اعمال کی اقسام (باب اول)

اعمال کی اقسام حکمت نمبر09

اعمال کی اقسام کے عنوان سے  باب اول میں  حکمت نمبر09 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اعمال اور ان کے نتائج کا یہ بیان فرمایا، اور اعمال کا نتیجہ ادب ہے۔ اورادب کا تقاضاتدبیر و اختیار کے بغیر، اور جس میں تاخیر ہوتی ہے اس میں جلدی چاہیئے اور جو جلدی ہوتا ہے اس میں تاخیر چاہنے کے بغیر قضا و قدر کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے سکون واطمینان ہے۔ کیونکہ اس کی نگاہ کا مرکز وہ شے ہے جو قدرت کی اصل سے ظاہر ہوتی ہے۔ پس یہ ادب اس کو معرفت سکھاتی ہے۔ اس لئے مصنف نے اعمال کی اقسام کی اکثریت اور عامل کی درستی کے ذریعے اعمال کی درستی کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا۔
9) تَنَوَّعَتْ أَجْناسُ الأَعْمالِ لَتَنَوُّعِ وارِداتِ الأَحْوالِ.
احوال کے واردات بہت قسم ہونے کی وجہ سے اعمال کی قسمیں بھی بہت ہیں اعمال کا معنی یہاں جسم کی حرکت ہے۔ اور واردات و احوال کا معنی قلب کی حرکت ہے ۔ پس خاطر اور وارد اور حال ان کی جگہ ایک ہے۔ اور وہ قلب ہے۔ جب قلب میں ظلمانی ونورانی دونوں قسم کے خطرے یعنی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ تو جو خیال بھی پیدا ہو۔ اس کا نام خاطر رکھا گیا۔ اور جب ظلمانی خیالات فنا ہو جاتے ہیں تو جو خیال بھی پیدا ہو۔ اس کا نام وارد یا حال رکھا گیا۔ اور جب یہ ہمیشہ ایک حال میں قائم ہو جائے تو اس کا نام مقام رکھا گیا۔

باطنی وظاہری اعمال کی اقسام

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: باطنی احوال کی اقسام زیادہ ہونے کی وجہ سے ظاہری اعمال کی اقسام بھی بہت ہوگئی ہیں۔ یا تم اس طرح کہو جسمانی اعمال قلبی احوال کے تابع ہیں۔ لہذا اگر قلب پر قبض (تنگی ۔رکاوٹ ) وارد ہوتا ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر سکون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر قلب پربسط ( کشادگی ) وارد ہوتا ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر حرکت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جسم میں چستی پیدا ہوتی ہے اور اعمال سرزد ہونے لگتے ہیں) اور اگر قلب پر زہد ورع ( تقوی، پرہیز گاری) وارد ہوتا ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر ترک کرنے اور پیچھے ہٹ جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر قلب پر حرص و خواہش وارد ہوتی ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر کوشش اور مشقت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر قلب پر محبت و شوق وارد ہوتا ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر شطح (خلاف شرع باتیں کہنی ) اور رقص (ناچنا، اچھلنا، کودنا وغیرہ وجد کی بے اختیاری حرکتیں) کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر قلب پر معرفت اور شہود وارد ہوتا ہے تو اس کا اثر جسمانی اعضاء پر آرام و اطمینان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے احوال ، اور احوال کے اثر سے پیدا ہونے والے اعمال ہیں۔
اور کبھی ایک قلب پر مختلف قسم کے احوال وارد ہوتے ہیں۔ تو اس کے اثر سے ظاہری اعمال بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ اور کبھی ایک قلب پر ایک حال غالب ہوتا ہے تو اس کا اثر اس کے ظاہر پر ایک قسم کے عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا جب کسی شخص کے قلب پر قبض یعنی تنگی غالب ہوتی ہے تو اس تنگدلی کا اثر اس کے ظاہری اعمال میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب کسی شخص کے قلب پر بسط یعنی کشادگی غالب ہوتی ہے تو اس فراخدلی کا اثر اس کے ظاہری اعمال میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اسی طرح دوسرے احوال کی کیفیت ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
حدیث شریف میں ہے۔
إِنَّ فِي جَسَدِ بَنِي آدَمَ مُضْغَةًإِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ
انسان کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے۔ جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم خراب ہوتا ہے۔ اور وہ قلب ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں اس حقیقت کی بناء پر صوفیائے کرام کے احوال مختلف ہو گئے ہیں ۔ لہذا ان میں عابدین وزاہدین اور متقین و عارفین اور مریدین مختلف درجات کے لوگ ہیں ۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے اپنے قواعد میں فرمایا ہے:
( قاعدہ) نسک ۔ ہر مسلک سے فضائل کو حاصل کرنا ہے اس کے علاوہ دوسرے مسلکوں کی رعایت کئے بغیر ۔ پس اگر اعمال میں ثابت ہونا اختیار کیا تووہ عابد ہے ۔ اور اگر احوال کے حاصل کرنے کی طرف مائل ہوا تو وہ متقی ہے۔ اور اگر سلامتی حاصل کرنے کے خیال سے ترک کی طرف متوجہ ہوا تو وہ زاہدہے۔ اور اگر اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی مراد میں فنا کر دیا تو وہ عارف ہے۔ اور اگر اخلاق اور تعلق حاصل کیا تو وہ مرید ہے۔
دوسرا قاعدہ۔ مسلکوں کے اختلاف سے مقصد کا اختلاف لازم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ مسلکوں کے اختلاف کے باوجود مقصد ایک ہے۔ جیسے عبادت، اور زہد اور معرفت اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے مسلک ہیں۔ لیکن سب ایک دوسرے میں داخل ہیں۔ (یعنی ایک مسلک پر چلنے والے کے لئے دوسرے مسلک پر چلنا بھی ضروری ہے)۔ لہذا عارف کے لئے عبادت ضروری ہے ورنہ اس کی معرفت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے معروف کی (یعنی جس کی معرفت چاہتا ہے )اس کی عبادت نہیں کی۔ اور عارف کے لئے زہد بھی ضروری ہے ورنہ اس کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ماسوی اللہ سے منہ نہیں پھیرا۔ اور عابد کے لئے معرفت اور زہد ضروری ہے۔ اس لئے کہ معرفت کے بغیر عبادت بالکل ناممکن ہے ۔ اور زہد کے بغیر عبادت کے لئے فرصت نہیں مل سکتی ہے۔ اور اسی طرح زاہد کے لئے بھی معرفت اور عبادت ضروری ہے۔ اس لئے کہ بغیر معرفت کے زہد بالکل ممکن نہیں ہے اور بغیر عبادت کے زہد نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بے فائدہ اور بے مقصد ایک عادت اختیار کرتا ہے۔ ہاں ، جس شخص پر عمل غالب ہوا،
وہ عابد ہے اور جس پر ترک غالب ہوا ، وہ زاہدہے اور جس پر اللہ تعالیٰ کی صفات و اختیارات کی طرف توجہ غالب ہوئی وہ عارف ہے۔ اور سب کے سب صوفی ہیں ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں