اعمال کا قبول ہونا ہی اجر (بارھواں باب)

اعمال کا قبول ہونا ہی اجر کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 122 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور تم ایسے عمل پر اجر کیسے چاہتے ہو، جس کے کرنے والے تم نہیں ہو۔ اور اس عمل کے قبول ہونے کا علم بھی تم کو نہیں ہے؟
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
122) لا تَطْلُبْ عِوَضاً عَلَى عَمَلٍ لَسْتَ لَهُ فَاعِلاً ، يَكْفِي مِنَ الجَزَاءِ لَكَ عَلى العَمَلِ أَنْ كَانَ لَهُ قَابِلاً.
تم اللہ تعالی سے ایسے عمل کا اجر نہ چاہو، جس کے کرنے والے تم نہیں ہو۔ تمہارے لئے اس عمل کا یہی اجر کافی ہے کہ وہ قبول ہو جائے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اہل حق کے نزدیک یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بندہ مختار قالب (ڈھانچہ ) کے اندر مجبور ہے۔ اس وجہ سے اس کے لئے کوئی فعل اور اختیار نہیں ہے اور حقیقتا فاعل صرف اللہ واحد قہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
(وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ) تمہارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اختیار کرتا ہے۔
اور اللہ تعالی نے دوسرے مقام میں فرمایا: (وَاللهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ) اور اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا۔ اور اس کو بھی جو تم عمل کرتے ہو۔ یعنی تمہارے اعمال اور اللہ تعالیٰ نے تیسری جگہ فرمایا: (وَمَا تَشَاؤُنَ إِلَّا اَنْ يَّشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ ) تم صرف وہی چاہتےہو ۔ جو اللہ رب العالمین چاہتا ہے ۔
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: كُل شَيْءٍ بِقَضَاءٍ وَقَدْرٍ حَتَّى الْعَجْزُ وَالْكَيْسُ سب چیزیں قضا و قدر کے ماتحت ہیں۔ یہاں تک کہ مجبوری ، اور خوشی بھی
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا ‌خُلِقَ ‌لَهُ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ ‌أَهْلِ ‌السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ ‌أَهْلِ ‌السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ ‌أَهْلِ ‌الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ ‌أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى الْآيَةُ آسان یعنی موافق بنا دیا جاتا ہے۔ اس کام کے لئے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ (یعنی ہر شخص جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ کام اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے ) تو جو شخص نیک بختوں میں سے ہے۔ وہ نیک بختوں کے عمل کے لیے موافق بنا دیا جائے گا۔ اور جو شخص بدبختوں میں سے ہے۔ وہ بد بختوں کے عمل کیلئے موافق بنا دیا جائے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلۡيُسۡرَىٰ لیکن جس نے اللہ تعالی کے راستہ میں مال دیا، اور اللہ تعالی سے ڈرا اور نیکی (اسلام) کی تصدیق کی ۔ تو ہم اس کو آرام کی جگہ تک جانے کیلئے راستہ آسان بنا دیں گے
تو جب یہ ثابت ہو گیا تو بندہ ایسے عمل پر جس کا کرنے والا وہ نہیں ہے اجر کی خواہش کیسے کرتا ہے؟ اور عمل کی نسبت بندے کے ساتھ ہونے کی صورت میں بھی عمل کا اجر عمل کی قبولیت پر موقوف ہے۔ تو تم کو یہ کس طرح معلوم ہوا۔ کیا تمہارا عمل مقبول ہے، یا نہیں ہے؟ اور اگر اس میں نقص اور خلل کے باوجود اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول کرلے ۔ تو اس عمل کو یہی اجر تمہارے لیے کافی ہے۔ تو اگر اس کی پردہ پوشی بہترین نہ ہوتی۔ تو کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ہوتا ۔ اور اگر اللہ سبحانہ تعالی معافی اور برداشت کے ساتھ اپنے بندوں پر فضل و کرم نہ فرماتا تو وہ کسی عمل کو ہر گز قبول نہ فرماتا۔ کیونکہ اعمال کی پاکیزگی تقریباً محالات میں سے ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: (وَ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ) اور ان لوگوں نے اللہ تعالی کی ایسی قدر نہیں کی ۔ جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ یعنی جیسا اس کی تعظیم کا حق ہے۔ ویسی تعظیم اس کی نہیں کی ۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔ (كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا آمَرَهُ ) ہر گز نہیں ، انسان کو جو حکم اللہ تعالی نے دیا۔ اس کو اس نے پورا نہیں کیا
یعنی انسان کو جو حکم اللہ تعالی نے دیا تھا اس کو اس نے اس طریقے پر انجام نہیں دیا ، جس طریقے پر انجام دینے کا حکم اس نے دیا تھا۔ اور اللہ تعالی کے اس قول میں غور کرو :-
أولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا یہی وہ لوگ ہیں جن سے بہترین عمل کو ہم قبول کرتے ہیں اور اللہ تعالی نے تنقبلُ مِنْهُم نہیں فرمایا۔ کیونکہ من کا تقاضا ہے، کہ عمل کامل ہو۔ بلکہ عنهم فرمایا ہے۔ کیونکہ عن تجاوز کا مفہوم پیدا کرتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے عمل میں جو نقص اور خلل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی اس سے تجاوز یعنی در گزر فرما کر بہترین بناتا ہے۔ پھر اس کو قبول فرماتا ہے۔ اور اگر اس میں درگزر نہ فرماتا تو وہ بہترین نہ ہوتا۔ پھر قابل قبول نہ ہوتا تو اس کو ان کی جانب سے قبول نہ فرماتا۔ لیکن بخشش کرنے والا اللہ تعالی نکتہ چینی نہیں کرتا ہے۔ بلکہ اپنی عظیم بخشش کی بناء پر جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے سب قبول کر لیتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں