وحدت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ ثانیہ)

وحدت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ ثانیہ)

وحدت(یا ھُوت ذات حق کا ایک مرتبہ جس میں قابلیت کثرت ہے جسے شئون ذاتیہ کہا جاتا ہے)

مرتبہ ثانیہ تنزل اول

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

میں گنج مخفی(وجود کا مرتبہ اول یعنی احدیت مراد ہے) تھا یعنی ذات کے غلبہ میں تمام صفات مخفی تھیں) پھر میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق پیدا کی ہے(‌كُنْتُ ‌كَنْزًا ‌مَخْفِيًّا فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ)

حقیقت کا یہی ظہور ہے جو مجالی (جلوہ گاہیں مجلاء کی جمع مراد کائنات ، عوالم اور اشیاء)یعنی تعینات میں پایا جاتا ہے اور عارفوں (صوفیائے کرام کی اصطلاح میں عارف اس شخص کو کہتے ہیں جو صفات باری تعالیٰ کو بطریق حال ومکا شفہ پہچانتا ہو ، نہ کہ بطریق علم مجرد)کے مشاہدے میں آتا ہے۔ تعینات و تجلیات میں اس کا مشاہدہ دو طرح سے ہوتا ہے ۔

(1) یہ کہ ذات جب اسماء یا ارواح میں نزول کرتی ہے تو عارف اولا اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور ثانیاً متعینات میں اس کے ظہور کی کیفیت کا ، اور تعینات کے ساتھ اس کے تقید کا، خواہ یہ اسمی تعینات ہوں یا غیر اسمی تعینات مشہود ہوں ، یہ مشاہدہ اکمل الکاملین کا ہے ۔ یہ مشاہدہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے :

ما رأيت شي الا ور أَيْتُ اللهَ قَبْلَهُ

میں نے جس چیز کو بھی دیکھا ہے ، اس سے پہلے حق کا ادراک ضرور کیا ہے ۔

(2)دوسرا مشاہدہ تعین اور تجلی کے درمیان ذات مطلقہ کا مشاہدہ ہے ، خواہ یہ مشاہدہ ذات مع التعین ہو یا بعد مشاہدہ تعین ۔ یہ مشاہدہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے ، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے :

مار أيْتَ شَيْئًا إِلَّا وَرَأَيْتُ اللهَ مَعَهُ

میں نے جس چیز کو بھی دیکھا ہے ، اس کے ساتھ حق کا ادراک ضرور کیا ہے

الغرض اس حقیقت کے تعینات بے حد و بے شمار ہیں لیکن ان کے کلیات چھ ہیں۔ دو مراتب غیب ہیں ، کیونکہ ان میں ذات اور غیر ذات سے ہر چیز غائب ہے۔ ان دونوں مرتبوں میں حق پر کسی چیز کو ظہور حاصل نہیں۔ مرتبہ اول میں غیب سے تعین اول ہے اور مرتبہ  ثانی میں غیب سے تعین ثانی( تعین اول (وحدت) اور تعین ثانی (واحدیت ) یہ دونوں مراتب غیب ہیں کیونکہ ان میں کوئی شے موجود فی الخارج نہیں، ان کا ظہور صرف علمی ہے نہ کہ عینی) ۔

باقی تین مراتب کونی (مراتب کونی سے مراد مرتبہ ارواح ، مرتبہ امثال اور مرتبہ اجسام ہیں۔)ہیں اور چھٹا مرتبہ جامع المراتب “(مرتبۂ جامع المراتب سے مراد تعین سادس یعنی انسان ہے ۔ مراتب وجود یا تنزلات ستہ کاعلم اجمالی۔) ہے

تعین اول یعنی حقیقت کا پہلا ظہور یہ ہے کہ حق تعالی نے اپنے وجود کو پایا اور” انا ”  فرمایا،

اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات اور اپنی صفات اور تمام موجودات کو بعض کو بعض سے امتیاز کے بغیر اجمالی طور پر جان لینا ہے۔ یہ مرتبہ وحدت ہے

اور ساری کائینات بالاجمال علم میں آئی ۔ یوں عوالم بالاجمال حقیقت سے الگ نہیں۔ وہ ذات عالم کو ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عالم ذات سے الگ نہیں ہے وہ ذات  بالا جمال اسماء و صفات سے متصف ہے۔ اس طرح ” سمیع ” قدیر ”  سے الگ نہیں یعنی کوئی اسم بھی دوسرے اسم سے علیحدہ نہیں ہے۔ یہ مرتبہ قابل محض ہے۔ یہاں کثرت ظاہر نہیں ؟ خواہ حقیقی ہو یا اعتباری  سارے عوالم اس مرتبہ میں نابود ہیں جب ذات نے اپنے وجود کو پایا اور ” انا ”  فرمایا تو چار چیزیں پائی گئیں

(1) – ذات وجود یعنی خود کو انا » فرماکر جانا۔ یہ ذات ہی وجود ہے ۔

(2)صفت علم یہ جاننا صفت ہے ۔

(3)- اسم نور جو خود پہ ظاہر ہوا تو جانا ، پس یہ ظہور نور ہے ۔ بعض حضرات نے انیت(وہ وجود جس کی طرف لفظ انا میںاشارہ کیا جاتا ہے ) ہی کو نور کہا ہے ۔

(4)- فعل شہود یعنی خود کو دیکھا تو جانا ، لہذا یہ دیکھنا شہود ہے

تعین اول کو وحدت حقیقی (وہ وحدت جس میں کسی وجہ سے کثرت نہ ہو اور جو تجزی کو قبول نہ کرے اور نہ اس کے مقابل اس کی کوئی ضد ہو۔ تجزی و تغیر، ضدیت و اثنینیت اورتشبیہ کو وہ قبول نہیں کرتی)

مرتبه الجمع والوجود،( اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جمع باعتبار جانب ظہور ، وحدت سے عبارت ہے اور اس مرتبہ کا باطن ہے۔ اور اس مرتبہ میں ذات من حیث الاسماء والصفات پائی جاتی ہے یعنی اس مرتبہ تنزل میں ذات نے اسماء و صفات کی یافت کی ہے اور یہاں اطلاق اسماء و صفات کا ذات پر صادق آیا ہے)

مرتبه جامعه( اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں ذات وصفات اور ظهور و بطون دونوں شامل ہیں اور یہ مرتبہ دونوں کا جامع ہے۔)

احدیت جامعہ، احدیت جمع، ( اعتبار ذات من حیث ھی بلا اعتبار اسقاط صفات و اثبات صفات بھی اس مرتبہ میں ہے ۔ نیز صفات کا اعتبار اجمالی بھی اس میں مندرج ہے اور اسی وجہ سے اس کو احدیت جامعہ بھی کہتے ہیں۔ )

مقام جمع ( وحدت ہی ذات و صفات اور بطون و ظہور کو اپنے اندر جمع کرتی ہے اور خلط ملط نہیں ہونے دیتی ۔)

حقيقة الحقائق ( ذات حق تعالی ہر شے کی حقیقت ہے ۔ ہر شے کا وجو د اعتباری ہے  وہ اپنا وجود حق تعالیٰ سے پائے ہوئے ہے ۔  اس مرتبہ میں اس کا تعین اول ہے اس لیئے اس کو حقیقۃ الحقائق کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ صور علمیہ اور اعیان ثابتہ کو حقائق الممکنات کہتے ہیں۔ چونکہ مرتبہ وحدت ، حقائق الممکنات کا مرتبہ اجمال ہے اس لیئے یہ مرتبہ حقیقۃ الحقائق ہوا۔)،

برزخ البرازخ، برزخ کبری (  یہ حق تعالی اور جملہ برازخ کے درمیان برزخ حائل ہے ۔)

حقیقت محمدیہ، وجہ وجوہ کائنات اور رونق بزم کائنات ہے  مزید دیکھیں حقیقت محمدیہ

عقل اول ( یہ علم الہی کی شکل کا وجود میں محل ہے ۔ یہ علم الہی کا نور ہے جو تنزلات میں سب سے پہلے ظاہر ہوا۔ اول ما خلق الله العقل سے اسی جانب اشارہ ہے ۔)

قلم اعلی (عقل اول اور قلم اعلی ، در حقیقت ایک ہی نور کے دو نام ہیں۔ جب اس نور کی نسبت عبد کی جانب کی جاتی ہے تو اس کو عقل اول کہتے ہیں اور جب اس نور کی نسبت حق تعالی کی جانب کی جاتی ہے تو اُس کو ” قلم اعلیٰ ” کہتے ہیں۔ پھر عقل اول سے جو در اصل نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ازل میں جبرئیل علیہ السلام پیدا کیے گئے اور ان کا نام روح الامین رکھا گیا کیونکہ وہ ایک ایسی روح ہیں جن کو اللہ تعالی کے علم کا خزانہ بطور امانت سپرد کیا گیا ہے۔ اس نور کی اضافت جب انسان کامل کی جانب ہوتی ہے تو وہ روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے ملقب ہوتا ہے۔ قلم اعلی عقل اول اور روح محمدی (روح اعظم )کی تعبیر جوہر فرد کی جاتی ہے ۔ مظاہر خلقیہ میں ممیز ہونے کے طور پر جو ابتدائی تعینات حق ہیں، انھیں قلم اعلیٰ کہا جاتا ہے ۔)

روح اعظم (  روح اعظم یا روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اول ما خلق الله روحی بھی ارشاد فرمایا ہے  )

اور تجلی اول کہتے ہیں۔( لغت میں تجلی کے معنی ظاہر کرنے اور ظاہر ہونے کے ہیں۔ اسماء وصفات اور افعال الہی کا کسی پرپھینکا جانا تجلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ ذات مطلق کا ظہور لباس تعین ہی میں ممکن ہے ، اسی لیئے صوفیہ کرام کی اصطلاح میں لباس تعین کو تجلی کہتے ہیں۔ ہر وہ شان اور کیفیت و حالت جس میں حق تعالی کا اس کی کسی صفت یا اس کے کسی فعل کا اظہار ہو تجلی ہے ۔
اس مرتبہ وحدت کو تجلی اول اس وجہ سے کہتے ہیں کہ مرتبہ خفاء الخفاءیا مرتبہ لاتعین سے اس کا ظہور ہوا ہے۔ نیز اس کو تجلی اول کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تجلیات کا آغاز اس مرتبہ وحدت سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مرتبہ احدیت ہے ، جس میں تجلی نہیں پائی جاتی کیونکہ تجلی کے لیے ایک متجلی اور ایک متجلی لہ کا ہونا ضروری ہے اور احدیت میں اثنینیت نہیں ، اس لیئے اس میں تجلی بھی ممتنع ہے ۔ احدیت میں نہ ناظر ہے نہ منظور تو تجلی کیسی ؟)
یہ وحدت قابلیات ذات کی ہے (یہ مرتبہ اصل جمیع قابلیات کا ایک حالہ اجمالیہ بسیطیہ ہے۔ اس کا ظہور سب سے پہلے ہوا ہے۔ یہ جمیع قابلیات کا ہیولی اور مبدا ہے۔ اسی وجہ سے اس کو قابلیت اولی بھی کہتے ہیں۔)اس مرتبہ میں ناسوت(عالم بشریت ، عالم اجسام ، اس کو مُلک، عالم شہادت اور عالم محسوسات بھی کہتے ہیں ۔) ملکوت(یعنی وہ عالم جو ملائکہ وارواح سے مختص ہے) سے(جومرتبہ ارواح ہے )جدا نہیں اورملکوت جبروت(یعنی مرتبه صفات مرتبه وحدت ، حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے (جو مرتبہ صفات ہے )ممتاز نہیں اور جبروت، لاہوت ( یعنی مرتبہ ذات ، گنج مخفی، هویت مطلقه )سے (یعنی الوہیت سے جومرتبہ ذات ہے) ممتاز نہیں ہے(  ناسوت، ملکوت ، جبروت اور لاہوت یہ چار عوالم سمجھے جاتے ہیں در حقیقت لاہوت عالم نہیں بلکہ مرتبہ ہے کیونکہ عالم کا لفظ لاہوت پر صادق نہیں آتا ۔ لفظ عالم علامت سے مشتق ہے ۔ لغوی اعتبار سے عالم وہ ہے جس کے ذریعہ سے کوئی دوسری شے پہچانی جاسکے ۔ اصطلاح صوفیہ میں ماسوی اللہ کو عالم کہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالی کو باعتبار اسماء وصفات پہچانا جاتا ہے ۔ عالم کا ہر جزء خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو عوام کی نگاہ میں خواہ کتنا ہی حقیر اور بے قدر کیوں نہ ہو ، حق تعالٰی کے کسی نہ کسی اسم کا مظہر ضرور ہے ۔ اس لغوی اور اصطلاحی معنی کے اعتبار سے ناسوت ، ملکوت اور جبروت ہی عوالم ہیں ۔   مراد یہاں ان سے علی الترتیب مرتبه اجسام، مرتبه ارواح، مرتبه صفات اور مرتبہ ذات ہے ۔ یہ عوالم اس مرتبہ وحدت میں ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہیں کیونکہ مرتبہ وحدت اجمالی ہے جیسے گٹھلی میں برگ وبار اور شاخ و شجر ممتاز نہیں یا ہیضہ میں بال و پر اور رنگ و آواز ممتاز نہیں ، اسی طرح مرتبہ وحدت میں ذات وصفات اور اسماء و افعال موجود ہونے کے باوجود ممتاز نہیں ، کیونکہ امتیاز ، تفصیل کا متقاضی ہوتا ہے اور تفصیل کی اس مرتبہ میں گنجائش نہیں)

اس وحدت کے دو اولین اعتبارات ہیں

(1) سقوط اعتبارات یعنی ذات سے بالکلیہ تمام اعتبارات ساقط اور معدوم ہوں ، یہ احدیت ہے یعنی تمام اعتبارات کے سقوط  وعدم کے ساتھ ذات کا ایک ہونا۔ اسی لحاظ سے ذات کو احد کہا گیا ہے یعنی ایک ایسی ذات جس سے تمام اعتبارات دور کر دیئے گئے ہوں، اسی لیے ذات کا بطون ، اس کا اطلاق اور اس کی ازلیت اسی اعتبار سے متعلق ہے۔

(2)- ثبوت اعتبارات یعنی اس ذات میں بے حد و بے شمار اعتبارات مندرج ہوں ، یہ واحدیت ہے یعنی جملہ اعتبارات کے ساتھ ذات کا ایک ہونا، تمام اعتبارات وصفات کے ساتھ ذات کا ایک ہی نام ہو یعنی ایک ایسی ذات جو اعتبارات کے ساتھ ہے، پس واحد ثبوتی نام ہے،  سلبی نہیں ذات کا ظہور ، ذات کا وجود (یافت) ذات کی پیشگی ابدیت اسی اعتبار سے متعلق ہے ۔

(یہ وحدت جوانائے مطلق اور قابلیت محض کا مرتبہ ہے۔ اس کی دو جہتیں بن جائیں گی۔ پہلی جہت یہ ہے کہ اعتبارات اس سے ساقط ہوں، اس ذات سے متعلق کوئی اعتبار قائم نہ ہو۔ یہ نری ذات کی یکتائی ہے ، اس لیئے اس کو احدیت کہیں گے ۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ مرتبہ احدیت میں ذات بلا اعتبار ہوتی ہے ، ہر اعتبار یہاں ساقط ہوتا ہے ، اسی لیے ذات کو اس مرتبہ میں احد کہتے ہیں واحد نہیں، کیونکہ احد سلبی نام ہے اور واحد ثبوتی اور اسی لیے احد ہی کو صمد کہا گیا ۔ صمد کہتے ہیں ٹھوس چٹان کو جس میں نہ کوئی چیز داخل ہو سکے ، نہ اس سے کوئی چیز خارج ہو سکے ۔ یہاں اسماء وصفات اور افعال کسی کا بھی اعتبار نہیں کیا جاتا،یہ  احدیت ہے ۔ ذات بحت کے علاوہ یہاں کچھ نہیں ۔ بطون، اطلاق اور ازلیت ، وحدت کی اسی جہت (احدیت) سے متعلق ہے۔ –

دوسری جہت یہ ہے کہ بے حد و بے شمار اعتبارات اس وحدت سے متعلق قائم ہوں، بلکہ اس میں مندرج ہوں ۔ یہ ذات کی یکتائی جملہ اعتبارات کے ساتھ ہے، اس لیے اب اس کو واحدیت کہیں گے۔ اس مرتبہ میں ذات ، نری نہیں رہتی بلکہ بے شمار اعتبارات بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اسماء وصفات اور افعال بھی اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس میں ذات کو واحد کہتے ہیں احد نہیں، کیونکہ واحد ثبوتی نام ہے جب کہ احد سلبی – اسماء و صفات اور افعال کا اعتبار اسی مرتبہ میں ہوگا جو واحدیت ہے ۔ ذات کے ساتھ یہاں ہزاروں اعتبارات بھی ہیں ، ظہور ، وجود (یافت) اور ابدیت، وحدت کی اسی جہت (واحدیت) سے متعلق ہے۔ )

ان دونوں اعتبارات( جہت سقوط اعتبارات اور جہت ثبوت اعتبارات ۔) یا دیگر اعتبارات( اسماء وصفات اور افعال ہیں، صوفیہ کرام ان کے لیے بھی اعتبارات کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں) میں کوئی غیریت یا تفریق (حقیقی) نہیں۔ کثرت مغایرت احکام کی وجہ سے ہے اور وحدت میں کثرت بالفعل نہیں( کثرت یہاں بالقوہ ہوتی ہے کیونکہ وحدت ذات حق کا ایک ایسا مرتبہ ہے جس میں قایلیت کثرت ہے، بالقوہ نہ کہ بالفعل، ان قابلیات کثرت کو شئون ذاتیہ اور حروف عالیہ کہتے ہیں جو غیب الغیوب میں مخفی ہیں جس طرح شجر تخم میں طاؤوس بیضہ میں اور آگ سنگ چقماق میں۔) لہذا وحدت اس ذات کی یکتائی ہے جس نے خود کو بغیر سقوط اعتبارات اور بغیر ثبوت اعتبارات کے جانا ۔ مرتبہ ذات میں فرق نہ ثبوت اعتبارات کا ہے اور نہ سقوط اعتبارات کا( سقوط اعتبارات اور ثبوت اعتبارات کے بغیر ذات کی یکتائی کا نام ہے ۔ یہ سقوط وثبوت اعتبارات کے بغیر انائے مطلق ہے ۔)

پس یہ ذات کا ظہور اول ہے(اسی بنا پر اسے تجلی اول کہتے ہیں) ، احدیت اور واحدیت دونوں اس کی نسبتیں ہیں۔ اگر وحدت نہ ہوتی تو یہ نسبتیں بھی نہ ہوتیں ، جیسے عشق کی دو نسبتیں ہیں ، عاشق اور معشوق یہ دونوں عشق کے بغیر معدوم ہیں ۔ اسی طرح احدیت ، وحدت کے اوپر اور واحدیت ، وحدت کے نیچے ہے اور وحدت برزخ ہے یعنی ان دونوں کے درمیان ہے ۔ اس وحدت کو تجلی اول ، تنزل اول(ذات کا پہلا نزول اسی مرتبہ میں ہوا)، حقیقة الحقائق، برزخ کبری ، اصل البرازخ ، او ادنی (اوادنی : وحدت کا یہ نام قاب قوسین او ادنی سے ماخوذ ہے ۔ قاب قوسین صوفیہ کرام کے نزدیک وہ مقام اتصال ہے جہاں سے احدیت اور واحدیت کی قوسین میں امتیازپیدا ہو جاتا ہے۔ فنافی اللہ سے قبل یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج و شہود اور وجدان کی انتہا ہے ۔ تمیز کے دور ہوتے ہی قوسین بواسطہ سطوت تجلی ذات متحد ہو گئیں اور فنافی اللہ حاصل ہوگئی جس کی جانب او ادنی سے اشارہ ہے ۔)اور الف کہتے ہیں

(الف : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ الف نام ہے خط کا جو نقطہ سے بنتا ہے اور پھر خط ہی سے سارے حروف بنتے ہیں ، جیسا کہ مولانا عبد الرحمن جامی نے فرمایا :

یک نقطه الف گشت والف گشت حروف

در حرف الف بنامے موصوف

چون حرف مرکب شده آمد به سخن

ظرفیست سخن نقطه در وچوں مظروف

 اک نقطہ الف ہو گیا اور الف سے حروف بن گئے پھر الف ہر حرف میں ایک نام سے موسوم ہو گیا۔ پھر جب حروف مرکب ہوئے تو سخن ہو گیا اور اب سخن ظرف ہے اور نقطه مانند مظروف)

چونکہ احدیت کو نقطہ کہا جاتا ہے ، اس لیے وحدت کو الف کہتے ہیں۔ )

اس مرتبہ ثانیہ یعنی وحدت کے اور بھی نام ہیں

قابلیت اولی : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ مرتبہ تمام قابلیات کی اصل ہے ۔

مرتبہ ولایت مطلقہ : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پر ولایت مطلقہ کا دارو مدار ہے۔ اور ولایت کا کوئی مرتبہ ، ولایت مطلقہ سے بلند تر نہیں ۔ ولایت مطلقہ کہتے ہیں ولایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ ہی کی اتباع کامل کی وجہ سے ولایت خاتم الاولیاء کو بھی اس سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

حجاب عظمت : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ سوائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی یہاں تک نہ پہنچ سکا

محبت حقیقیہ : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ مقام حب حقیقی و حب ذاتی ہے بفحوائے كنت كنزاً مخفيا فاحببت ان اعرف یہاں حب ذاتی اور توجہ بخلق کا ظہور ہوا۔

وجود مطلق : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس مرتبہ میں دیگر مراتب کے بخلاف ذات کا شعور اور اس کی یافت بہ اعتبارات ، مطلق و مجمل ہے اور ایک مرتبہ نے اس سے تقید پایا ہے۔

تعیین اول : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں ذات کے لیئے اسماء وصفات کا اولا تقرر ہوا ہے ۔

رفیع الدرجات: اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وحدت ہی کے درجات کی تفصیل واحدیت میں ہوتی ہے، رفیع الدرجات ذو العرش سے اس طرف اشارہ ہے۔

اسی طرح اس مرتبہ کو کنز الكنوز ، کنز الصفات، احدیت الجمع،مقام اجمالی ، ام الکتاب، روح القدس، لوح قضا ، عرش مجید، درة البيضاء ، بشرط شے بالقوه ، بشرط کثرت بالقوه ، نفس رحمانی ، وحدت الحقیقۃ،حقیقت انسانی ، حب ذاتی ، رابطہ بین الظهور والبطون ،فلک ولایت مطلقه ،علم مطلق، ظل اول ، وجود اول ،موجود اول ، مبدأ اول ، نشان اول،منشاء اول ، جوہراول ، نداء اول ، خیال اول بھی کہتے ہیں۔ ان تمام اصطلاحی اسماء سے ایک ہی چیز واضح ہوتی ہے کہ یہ ذات کا پہلا مرتبہ نزول ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں