اللہ تعالی کے حلم کی محتاجی (چودھواں باب)

اللہ تعالی کے حلم کی محتاجی کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 132 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
لہذا جب یہ ثابت ہو گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی متوقع بہترین پردہ پوشی شامل نہ ہو ۔ تو ہمارا عمل مدخول ہے (یعنی اُس میں نقائص داخل ہیں۔ اور قبول ہونے کے لائق نہیں ہے ) تو تم نے یہ معلوم کر لیا۔ کہ جتنا ہم نافرمانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حلم وعفو ( برداشت اور معافی) کے محتاج ہیں۔ اس سے زیادہ ہم طاعت کی حالت میں اُس کےحلم وعفو کے محتاج ہیں ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے۔
132) أنْتَ إلى حِلْمِهِ إذا أَطَعْتَهُ أَحْوَجُ مِنْكَ إلى حِلْمِهِ إذا عَصَيْتَهُ.
جتنا تم اُس کی نافرمانی کی حالت میں اُس کے حلم کے محتاج ہو ۔ اُس سے زیادہ تم اُس کے محتاج،اُس کی طاعت کی حالت میں ہو ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : یہ اس لئے ہے کہ طاعت :- عزت اوربلندی کا ذریعہ ہے اور اس میں نفس کے لئے فائدہ اور اُس کی خواہش ہے اور اس وجہ سے ہے کہ لوگ ظاہری طاعت کرنے والے کا لحاظ کرتے ہیں اور اُس کو عزت اور تعظیم کی نظیر سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کی خدمت اور تکریم کے لئے ایک دوسرے سے پیش قدمی کرتے ہیں اور ہر وہ چیز جو حقوق کی نظر میں بڑی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے گر جاتی ہے۔ اگر طاعت کرنے والا ، اس سے خوش ہو اور بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس پر قناعت کر لے۔ بخلاف نافرمانی کے کیونکہ وہ ذلت اور عاجزی کا سبب ہے اور پستی اور حقارت کا مقام ہے اور جو چیز مخلوق کی نظر سے گر جاتی ہے۔ اُس کی عزت اللہ تعالیٰ کی نظر میں بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے بندہ اللہ تعالیٰ کی طاعت کی حالت میں نافرمانی کی حالت سے زیادہ اسکی معافی اور برداشت کا محتاج ہے۔ کیونکہ جس طاعت سے عزت اور بڑائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اُس نا فرمانی سے بہت بری ہے۔ جو ذلت اور محتاجی کا سبب ہوتی ہے۔ بلکہ در حقیقت ایسی طاعت ، طاعت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ جو طاعت اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کا سبب ہو ، وہ طاعت نہیں ہے اور جو معصیت اللہ تعالیٰ سے قریب کر دے ، وہ معصیت نہیں ہے۔ اور حدیث شریف میں يَقُولُ الله تعالى :-
آنا عِنْدَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ أَجْلِي اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- میں اُن کے قریب ہوں ۔ جن کے قلوب میری وجہ سے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اور جس شخص کے قریب اللہ تعالیٰ ہو۔ وہ ایسے ہزار طاعت کرنے والے سے بڑھ کر ہے۔ جن کے لئے اُن کی طاعت ، اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کا سبب بنتی ہو ۔ بعض انبیاء علیهم السلام کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی:۔ میرے سچے بندوں سے کہدیجئے : وہ دھوکا نہ کھائیں۔ کیونکہ اگر میں اُن پر اپنا عدل اور انصاف قائم کروں گا۔ تو میں اُن کو ان کے اوپر ظلم کئے بغیر عذاب میں مبتلا کروں گا۔ اور میرے خطاوار بندوں سے فرمادیجئے :۔ وہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں۔
کیونکہ میرے لئے کوئی گناہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ (کہ میں اُس کو معاف نہ کر سکوں ) میں اُن کو بخش دوں گا ۔
حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :- گناہ کے لئے ایک مرتبہ تو بہ کافی ہے لیکن طاعت کے لئے ہزار مرتبہ تو بہ کی ضرورت ہے۔
اور حضرت نبی کریم ﷺ جب نماز پڑھتے تھے تو تین مرتبہ استغفار فرماتے تھے اور ایسا صرف گناہ کی حالت میں امت کو تعلیم دینے کے لئے کرتے تھے ۔ ور نہ حضرت نبی مختار ﷺ کے لئے اطاعت اور گناہ سے استغفار کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اور چونکہ نافرمانی ، ذلت اور محتاجی کا سبب ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ لہذا بندگی کے مقام سے زیادہ قریب ہے اور طاعت ، عزت اور بلندی کا سبب ہے ۔ اس لئے تم اللہ تعالیٰ کی معافی اور برداشت کے زیادہ محتاج ہو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں