صفات بسیط کا مفہوم مکتوب نمبر 296دفتر اول

حق تعالیٰ کی صفات بسیط ہونے اور اشیاء کے متعددہ تعلق کی نفی کرنے کے بیان میں حضرت مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید سلمہ الله تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ الله رب العالمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل پاک پر صلوة والسلام  ہو۔

خداتجھے سعادت مند کرےتجھے جاننا چاہیئے کہ اس واجب الوجود کی صفات اس کی ذات کی طرح بیچگون وبیچون(بے مثل و بے کیف) ہیں اور بسائط حقیقیہ سے ہیں۔ مثلا علم ایک بسیط انکشاف ہے جس کے ساتھ تمام ازل ابد کی معلومات منکشف ہوتی ہیں اور ایک ہی قدرت کاملہ بسیط ہے جس کے وسیلہ سے تمام اولین و آخرین کے مقدورات ظاہر ہوتے ہیں اور ایک کلام بسیط ہے جس کے ساتھ ازل سے ابد تک گویا ہے۔ علی ہذا القیاس تمام حقیقیہ کایہی حال ہے اور وہ تعدد بھی جو معلومات اور مقدورات کے ساتھ تعلق حاصل کرنے کے اعتبار سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ میں مفقود ہے۔ تمام اشیاءحق تعالیٰ کی معلم و مقدور ہیں لیکن صفت علم و قدرت کو اشیاء کے ساتھ کچھ  تعلق نہیں ۔ یہ معرفت نظرو عقل کے احاطہ سے باہر ہے ارباب معقول لیکن اہل فلسفہ ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو محال جانتے ہیں کہ اشیاء حق تعالیٰ کی معلوم ہوں اور حق تعالیٰ کے علم کا ان سے تعلق نہ ہو اور ایسے ہی اشیا ءحق تعالیٰ کی مقدور ہوں اور قدرت ان سے متعلق نہ ہو۔ یہ لوگ نہیں دیکھے کہ اس مرتبہ میں ازل و ابد آن واحد ہیں بلکہ آن بھی گنجائش نہیں رکھتا اور اقرب سے اور اوفق سے زیادہ کچھ ظاہر نہیں کرتا اور ازل وابد کے موجودات اسی آن واحد میں منکشف ہیں۔ مثلا اسی آن واحد میں زید کو معدوم اور موجودبھی جنین (ماں کے پیٹ میں)بھی صبی (بچپن کی حالت)بھی جوان بھی بوڑھا بھی زندہ بھی مردہ بھی برزخ میں بھی عرصات میں بھی جنات میں بھی برابر جانتا ہے اور معلوم ہے کہ اس آن واحد کو ان موجودات کے ساتھ کچھ تعلق نہیں کیونکہ اگرتعلق پیدا کرے تو آنیت سے نکل جائے گا اور زمانہ نام پائے گا اور ماضی و مستقبل بن جائے گا۔ پس یہ موجودات اسی آن واحد میں ثابت بھی ہیں اور غیرثابت بھی پس اگر انکشاف سے ثابت کیا جائے کہ بسیط حقیقی(جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے مجرد(خالی) اور شیون و صفات کی تفصیلوں سے معراہے) کو معلومات میں سے کسی معلوم کے ساتھ تعلق نہیں اور تمام معلومات اس انکشاف سے معلوم ہوتے ہیں تو کیا عجب ہے کیونکہ جمع ضدین اس جگہ محال نہیں ہے کیونکہ وہ اتحاد وزمان اور اتحاد جہت کے ساتھ مخصوص ہے اور اس جگہ زمان کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر زمانہ کے احکام جاری نہیں ہو سکتے اور اتحاد جہت بھی مفقود ہے کیونکہ اجمال و تفصیل کا فرق ہے جس طرح کلمہ کے مرتبہ میں کوئی شخص کہہ دے کہ اسم وفعل وحرف ایک دوسرے کی قسم ہیں ۔ سب کو اس مرتبہ میں آن واحد میں متعد دیکھتا ہوں اور منصرف کو عین غیر منصرف پاتا ہوں اورمبنی کو عین معرب جانتا ہوں اور کہہ دے کہ باوجود اس جامعیت کے کلمہ کو ان اقسام میں سے کسی کے ساتھ کچھ تعلق نہیں اور ان سب سے مستغنی ہے تو کوئی دانا اس شخص کی بات کا انکار نہ کرے گا اور اس کو دور از عقل و قیاس نہ جانے گا تو پھر اس امر میں جس کا ہم بیان کر رہے ہیں ۔ ۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى اعلی مثال الله تعالیٰ کے لیے ہے میں کیوں تعجب کرتے ہیں اور کیوں توقف کر تے ہیں اور اس کو دوراز عقل کیوں سمجھتے ہیں اگر یہ کہیں کہ اس قسم کی بات کسی نے نہیں کی تو پھر کیا ہوا جبکہ دوسروں کے کلام کے مخالف نہیں ہے اور نہ ہی مرتبہ وجوب کے نا مناسب ہے۔

خربوزه بخور ترا بفالیز چه کار ترجمہ: تو کھا خربوزہ کچھ مطلب نہ رکھ فالیز سے 

وہ مثال جومخلوقات میں کہہ سکتے ہیں۔ اس معرفت کی توضیح کے لئے ہے جو انہوں نے کہی ہے کہ علت کا علم معلول کے علم کومستلزم ہے اور اس صورت میں مدرکہ بالاصالة علت کی طرف متوجہ ہے اور علت کے ساتھ تعلق ہے اور معلوم کا علم علت کے علم کی تبعیت سے ہے بغیر اس بات کےتعلق ثانی پیدا کرے لیکن معقولی یعنی فلسفے والے اس صورت میں بھی مرتبہ ثانی میں علم کے تعلق کے بغیر معلول کی معلومیت تجویز نہیں کرتے ۔ اگر چہ وہ تعلق بالاصالت (براہ راست) نہ ہو اس مثال سے زیادہ واضح مثال معلوم نہیں  کہ مل سکے اور ہمارامقصودتو ضیح ہے نہ اثبات ۔ وَاَللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ ‌الْأُمُورِ كُلِھَا الله تعالیٰ تمام کاموں کی حقیقت کو زیادہ جانتا ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺ کی تابعداری کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ454ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں