حقیقت محمدیہ

حقیقت محمدیہ

حقیقت محمدیہ ، اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ذات کا پہلا تعین نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا۔ حقیقتِ انسانی کی اصل حقیقتِ محمدی ہے۔ حق تعالیٰ نے سب سے پہلا تنزل حقیقتِ محمدی میں فرمایا۔ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں ذات باعتبار تعین اول حقیقت محمدی کہلاتی ہے۔ مظہر حقیقی احدیت ، حقیقت محمدی ہے اور باقی تمام مراتب موجودات ، مظہر حقیقت محمدی ہیں۔

تمام ذوات خلق میں انائے مطلق اوراس کے توابعات (وجود ، علم، نور ، مشہود) کی نسبت  یکساں ہے لیکن فرق اطلاقیت کے ظہور کا ہے ۔ ذوات انسانیہ میں یہ ظہور بہ نسبت ذوات اشیاء کے زیادہ ہے ۔ اسی وجہ سے انسان کو مظہر ذات کہا جاتا ہے اور دیگر ذوات اشیاء کو مظہر اسماء

اب افراد انسانیہ میں حضور صلی الہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مظہر اتم ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انا اور اس کے اعتبارات کا ظہور یہاں کامل ہے ۔ اسی لیئے ذات حق کی تجلی اول کو حقیقت محمدیہ کہتے ہیں، جو یہی مرتبہ وحدت ہے۔

سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت اللہ تعالی کا وہ نور ہے جواسماء  و صفات کے ظہور سے پہلے چمکا۔ زمان ومکان کی تخلیق سے پہلے درخشاں ہوا ۔ باعتبار تخلیق آپ اول المخلوقات ہیں اور باعتبار ظہور خاتم النبیین ۔
یعنی بلحاظ تخلیق کے آپؐ اول اور بلحاظ ظہور کے آپؐ آخر ہیں۔ بلحاظ حقیقت آپ خلق اول، تعین اول،برزخِ کبریٰ، اور رابطہ بین الظہور والبطون ہیں۔ اَوَّل ُمَا خَلَقَ اللہُ نُورِی یعنی پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے۔
‌كُنْتُ ‌أَوَّلَ ‌النَّبِيِّينَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ .
میں عالم آفرینش میں تمام انبیاء سے پہلے ہوں اور عالم ظهور و بعثت میں ان سب سے آخر میں ہوں

حضور ہی کے نور سے کل کائنات کی تخلیق ہوئی ، حضور ہی جملہ کا ئنات کی اصل ہیں ۔ حضور ہی خلاصہ موجودات ہیں۔ حضوری وجہ وجود کائنات ہیں۔ حضور ہی ان اسماء و صفات الہی کا اجمال ہیں جن کا ظہور کا ئنات کی تفصیل میں ہوا ، چنانچہ اسی نور سے شمس وقمر روشن ہوئے ۔ اسی نور سے عرش وکرسی قائم ہوئے ۔ اسی نور سے لوح و قلم کو قیام ملا۔ اسی نور سے آسمانوں کو ایستادگی نصیب ہوئی ۔ اسی نور سے بزم گیتی سجائی گئی۔

ہونہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو ہھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

برم توحید بھی دنیا ہی نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

اسی نور سے تاروں میں روشنی آئی۔ اسی نور سے کلیوں کو چٹک اور پھولوں کو مہک ملی۔ اسی نور کے جمال سے جنت آراستہ کی گئی ۔ اسی نور کے جلال سے دوزخ بھڑکائی یہی نور قلب آدم میں نور بن کے اترا ۔ یہی نور صلب آدم میں خیر البشر ین کے ٹھہرا اسی نور کی وجہ سے آدم مسجود ملائک بنے اور پھر اسی نور کے ظہور کی خاطر زمین پر اتارے گئے ۔ بالآخر یہی نور، یہی حقیقت محمدیہ ، صورت محمدیہ میں جلوہ گر ہوئی جو شریعت محمدیہ یا ذات محمدیہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت نوریت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بشریت حقیقت صورت نہیں ، صورت حقیقت نہیں۔ پھر دو نہیں حقیقت کو حقیقت کہو، صورت کو صورت ، نوریت کو نوریت کہو اور بشریت کو بشریت ۔ دونوں کی خصوصیات الگ الگ اور دونوں کے لوازمات جدا جدا ۔ پانی کی حقیقت ہائیڈروجن اور آکسیجن۔ پانی کی صورت شے سیال ، ہائیڈروجن اور آکسیجن سے آپ غسل نہیں کرسکتے۔ پانی سے کر سکتے ہیں ۔ برف کی حقیقت پانی ، شے سیال اور برف کی صورت ٹھوس شے ۔ پانی کو توڑ نہیں سکتے ۔ برف کو توڑ سکتے ہیں ۔  .

حق تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نور بھی کہا ہے اور بشر بھی ۔ ایک مسلمان کے لیئے حضور کی نوریت اور بشریت دونوں کو تسلیم کرناضروری ہے ۔ حضور نور ہیں پورے خصائص نوریت کے ساتھ اور حضور بشر ہیں پورے لوازم بشریت کے ساتھ ۔ حضور کی جہت نوریت اور جہت بشریت دونوں برحق ہیں ۔ آپ کی کسی ایک جہت کو تسلیم کرنا اور دوسری کا انکار کر دینا نص قرآنی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نوریت کے متعلق نص قرآنی ہے :

 قَدۡ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٞ وَكِتَٰبٞ مُّبِينٞ

 بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن اور واضح کتاب آچکی ہے۔ 

 اور بشریت کے متعلق نص قرآنی ہے

قُلۡ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٞ مِّثۡلُكُمۡ يُوحَىٰٓ إِلَيَّ 

: میں تو بس تمہارے ہی جیسا اک بشر ہوں  میری طرف وحی کی جاتی ہے

نوریت اور بشریت میں مغایرت ضرور ہے لیکن تضاد نہیں کہ ایک محل میں دونوں کا اجتماع محال ہو ۔ قرآن وحدیث سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں جہتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں ۔

بہ اعتبار بشریت     وَأَيُكُمْ مِثلي؟ إنِّي ‌أَبِيتُ يُطْعِمُنِي  رَبِّي ويَسْقِينِي

میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں میری شب گزاری اپنے رب کے پاس ہوتی ہے وہ مجھے کھلاتا ہے ، وہ مجھے پلاتا ہے ۔

اور بہ اعتبار بشریت : جنگ خندق میں فاقوں کے سبب شکم مبارک پر دو دو پتھر بندھے تھے

به اعتبار نوریت : فرمایا کہ کُنتُ نَبیّاًٍٍ وَ آدَمُ بَینَ المَآء ِوَلطِّینِ۔ یعنی میں نبی تھا جبکہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔

اور به اعتبار بشریت : عمر شریف چالیس برس کی ہوئی تو غار حرا میں نبوت وبعثت سے سرفراز فرمائے گئے۔

به اعتبار نوریت : اوتیت علم الأولين والآخرين

مجھے اولین و آخرین تمام کا علم دیا گیا ہے ۔
اور به اعتباربشریت وَمَآ أَدۡرِي مَا يُفۡعَلُ بِي وَلَا بِكُمۡ

میں تو  یہ بھی نہیں جاننا کہ میرے ساتھ کیا کیاجائے گا اور تمہارے ساتھ کیا

به اعتبار نوریت :لِیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَایَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ

حق تعالیٰ کے ساتھ میرا اک وقت ایسا بھی ہوتا ہے جس میں کسی فرشتہ مقرب اور کسی نبی مرسل کی تک سمائی نہیں ہوتی ۔

بہ اعتبار بشریت قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌۚ
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ صوفیہ کرام نے وحدت کو حقیقت محمدیہ کہا ہے ، ذات محمدیہ نہیں کہا۔ ذات محمدیہ اور حقیقت محمدیہ دو بالکل جدا چیزیں ہیں ۔ حقیقت محمدیہ کا ظہور تجلی اول میں ہوا جو اول ما خلق الله نوری سے ظاہر ہے اور ذات محمدیہ کا ظہور آج سے چودہ سو برس قبل مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ کی صلب اور حضرت آمنہ کی کوکھ سے ہوا ۔ اگر حقیقت محمدیہ اور ذات محمدیہ کو خلط ملط کر دیا گیا تو یہ اختلاط کفر و شرک تک پہنچا دے گا ۔ ذات محمدیہ معلوم ہے اور حقیقت محمدیہ عالم ۔ ان کو ایک قرار دینا معلوم کو عالم اور عالم کو معلوم عبد کو رب اور رب کو عبد قرار دینا ہوگا ، ممکن کو واجب اور واجب کو ممکن کر دینا ہو گا، جو کھلا کھلا کفر ہے۔

لقد كفر الذين قالوان اللہ ھو السيح ابن مريم یقینا وہ کافر ہو گئے جنھوں نے کہا کہ خدا ہی تو مسیح بن مریم ہے

ذات مسیح ، ذات حق نہیں۔ ذات محمد بھی ذات اللہ نہیں۔ اگر ذات محمدیہ کو حقیقت محمد یہ یا حقیقت محمدیہ کو ذات محمدیہ سمجھ لیاگیا تو یہ ایک افسوسناک مغالطہ ہو گا۔ اسی فریب میں مبتلا ہو کر جہلاء نے راہ ادب چھوڑی۔ فرق مراتب مٹایا ۔ ان نازک مسائل پر بر سر منبر گفتگو کی ۔ عامتہ المسلمین کو الجھنوں میں مبتلا کیا ۔ ضلوا و اضلوا کے مصداق خودبھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔

مرتبہ وحدت یا حقیقت محمدیہ کو نورمحمد ی بے شک کہا جا سکتا ہے۔ اس کی توجیہ بھی وہی ہے جو حقیقت محمدیہ کی ہے۔ چونکہ ذات محمد ی کامل اور اکمل ہے اس لیئے نور کامل کا (جو انائے مطلق کا ایک اعتبار ہے) اس پر ظہور ہوتا ہے اور پھر اسی نور کامل سے اشیا ءکی تخلیق ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نور محمدی سے اشیاء کی تخلیق ہوئی ہے۔ انا من نور الله و کل شئی من نوری(میں اللہ کے نور سے ہوں اور ہر شی میرے نور سے ہے) کا یہی مفہوم ہے۔ بعض حضرات صوفیہ نے عین الاعیان یا مربوب  اعظم کو حقیقت محمد یہ کہا ہے اور بعض عین الاعیان اور تجلی اعظم کے مرکب کو حقیقت محمدیہ کہتے ہیں ۔


ٹیگز

2 تبصرے “حقیقت محمدیہ

اپنا تبصرہ بھیجیں