تئیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تئیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثالث والعشرون فی جلاء صدا القلوب ‘‘ ہے۔

 منعقد ہ12 ذی الحجہ 545 ھ بروز صبح جمعۃ المبارک بمقام مدرسہ قادر یہ

دلوں کا زنگ کیسے دور ہوسکتا ہے؟

رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا کہ ان دلوں پر زنگ آ جا تا ہے، ان کی چمک قرآن مجید کی تلاوت اور موت کو یاد کرنا اور ذکر الہی کی مجالس میں حاضر ہونا ہے، دل زنگ آلود ہو جا تا ہے ۔ اگر رسول اکرم  ﷺ کے فرمان کے مطابق اس کا تدارک کر لیا تو بہتر ورنہ زنگ آلودگی کے بعد سیاہی آ جاتی ہے ، نوربانی سے دور ہو کر دنیا سے محبت اور دنیا کا مال بغیر کسی پر ہیز کے جمع کرتا ہے، اس بد پر ہیزی سے دل سیاہ ہو جا تا ہے ۔ کیونکہ جس کے دل میں دنیا کی محبت جگہ کر لے، اسکا تقوی جاتا رہتا ہے، وہ حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر مال جمع کر لیتا ہے۔اللہ تعالی کے سامنے اس کی آنکھوں کی شرم جاتی رہتی ہے۔ اے لوگو! رسول اللہ  ﷺ کے فرمان پرعمل کرو، اور جو دوا آپ نے تجویز فرمائی ہے، اس سے دلوں کے زنگار دور کر کے دلوں کو چمکالو ، اگر کسی کو کوئی مرض لاحق ہو جائے اور اس کے تدارک کے لئے طبیب نے جو دوا تجویز کی ہو، جب تک اس دوا کو استعمال نہ کرے گا ، اس کی زندگی خوش گوار نہ ہوگی ۔ اپنی خلوت اورمحفل میں اللہ کی طرف نگاہ رکھو، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو گویا کہ تم اس کو دیکھتے ہو، اگر تم نہیں دیکھ سکتے تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے، جو شخص اللہ کو دل سے یاد کرتا ہے درحقیقت وہی ذاکر ہے، جو دل سے یاد نہ کرے وہ ذاکر نہیں ہے، زبان دل کے تابع اور اس کی خدمت گزار ہے، ہمیشہ وعظ سنتے رہا کرو کیونکہ جب دل وعظ سے غائب ہو جا تا ہے تو اندھا ہو جا تا ہے، تو بہ کی حقیقت یہ ہے کہ سب حالتوں میں امرالہی کی تعظیم کرے۔

 ساری بھلائی دوکلموں میں چھپی ہے:

 بعض اہل اللہ نے ارشادفرمایا:

ساری بھلائی دوکلموں میں ہے اللہ کے حکم کی تعظیم           مخلوق الہی پرشفقت،

باری تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی کے ذریعے ارشادفرمایا: ارْحَمْ خَلْقِي أَرْحَمْكَ، يَا مُوسَى أَنَا رَحِيمٌ أُحِبُّ الرُّحَمَاءَ، يَا ‌طُوبَى ‌لِلرُّحَمَاءِ تو دوسروں پر رحم کرتا کہ میں تجھ پر رحم کروں کیونکہ میں رحیم ہوں، جو شخص رحم کرے اس پر رحم کرتا ہوں اور اپنی جنت میں داخل کرتا ہوں۔ رحم کرنے والوں کے لئے بڑی خوش خبری ہے ۔‘‘

تمہاری عمرتو ان باتوں میں ضائع ہوئی: . انہوں نے یہ کھایا اور ہم نے یہ کھایا ، – انہوں نے یہ پیا اور ہم نے یہ پیا ، – انہوں نے یہ پہنا اور ہم نے یہ پہنا، انہوں نے یہ جمع  کیا ہے ہم نے یہ جمع کیا ۔ جوشخص فلاح اور نجات کا طالب ہے اسے چاہئے کہ اپنے نفس کو خواہشوں اور حرام اور شک شبہے والی چیزوں سے رو کے اور صبر کرے ۔ امرالہی کے ادا کرنے پر اور نہی سے رکنے پر صبر کر کے تقدیر الہی کی موافقت کرے۔ اولیاء اللہ نے اللہ تعالی کے ساتھ صبر کیا، اس سے دور رہ کر نہیں، اس کے لئے اور اسی کے بارے میں صبر کیا تا کہ اسی کے ساتھ رہیں ۔ انہوں نے اس کو طلب کیا تا کہ اس کا قرب حاصل ہو، وہ اپنے نفسوں اور حرصوں اور خواہشوں اور عادتوں کے گھروں سے نکل گئے اور شریعت کو ساتھ لے کر اپنے رب کی طرف سفر پر نکل گئے ۔ دوران سفرآفتیں ، دہشتیں ، مصیبتیں غم ، بھوک، پیاس، برہنگی، ذلت اور حقارت ستانے آئیں ، انہوں نے کسی کی کوئی پروا نہیں کی ، اپنے سفر کو ثابت قدمی سے جاری رکھے رہے، وہ جس ارادے سے چلے تھے ،اس میں تبدیلی نہ آئی ، ان کے قدم آگے بڑھتے چلے گئے ۔ ان کی رفتار میں سستی نہ آئی ، وہ اسی طرح محوسفر ر ہے، یہاں تک کہ ان کے دل اور جسم ( قلب و قالب ) کو بقائے دوام مل گئی ۔

 اللہ سے ملاقات کا شوق ہے تو

اے لوگو! اللہ سے ملنے کے لئے عمل کرو اور ملاقات سے پہلے اس سے شرم وحیا کرد،  ایمان والا پہلے اللہ سے ، پھرخلقت سے حیا کرتا ہے، مگر جو بات دین کے متعلق ہو اور شرعی حدودکو تو ڑے، اس میں حیا کرنا جائز نہیں، بلکہ دین الہی کی تعمیل میں کوئی شرم نہ کرے اس کی حدود کو قائم کرے اور اس کے امر بجالائے ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَا ‌تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ

اللہ کے دین کی تعمیل میں ان پر رحم نہ آ جائے “۔ جس کی رسول اکرم  ﷺ کے ساتھ تابع داری صحیح ہو جائے ، آپ اسے اپنی زرہ اورخود پہناتے ہیں، اور اپنی تلوار اس کے گلے میں ڈالتے ہیں۔ اپنے خصائل اور اخلاق کے ساتھ اسے سجاتے ہیں ، اور اپنی خلعت اسے پہناتے ہیں، رسول اللہ  ﷺ اس شخص سے بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں ،  اور خوش کیوں نہ ہوں کہ وہ شخص آپ کی امت سے ہے، اس پر آپ  ﷺ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں، اسے اپنی امت میں اپنا نائب اور رہنما اور اسے اللہ تعالی کے دروازے کی طرف بلانے والا بنا دیتے ہیں؟ اصل رہنمائی کرنے والے اور دعوت دینے والے حضور  ﷺ تھے ، اللہ تعالی نے جب اپنے پاس بلا لیا تو اپنی امت میں ایسے شخص کھڑے کر دیئے جو آپ کے سچے جانشین اور خلیفہ نہیں ، لاکھوں میں سے ایسے گنے چنے ہی ہوتے ہیں ، ایسے لوگ مخلوق کی رہنمائی کرتے ہیں ،ان کا کام خلقت کی خیر خواہی ہے، ان سے تکلیف پہنچنے پرصبر کرتے ہیں ، منافقوں اور بدکاروں کے منہ پرمسکراتے ہیں ، ان کے لئے طرح طرح کے حیلے کرتے ہیں ، تا کہ انہیں ان کی بداعمالی سےچھڑا کر اللہ کے دروازے پر لے جائیں ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا:’’بد کار کے منہ پر عارف باللہ ہی ہنستا ہے۔

اس کے منہ پر ہنس کر وہ اس پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے جانتا ہی نہیں ،  حالانکہ عارف اس کے دین کے گھر کی بر بادی اس کے دل کے چہرے کی سیاہی اور اس کے دھوکے کی کثرت اور اس کے میلے پن کو خوب جانتا ہے ۔ فاسق ومنافق دونوں کو یہی گمان رہتا ہے کہ ان کی حالت اس سے پوشیدہ ہے، اور وہ اس کی پہچان میں نہیں آئے ، ایسا قطعا نہیں ۔ کہ ان کی کوئی عزت ہی نہیں ، کہ ان کا حال چھپار ہے، وہ عارف سے چھپے نہیں رہتے ، وہ انہیں ایک لمحہ میں ، نظر ، کلام اور حرکت سے پہچان لیتا ہے، وہ ان دونوں کے ظاہر و باطن کو پہچان لیتا ہے ، اس امر میں کوئی شک نہیں ۔ تم پر افسوس ہے کہ تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم صدیقوں اور باعمل عارفوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں، تم کب تک اپنی عمر یں فضول باتوں میں ضائع کرتے رہو گئے ۔ ایسے لوگوں کی تلاش کرو جو تمہیں آخرت کا راستہ بتادیں۔ اے گمرا ہو۔ اللہ تعالی سب سے بڑا ہے، اے مردہ دلو! – اسباب کو اللہ کا شریک سمجھنے والو! ـ

اپنی قوت و طاقت او را پنے معاش اور راس المال اور اپنے شہر کے بادشاہوں کے پوجنے والو! اورجن طرفوں کو وہ جاتے ہیں، یہ سب لوگ اللہ سے دور اور حجاب میں ہیں، جوشخص نفع و نقصان کو اللہ کے غیر سے جانے وہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ اللہ کے غیر کا ہے ۔ ایسا شخص دنیا میں غصے اور حجاب کی آگ میں ہے، اور قیامت کے دن دوزخ کی آگ ہوگا – پرہیز گاروں ، تو حید والوں ، اخلاص والوں اور توبہ کرنے والوں کے سوا کوئی شخص محفوظ نہ ہوگا ، پہلے دل سے توبہ کرو، پھر زبان سے توبہ ( کا مطلب ) حکومت کا بدلنا ہے، نفس اور حرص اور خواہش اور شیطان اوربرے ہم نشینوں کی حکومت بدل جاتی ہے۔ اور انہیں تمہارا غلام بنا دیتی ہے۔ جب تو بہ کرو گے تو تمہارا دل تمہاراسننا اور دیکھنا اور زبان اور سب اعضاء پلٹ جائیں گے، تمہارا کھانا پینا حرام اور شبہے کے گدلے پن سے پاک ہوگا، بیچنے اور خریدنے میں اور اپنے کاروبار میں پرهیزگار بنو گے تو اپنا مقصود اصلی اللہ تعالی کو بنالینا ، اور بری عادتیں اپنا گھر چھوڑ دیں گی۔ عبادت گناہوں کو دور کرے گی ، اور اطاعت اس کا مکان حاصل کر لے گی ، پھر شریعت کی درستی اور شہادت کے ساتھ حقیقتا ثابت و مضبوط ہو جا تا ہے۔ کیونکہ جس حقیقت پر شریعت شہادت نہ دے، وہ بے دینی ہے، جب یہ امر تمہارے لئے ثابت ہو جائے تو برے اخلاق اور خلقت کو دیکھنے سے فنا ہو جاؤ گے ، اس وقت تمہارا ظاہر محفوظ ہو جائے گا اور تیرا باطن اللہ کے ساتھ مشغول ہو گا، جب تیری یہ حالت کمال کو پہنچ جائے تو پھر دنیا چاہے اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ تیرے پاس آئے ، اور اپنا سب کچھ دے ڈالے، اور اگلی پچھلی سب مخلوق بھی تیری تابع ہو جائے تو کچھ نقصان نہ پہنچاسکیں گے، نہ تجھے اللہ کے دروازے سے پھیر سکیں گے، کیونکہ تم  اللہ کے ساتھ قائم ہو، – اس کی طرف متوجہ ہو اس میں مشغول ہو۔ – اس کا جلال اور جمال دیکھتے ہو۔

جلال کو دیکھ کر خوف الہی کی لپیٹ میں آ جاؤ گے،  جمال کو دیکھ کر حواس بحال ہو جائیں گے، جلال کو دیکھ کر حواس اڑ جاتے ہیں اور جمال کو دیکھ کر امید بندھ جاتی ہے، جلال کو دیکھ کر مٹ جاؤ گے اور جمال کو دیکھ کر ثابت ہو جاؤ گے ۔ بشارت ہو اس شخص کو جو اس کھانے کا مزه چکھے۔

التجا یہی ہے۔ ‌اللهـم أطـمـنا من طعام قربك واسقنا من شراب أنسك آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمیں اپنی قربت کا کھانا کھلا ، اور اپنے انس کا شربت پلا اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ آمین! 

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 167،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 10دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں