاصل تاویلیں گھڑتے ہو اور نا جائز ردکرتے ہو، جتنی وسعت تم سے پہلے صحابہ و تابعین کے علم میں تھی ،تمہارے علم میں ایسی گنجائش نہیں، وہ ہر صفت کو ہرحکم کو بلاحیل وحجت مانتے اور اس پر بلا تاویل وتر دید ایمان لاتے تھے تم بھی ان کی طرح چلو ، انہی کی طرح کرو)۔

ہمارا پروردگارعرش پر ہے جیسے کہ اس نے فرمایا بغیرتشبیہ(کسی کی مثل ہونا) اور بٖغیرجسم اور بغیر تعطلیل (معطل و بیکار ہونا)کے

اللهم ارزقنا ووقفنا وجنبنا الإبتداع ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! تو ہمیں رزق دے اور توفیق دے اور ہمیں نئی نئی باتیں نکالنے سے بجا  اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 151،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 94دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں