اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانے (سولہواں باب)

اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانے کے عنوان سے سولہویں باب میں  حکمت نمبر 152 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس نور کے ابتدائی مطلع کو بیان کیا اور وہ ابتدائی مطلع قلب ہے۔ پھر یہ نور، روح کے اوپر روشن ہوتا ہے۔ پھر سر کے اوپر روشن ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا :-
152) نُورٌ مُسْتَوْدَعٌ فِي القُلُوبِ مَدَدُهُ مِنْ النُّورِ الوَارِدِ مِنْ خَزَائِنِ الغُيُوبِ .
جونور قلوب میں امانت رکھا گیا ہے۔ اس کو اس نور سے مدد پہنچتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے غیبی خزانے سے وارد ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ قلوب میں امانت رکھا ہوا نور ، یقین کا نور ہے۔ اور وہ پہلے ستاروں کی روشنی کی طرح کمزور ہوتا ہے۔ اور وہ اسلام کا نور ہے۔ پھر وہ برابر طاقتور ہوتا رہتا ہے۔ اور غیبی خزانوں سے وارد ہونے والے نور سے مدد حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہانتک کہ وہ چاند کی روشنی کی طرح طاقتور ہو جاتا ہے۔ اور وہ ایمان کا نور ہے۔
پھر وہ نور طاعت اور ذکر اور اولیائے کرام کی صحبت سے ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سورج کی روشنی کی طرح بہت طاقتور ہو جاتا ہے اور وہ احسان کا نور ہے اور غیبی خزانے :- صفات کے انوار اور ذات کے اسرار ہیں۔ اور انہیں سے اسلام اور ایمان کے انوار مدد حاصل کرتے ہیں۔ پھر احسان کے انوار روشن ہوتے ہیں۔ پھر کائنات کا وجود چھپ جاتا ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں فرمایا ہے :- جب وہم کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ تو مخلوق کے وجود کے گم ہونے کی بنا پر عیاں ( مشاہدہ ) حاصل ہوتا ہے۔ اور یقین کا نور روشن ہوتا ہے۔ تو کائنات کا وجود چھپ جاتا ہے۔
اور تم کو معلوم ہونا چاہیئے ۔ کہ حضرات صوفیائے کرام رضی اللہ تعھم کی اصطلاح میں ترتیب اس طریقے پر ہے:۔ پہلے اسلام ۔ پھر ایمان۔ پھر احسان ۔ اس کی وجہ یہ ہے :- بندہ جب تک ظاہری محسوس عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ اس مقام کا نام مقام اسلام
رکھا جاتا ہے۔ پھر جب عمل قلب کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اور وہ بشری عیوب سے پاک ہونے اور معرفت سے آراستہ ہونے اور اخلاص کے ثابت و قائم ہونے کے ساتھ قلب کی صفائی میں بندے کا مشغول ہوتا ہے۔ تو اس کا نام مقام ایمان رکھا جاتا ہے۔ پھر جب عمل روح اور سر کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ اور وہ فکر ونظر ہے۔ تو اس کا نام مقام احسان رکھا جاتا ہے۔
فقہائے کرام کے خلاف :- کیونکہ وہ حضرات ایمان کو اسلام پر مقدم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:- ایمان کے بغیر کچھ درست نہیں ہے۔ اور اصطلاح میں کچھ مخالفت نہیں ہے۔
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اناسٍ مَّشْرَبَهُمْسب لوگوں نے اپنے پانی پینے کے گھاٹ کو پہچان لیا۔ بعض محققین نے فرمایا ہے:۔ تم جان لو! کہ عالم ملک یعنی عالم شہادت کے لئے ظاہری انوار ہیں ۔ اور عالم ملکوت یعنی عالم غیب کے لئے باطنی انوار ہیں ۔اور عالم ملک میں زیادہ مشہور تین انوار ہیں :-
ایک سورج کا نور ۔ دوسرا : چاند کا نور ۔ تیسرا :- ستاروں کا نور ۔ اور ان تینوں کے مقابل، عالم ملکوت میں تین انوار ہیں:۔ ایک :۔ معرفت کا نور ۔ دوسرا :- سمجھ کا نور ۔ تیسرا: – علم کا نور ۔
پس جہالت کی رات میں علم کے ستارے کے طلوع ہونے سے آخرت اور غیبی امور ظاہر ہوتے ہیں۔ اور توحید کے افق میں سمجھ کے چاند کے طلوع ہونے سے، اللہ تعالیٰ کے قرب کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور تفرید کے افق میں معرفت کے سورج کے طلوع ہونے سے یقین مضبوط ہوتا ہے۔ اورمشاہدہ روشن ہوتا ہے۔ اور پہلا نور، جو سینہ میں داخل ہوتا ہے۔ اسلام کا نور ہے۔ تو جب اس سے قلب کھل جاتا ہے۔ تو اس میں ایمان کا نور داخل ہوتا ہے اور جب وہ قلب میں مضبوط ہو جاتا ہے۔ تو وہ شہود ہو جاتاہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اسی نور کی بنا پر قلب ، اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت کو سمالیتا ہے اور اسی کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ فرمایا ہے:۔ لَا يَسَعُنِي ‌أَرْضِي ‌وَلَا ‌سَمَائِي وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ
ہر گز نہ مجھ کو میری زمین سماسکتی ہے، نہ میرا آسمان اور میرے مومن بندے کا قلب مجھ کو سمالیتا ہے۔ (یعنی مومن کے قلب میں میری گنجائش ہے۔ میں اس میں رہتا ہوں۔ لہذا تم اس قلب پر غور کرو ۔ جو اللہ رب العزت سبحانہ تعالیٰ کو اپنے اندر سمالیتا ہے۔ وہ کتنا بڑا اور وسیع ہے۔ اس لئے اے میرے بھائی ! تم ایسے قلب والوں سے جو اللہ علام الغیوب کو اپنے اندر بسائے ہوئے ہیں،محبت کرو ۔ تا کہ وہ تم کو اس غیوب کے علم تک پہنچا دیں۔ جس کے پاس وہ خود پہنچے ہوئے ہیں۔ وبالله التوفيق۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں