اسرارذات وانوارصفات (باب اول)

اسرارذات وانوارصفات حکمت نمبر14

اسرارذات وانوارصفات کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر14 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور یہ اسرار، ذات کے اسرار ، اور صفات کے انوار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تجلی مخلوقات کے مظہر میں ظاہر فرماتا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے ۔
14) الْكَوْنُ كُلُّهُ ظُلْمَةٌ ، وَإِنَّمَا أَنَارَهُ ظُهُورُ الْحَقِّ فِيهِ ،
مخلوق تاریکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی نے اس میں ظاہر ہو کر اس کو روشن کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے مشاہدے سے حجاب

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ مخلوقات اپنے موجود اور محسوس ہونے کی حیثیت سے سب کی سب تاریکی ہیں۔ اس لئے کہ وہ اس شخص کے لئے جو ان کے ظاہر کے ساتھ ٹھہر جائے اللہ تعالیٰ کے مشاہدے سے حجاب ہیں۔ اور اس لئے کہ وہ ایسی بدلیاں ہیں ، جو اس شخص کے لئے جو ظا ہری محسوس صورت میں مشغول ہو جاتا ہے، حقیقت کے آفتاب کو چھپا دیتی ہیں۔ حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
لَا تَنظُرُ إِلَى الْأَوَانِيُّ ، وَ خُضُ بِحْرَ الْمَعَانِي، لَعَلَّكَ تَرَانِي
تم ظاہری صورتوں کی طرف نہ دیکھو، اور حقائق کے سمندر میں غوطہ لگاؤ۔ شاید کہ تم مجھ کو دیکھو۔
پس اس اعتبار سے کل مخلوق تاریکی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تجلی کے ظہور نے اس کو روشن کیا ہے۔ لہذا جس شخص نے صرف اس کے محسوس ظاہر کو دیکھا۔ اس نے صرف محسوس ظلمانی صورت دیکھی۔ اور جس نے اس کے باطن میں غور کیا ۔ اس نے ملکوتی نوردیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے
پس حاصل یہ ہوا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا قول مخلوق تاریکی ہے صرف اہل حجاب کے حق میں ہے۔ کیونکہ ان کے قلوب کے آئینے میں مخلوق کی ظاہری صورتیں چھپی ہوئی ہیں۔ لیکن اہل عرفان تو ان کی بصیرت اللہ تعالیٰ کے شہود میں پہنچی ہوئی ہے۔ لہذاوہ مخلوق میں جبروت کے سمندر سے پہنچنے والا نور د یکھتے ہیں ۔ لہذا ان کے نزدیک مخلوق کل کے کل نور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ آپ فرمادیجئے۔ تم لوگ غور کرو کہ آسمان اور زمین میں کیا چیزیں ہیں۔
یعنی اس کے ملکوت کے انوار، اور اس کے جبروت کے اسرار، یا مخلوقات میں قائم حقائق کےاسرار کو دیکھ ۔ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
إنَّ اللَّهَ احْتَجَبَ عَنْ أَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا احْتَجَبَ عَنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَإِنَّ أَهْلَ الْمَلَاءِالأعلى ليَطْلُبُونَهُ كَمَا تَطْلُبُونَهُ أَنتُمْ، وَإِنَّهُ مَا حَلَّ فِي شَيْءٍ وَلَا عَابٌ عَنْ شَيْءٍ
اللہ تعالیٰ آسمان والوں سے بھی اسی طرح پوشیدہ ہے جس طرح زمین والوں سے پوشیدہ ہے۔ اور ملا اعلیٰ والے (یعنی فرشتے) اس کو اسی طرح تلاش کرتے ہیں جس طرح تم لوگ اس کو تلاش کرتے ہو۔ اور نہ اس نے کسی شے میں حلول کیا ہے اور نہ وہ کسی شے سے غائب ہے ۔
اور یہ حقائق صرف ذوقی ہیں۔ عقل سے یا کتابوں کی ورق گردانی سے نہیں پائی جاسکتی ہے۔ یہ حقائق صرف اہل ذوق عارفین کاملین کی صحبت سے حاصل کی جاتی ہیں۔ لہذا تم ان کو تسلیم کرو۔ اور تنقید ( اعتراض نکتہ چینی ) نہ کرو:
وَإِذَا لَمْ تَرَ الْهِلَالَ فَسَلَّمُ لِأَنَاسِ رَآوُهُ بِالْأَبْصَارِ
اور اگر تم نے چاند نہیں دیکھا ہے ۔ تو جن لوگوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہے تم ان کو دیکھنا تسلیم کرو۔

مشاہدہ  والوں کی تقسیم

مشاہدہ کرنے والے تین قسم کے ہیں پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرنے والوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
عام ، خاص، خاص الخاص:۔
چنانچہ فرمایا۔
فَمَنْ رَأَى الْكَوْنَ وَلَمْ يَشْهَدْهُ فِيهِ أَوْ عِنْدَهُ أَوْ قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ فَقَدْ أَعْوَزَهُ وُجُودُ الأَنْوَارِ ، وَحُجِبَتْ عَنْهُ شُمُوسُ الْمَعَارِفِ بِسُحُبِ الآَثَارِ .
پس جس شخص نے مخلوق کو دیکھا۔ لیکن اس کے اندر، یا اس کے قریب ، یا اس کے آگے ، یا اس کےپیچھے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہیں کیا۔ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کو انوار کے وجود نے عاجز کر دیا ہے ۔ اور معارف کے آفتاب آثار کے بادلوں کی وجہ سے اس سے پوشیدہ ہو گئے ہیں ۔
پس اہل مقام بقاء مخلوق پر نظر پڑنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ لہذادہ آثار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے کا مشاہدہ نہیں کرتے ہیں۔ مگر یہ کہ وہ اپنے کمال کی وجہ سے واسطہ اور موسوط (اللہ تعالیٰ ) کو ثابت کرتے ہیں ۔ لہذا وہ حضرات واسطہ کو دیکھنے کے ساتھ ہی اس کے اندر، یا اس کے قریب قبل اور بعد اور ظرف و مظروف کا لحاظ کئے بغیر اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں:۔
مُذْ عَرَفْتُ الْإِلٰهِ لَم اَرَ غَيْرًا وَكَذَا الْغَيْرُ عِندَنَا مَمْنُوع
جب سے میں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا۔ اس وقت سے میں نے اس کے غیر کو نہیں دیکھا۔ اور غیر کا دیکھنا ہمارے نزدیک منع ہے ۔
حضرت شیخ مولای عبدالسلام بن شیش رضی اللہ عنہ نے حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوالحسن تم ایمان کی نظر تیز کرو۔ تم ہرشے میں ، اور ہرشے کے نزدیک ، اور ہرشے کے ساتھ ، اور ہرشے کے قیل ، اور ہرشے کے بعد، اور ہرشے کے اوپر، اور ہرشے کے نیچے، اور ہرشے سے قریب ، اور ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ، ایسے قرب اور احاطہ کے ساتھ جو اس کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پاؤ گے۔ اور ظرفیت اور حدود سے، اور مکانوں اور طرفوں سے، اور فاصلے کی نزدیکی اور صحبت سے، اورمخلوقات میں دورہ کرنے کے اعتقاد سے منہ پھیر لو اور اللہ تعالیٰ کے وصف اول و آخر ، اورظاہ رو باطن اور ھو، ھو ھو میں (وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ ہے) سب کو سنا دو۔
کَان الله وَلَاشيءَ مَعَهُ، وَهُوَ الآنَ عَلَى مَا كَانَ
اللہ تعالیٰ تھا۔ اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی ۔ اور وہ اب بھی اس حال پر ہے جس حال پروہ تھا۔
یعنی اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔
ایک عارف کامل نے فرمایا ہے: میں نے ہرشے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ۔ لیکن اس کو حادث (فانی) نہیں دیکھا۔ پس مریدین میں سے سائرین (مقامات کی سیر کرنے والے) پہلے حقوق کو دیکھتے ہیں۔ یہ اس کے قریب اور اس کی نشانی سے خالق کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پھر خالق کی طرف ان کی نظر پڑتے ہی مخلوق ان کی نظر سے مٹ جاتی ہے اور یہ مستشرفین ( بلند مقامات کی طرف ترقی کرنے والے ) کا حال ہے۔ لیکن اہل مقام فنا: مخلوق کے دیکھنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس معنی میں کہ وہ مخلوق کو بالکل نہیں دیکھتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک مخلوق کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ
وہ اپنے شکر کی وجہ سے واسطہ غائب ہو چکے ہیں اور وہ حکمت سے خالی ہو چکے ہیں۔ (یعنی مدہوشی کی وجہ سے وہ شریعت سے بے خبر ہیں ) اور وہ انوار الہٰی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر میں مخلوق کی ساری نشانیاں مٹ چکی ہیں۔ اسی مقام میں پہنچ کر ایک عارف نے فرمایا ہے:۔ میں نے جب کسی شے کو دیکھا تو اس کے قبل اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ اور اہل حجاب : ۔ دلیل و برہان والوں میں سے ہیں ۔ وہ صرف مخلوق کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہ اس کے قبل کرتے ہیں نہ اس کے بعد ۔ وہ مخلوق کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کرتے ہیں اور یہ مقام عام مسلمانوں میں سے اہل یمین ( داہنی طرف والے ۔ نیک لوگ ) کا ہے۔ انوار کا وجود ان سے فوت ہو گیا ہے اور وہ انوار تک پہنچنے سے روک دیئے گئے ہیں۔ اور معارف کے آفتاب نکلنے اور روشن ہونے کے باوجود وہ آثار کے بادلوں میں چھپ گئے ہیں۔ لیکن آفتاب کے لئے بادل اور حسینوں کے لئے نقاب ضروری ہے۔ ایک عارف کا شعر ہے:۔
وَمَا احْتَجَبَتْ إِلَّا بِرَفْعِ حِجَابِهَا وَمِنْ عَجَبٍ أَنَّ الظُّهُورَ تَسَتَّر
اور وہ حجاب اٹھ جانے کے باوجود پو شیدہ ہے ۔ اور تعجب یہ ہے کہ ظاہر ہوناہی پوشیدہ ہونا ہے۔
اور دوسرے عارف نے فرمایا ہے:۔
لَقَدْ ظَهَرْتَ فَلَا تَخْفَى عَلَى أَحَدٍ إِلَّا عَلَى اكْمَہٍ لَا يُبصِرُ الْقَمَرَا
البتہ تو ظاہر ہے پس تو کسی سے چھپ نہیں سکتا ہے۔ مگر ایسے اندھے سے جو چاند کو بھی نہیں دیکھ سکتا ہے ۔
لَكِن بَطَنتَ بِمَا أَظْهَرْتَ مُحْتَجِباً وَكَيْفَ يُعْرَفُ مَنْ بِالْعِزَّةِ اسْتَتَرَا
لیکن جن اشیاء کو تو نے ظاہر کیا انہیں کے حجاب میں تو پوشیدہ ہو گیا اور وہ ذات کیسے پہچانی جا سکتی ہے۔ جو عزت کے پردے میں پوشیدہ ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں