اللہ تعالی کا عیوب کو ڈھانپنا (تیرھواں باب)

اللہ تعالی کا عیوب کو ڈھانپنا کے عنوان سے تیرھویں باب میں  حکمت نمبر 130 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
130) لَوْ أَنَّكَ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ إِلاَّ بَعْدَ فَنَاءِ مَسَاوِيكَ وَمَحْوِ دَعَاوِيكَ لَمْ تَصِلْ إِلَيْهِ أَبَدًا ؛ وَلَكِنْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَصِّلَكَ إِلَيْهِ غَطَّى وَصْفَكَ بِوَصْفِهِ ، وَنَعْتَكَ بِنَعْتِهِ ، فَوَصَلَكَ إِلَيْهِ بِمَا مِنْهُ إِلَيْكَ ، لاَ بِمَا مِنْكَ إِلَيْهِ .
اگر تم ایسے ہو، کہ تم اللہ تعالی تک نہیں پہنچ سکتے ہو، مگر اپنے عیوب کو فنا کر دینے ، اور اپنے دعاوی کو مٹا دینے کے بعد تو تم اللہ تعالی تک کبھی نہ پہنچو گے۔ ( کیونکہ اپنے عیوب کو فنا کرنے اور اپنے دعوں کو مٹانے کی قوت اور اختیار تمہارے اندر نہیں ہے ) لیکن جب اللہ تعالی تم کو اپنے تک پہنچانا چاہتا ہے تو تمہارے وصف کو اپنے وصف سے چھپا لیتا ہے اور تمہارے عیوب کو اپنے کمال سے ڈھانپ لیتا ہے۔ پھر تم کو اپنے تک اپنے اس خاص فضل و کرم سے جو تمہارے اوپر ہے، پہنچا دیتا ہےنہ کہ اس طاعت وریاضت کی بنا پر جو تمہارے طرف سے اس کی طرف (تحفہ ) ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالی تک پہنچنا ۔ وہ اس کا اور اس کے احاطہ کرنے کی کیفیت کا علم ہے اس حیثیت سے کہ فنا ہونے والا فنا ہو جائے اور غیر فانی باقی رہ جائے اور یہ نہیں ہوتا ہے۔ مگر نفسوں کے فنا ہونے اور سروں کے جھک جانے (ذلت و عاجزی اور روحوں کے قربان ہونے اور جسموں کےفروخت ہونے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ انْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ بیشک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے جانوں اور ان کے مالوں کو خرید لیا ہے اس عوض میں کہ ان کے لیے جنت ہے یعنی معارف کی جنت جہاد اکبر (بڑا جہاد نفس کے ساتھ جہاد ) کرنے والوں کیلئے اور زخارف کی جنت (نمائشی آرائشی و زیبائشی کی جنت ) جہاد اصغر ( کافروں کے ساتھ جہاد ) کرنے والوں کیلئے۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے۔
مُوتُوا قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا تم لوگ مرنے سے پہلے مرجاؤ
حضرت نقشبندی نے شرح ھائیہ میں اس کو حدیث کے طریقے پر بیان فرمایا ہے ۔ اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں فرمایا ہے – بندہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں صرف دو دروازوں سے داخل ہوتا ہے۔ ایک دروازہ :۔ بڑی موت ، یعنی ظاہری موت ہے ۔ دوسرا درواز ہ ۔ وہ موت ہے جس کو حضرات صوفیائے کرام نے مراد لیا ہے یعنی نفسوں کی موت ۔
حضرت ششتری نے فرمایا ہے۔
إِن تُرِدْ وصلنا فَمَوْتِكَ شَرط لَن يَنَالَ الْوِصَالَ مَنْ فِيهِ فَضْلُهُ
اگر تم ہمارا وصال چاہتے ہو تو اس کیلئے تمہاری موت شرط ہے جس کے اندر اس کے نفس کی کوئی فضیلت باقی ہے وہ ہم کونہیں پاسکتا ہے اور انہی نے یہ دوسرا شعر بھی فرمایا ہے:۔
لَيْسَ يُدْرِكَ وَصَالِى کل مَنْ فِيْهِ بُقْيًا
جس شخص کے اندر اس کے نفس کا کچھ شائبہ بھی باقی ہے وہ میرے وصال کو نہیں پا سکتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے : ولی اللہ تعالی تک اس حال میں نہیں پہنچ سکتا ہے کہ اس کی خواہشات میں سے کوئی خواہش یا اس کی تدبیروں میں سے کوئی تدبیر یا اس کے اختیارات میں سےکوئی اختیار اس کے ساتھ باقی ہو۔ اور یہ پاکیزگی ، بندے کے فعل اور کسب سے نہیں حاصل ہوتی ہے ۔ بلکہ یہ صرف اللہ تعالی کی اس عنایت سے حاصل ہوتی ہے جو اس نے پہلے ہی مقدر فرما دیا ہے۔ پس اگر بندہ ایسا ہے کہ وہ اللہ تعالی تک عیوب کے فنا ہونے اور دعوؤں کے مٹ جانے کے بعد ہی پہنچ سکتا ہے۔ تو بندہ ہونے کی حیثیت سے وہ کبھی نہیں پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی ذاتی حیثیت سے عیوب سے پاک نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے یہ چاہتا ہے کہ اس کیلئے لمبے فاصلے کو لپیٹ دے تو اس کے کیلئے اپنے انوار قدس اور اوصاف سے ایسی تجلی ظاہری فرماتا ہے اس کی بنا پر بندہ اپنے نفس کے دیکھتے سے غائب ہو جاتا ہے۔ تو اب عیوب فنا ہو جاتے اور دعوے مٹ جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالی کا وصال حاصل ہو جاتا ہے اور منزل مقصود تک آتی جاتا ہے اور یہ بندے پر اللہ تعالی کی سابق عنایت اور مہربانی کی بنا پر ہوتی ہے نہ کہ بندے کی ریاضت اور مجاہدہ کی بنا پر۔
اور اگر تم چا ہو تو اس طرح کہو۔ عیوب کا فنا ہونا- بشریت کے اوصاف سے پاک ہونا ہے اور بشری اوصاف اپنی ذاتی حیثیت سے برے اخلاق ہیں اور دعوؤں کا مٹ جانا – اختیار اور قوت سے بری ہونا ہے اس طرح کہ اپنی ذات کیلئے کوئی عمل اور ترک اور کوئی نقص اور کمال نہ دیکھے اور اس حقیقت پر یقین رکھے کہ وہ صرف قضا و قدر کے تیروں کا نشانہ ہے۔ جس پر اللہ واحد قہار کے احکام جاری ہوتے ہیں لیکن نفس کے موجود ہوتے ہوئے ان دونوں حالات کا ثابت و قائم ہونا محال ہے۔ لیکن اللہ تعالی جب تمہارے اندر طلب صادق پاتا ہے اور اپنے فضل و کرم سے تم کو اپنے تک پہنچانا چاہتا ہے تو تم کو اپنے اولیائے کرام میں سے کسی ولی کے پاس پہنچا تا ہے اور تم کو اس کی خصوصیت اور مقبولیت سے آگاہ فرماتا ہے اور تم اس کے ساتھ اس کے ادب کا لحاظ کرتے ہوئے رہتے ہو۔ پھر وہ تم کو ہمیشہ سیر کراتا رہتا ہے یہاں تک کہ تم کو بار گاہ قدس میں پہنچا تا ہے پھر تم سے کہتا ہے۔ اور اب تم ہو اور تمہارا رب اللہ تعالی ہے ۔ تو اس وقت اللہ تعالی تمہارے وصف کو ، جو عبودیت کا وصف ہے اپنے وصف سے جو آزادی کا وصف ہے، پوشیدہ کر لیتا ہے پھر روحانیت کے اوصاف کے ظہور کے سبب بشریت کے اوصاف چھپ جاتے ہیں۔ اور تمہارے حادث ( فنا ہونے والی ) ہونے کی صفت کو اپنے قدیم ہونے (باقی رہنے ) کی صفت سے ڈھانپ لیتا ہے یا تمہارے عدم کی صفت کو اپنے وجود کی صفت سے چھپا لیتا ہے۔
حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے ۔ اللہ تعالی نے تمہاری فقیری کو اپنے غناسے اور تمہاری ذلت کو اپنی عزت سے اور تمہاری عاجزی کو اپنی قدرت سے اور تمہاری کمزوری کو اپنی قوت سے پوشیدہ کر لیا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ عبودیت اور حریت کی جو تشریح میں نے بیان کی ہے اس کو اللہ تعالی ہی تمہارے اوپر لازم کرتا ہے پھر اس وقت اپنے اس خاص احسان اور لطف و کرم سے جو تمہارے اوپر ہے تم کو اپنا وصل عطا فرماتا ہے نہ کہ تمہارے مجاہدہ اور طاعت اور یقین کی بنا پر ۔ اور نفس کی مثال کو کوئلہ کی طرح ہے۔ جتنا بھی تم اس کو صابون سے دھوؤ گے اس کی سیاہی بڑھتی ہی جائے گی لیکن جب اس میں آگ لگا دی جائے اور اس کو ہوا دی جائے تو وہ آگ کا لباس پہن لیتی ہے اور اس میں کو ئلہ کی سیاہی کا کچھ نشان باقی نہیں رہتا ہے۔ اسی طرح بشریت کے اوصاف کو جب روحانیت کے نور کا لباس پہنا دیا جاتا ہے تو وہ بشریت کی ظلمت کو پوشیدہ کر لیتی ہے اور اس کا نشان باقی نہیں رہتا ہے۔ تو بشریت روحانیت کی صفت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ حضرت ششتری اس کے بارے میں اپنے بعض اشعار میں فرماتے ہیں:۔
فَمَتَى فمَا بَيِّنُ لِي زَالَتِ الْبَشَرِيَّا
جب میرے لیے روحانیت کا نور ظا ہر ہوتا ہے تو بشریت زائل ہو جاتی ہے۔
وَتَحَوَّلَتْ غَيْرِى فِي صَفًّا روحانیا
اور روحانیت کی صفائی میں میرا بشری وصف تبدیل ہو جاتا ہے
اور جو آگ بشریت کو جلاتی ہے وہ خواہش نفسانی کی مخالفت ہے اور نفس کا اس چیز کو برداشت کرنا جو اس پر گراں گزرتی ہے۔ جیسے کہ ذلت اور محتاجی وغیرہ۔ اللہ تعالی کے اسم پاک کے ہمیشہ ذکر کے ساتھ ۔ پس جیسے جیسے وہ اس میں فنا ہوتا ہے ویسے ویسے اس کی بشریت کمزور ہوتی ہے اور اس کی روحانیت طاقت ور ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بشریت پر غالب ہو جاتی ہے اس وقت حکم اس کیلئے ہوتا ہے ۔ پھر وہ اپنے مذکورہ اللہ تعالیٰ کے نور میں غائب ہو جاتا ہے اور اپنے محبوب کی عظمت کے شہود میں غرق ہو جاتا ہے تو اب وصال حاصل ہوتا ہے اور عظمت و جلال کے مالک اللہ تعالی میں فنا ثابت ہو جاتی ہے۔
حضرت ششتری سے منقول ہے ، انہوں نے فرمایا :۔ میں خطاب کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے اپنے سے سنا میراکل میرے کل سے غالب ہو گیا ۔ اپنے سے بے نیاز ہو گیا اور میرے لیے حجاب اٹھ گیا میں نے دیکھا کہ میرا کوئی نشان باقی نہیں رہا میں اپنے نشان سے غائب ہو گیا اور جوحاضر ہواو ہ میرے سوا کوئی دوسرانہ تھا۔ وباللہ التوفیق۔ یہاں تیرہواں باب ختم ہوا۔
خلاصہ
اس کا حاصل یہ ہے: اللہ تعالی نے تم کو اوصاف ربوبیت کے ساتھ متعلق ہونے اور اوصاف عبودیت پر ثابت قدمی سے قائم ہونے اور وصف حریت میں اس کے ساتھ تمہارے شریک نہ ہونے کا حکم دیا ۔ نیز یہ کہ جن عادتوں کے تم عادی ہو ان کے مخالف پر عمل کرو یہاں تک کہ تم مہذب اور با ادب ہو جاؤ۔ اور طلب کو ترک کر کے حال کے علم کو کافی سمجھو۔ پس اس کی حالت ذلت اور عاجزی اور فاقہ اور محتاجی کا دیکھنے والا ہی اس کی طلب ہو جائے ۔ تو اس وقت اس کے اوپر عطا میں نازل ہوں گی پھر ان کے ذریعہ اپنی مقصود کے انتہا کو حاصل کر لے گا ۔ یعنی بارگاہ قدس اور مقام محبت میں تدبیر اور کسب کے بغیر پہنچ جائے گا اور یہ صرف اللہ تعالی و وہاب کا احسان ہے جس نے اس کو اپنے تک پہنچا کر اس پر احسان کیا ۔ اور اس کو قبول کر کے اس پر فضل کیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں