اللہ تعالی کے غلبے کی دلیل (باب اول)

اللہ تعالی کے غلبے کی دلیل حکمت نمبر15

اللہ تعالی کے غلبے کی دلیل کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر15 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ظاہر ہونے کے حال میں پوشیدہ ہونا، یہ ان اشیاء میں سے ہے جو اس کے غلبے کی دلیل ہیں۔جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
15) مِمَّا يَدُلُّكَ عَلَى وُجُودِ قَهْرِهِ سُبْحَانَهُ أَنْ حَجَبَكَ عَنْهُ بِمَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ مَعَهُ.
ان اشیاء میں سے جو اللہ تعالیٰ کے غلبے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں، ایک شے یہ ہے کہ اس نے تم کو اپنی ذات سے ایسی اشیاء کے ذریعے محجوب کیا ہے، جو اس کے ساتھ موجود نہیں ہیں۔

غالب ہونے کی دلائل

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں ایک اسم پاک قہار ہے یعنی ہرشے پر غالب ۔ اور اس کے غلبے کے مظہروں میں سے اس کا ظاہر ہونے کے باوجود پوشیدہ ہونا ، اور اس کا پوشیدہ ہونے کے باوجود ظاہر ہونا ہے۔ اور اس کے غالب ہونے کی دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ بغیر کسی حجاب کے پوشیدہ ہے۔ اور بغیر قریب آئے ہوئے قریب ہے۔ وہ اپنی قربت میں دور ہے اور اپنی دوری میں قریب ہے۔ وہ مخلوق سے ان کے سامنے ظاہر ہوتے ہوئے بھی پوشیدہ ہے۔ اور ان سے پوشیدہ رہتے ہوئے بھی ان کے سامنے ظاہر وعیاں ہے۔ لہذا وہ ان سے ایسی شے کے ذریعے پوشیدہ ہے جو موجود نہیں ہے۔ اور وہ وہم ہے اور وہم ایسی شے ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لہذا اس کے شدت سے ظاہر ہونے ہی نے اس کو پوشیدہ کر دیا ہے۔ اور اس کے نور کے غلبے ہی نے آنکھوں کو اس کے دیکھنے سے روک دیا ہے۔ پس حاصل یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وجود میں منفرد ( تنہا) ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شے موجود نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ اللَّہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہرشے ہلاک ہونے والی ہے۔
اور دوسری جگہ فرمایا :- هوا الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ) وہی اول اور آخر اور ظاہر اور باطن ہے ۔
اور تیسری جگہ فرمایا:۔ (فَأَيْنَمَا تُوَلُوا فَثَمَّ وَجُهُ اللَّهِ تم لوگ جس طرف منہ کرو اس طرف اللہ تعالیٰ ہے
اور چوتھی جگہ فرمایا:وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُمْ اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے
اور پانچویں جگہ فرمایا۔ (وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ) اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ آپ کا رب انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔
اور چھٹی جگہ فرمایا۔(وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى) اور جب آپ نے مٹی پھینکی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ۔
او رساتویں جگہ فرمایا:(إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں
اور حضرت نبی کریم کی للہ ﷺ نے فرمایا ہے:۔
افْضَلُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ قَولُ لَبِيدٍ
اَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهُ بَاطِلٌ وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلُ
شاعروں کے کلام میں لبید شاعر کا یہ کلام سب سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سواہر شے باطل ہے اور ہر نعمت ضرور مٹ جانے والی ہے اور حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عز وجل يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ ‌مَرِضْتُ ‌فَلَمْ ‌تَعُدْنِي قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي قَالَ: يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ ‌فَلَمْ ‌تَسْقِنِي قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَالَ: اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي
قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا: آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا: میرے رب! میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا: تو نے اسے کھانا نہ کھلایا اگر تو اس کو کھلا دیتا تو تمہیں وہ (کھانا) میرے پاس مل جاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جبکہ تو خود ہی سارے جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا، اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو (آج) اس کو میرے پاس پا لیتا۔
یہ حدیث شریف اس حقیقت کی دلیل ہے کہ یہ شکلیں اور شخصیتیں صرف خیال ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لہذا یہ صرف سایہ کے مشابہ ہیں ۔ حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
الْخَلْقُ خَلَقَكُمْ وَالأمْرُ امْرُكُمْ فَأَيُّ شَيءٍ أَنا لَكُنتُ مِنْ ظُلل
مخلوق تمہاری مخلوق ہے۔ اور امر ( روح ) تمہارا امر ہے ۔ پھر میں کیاشے ہوں۔ صرف سایہ ہوں ۔
مَا لِلْحِجَابِ مَكَانَ فِي وُجُودِكُمْ إِلَّا بِسِر حُرُوفِ اُنْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ
تمہارے وجود میں حجاب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے مگر قول پہاڑ کی طرف دیکھ کے راز کے لئے۔
اَنْتُم ْدَلَلْتُمْ عَلَیْکُمْ مِّنكُمْ وَلَكُمْ دَيْمُوْمَةٌ عَبَرَتْ عَنْ غَامِضِ الْأَزْلِ
تم اپنی طرف سے اور اپنے لئے راہنمائی کی۔ تمہارا دائمی قدیم ذات نے ازل کا راز سمجھایا۔
وَ قَدْ عَرَفْتُ بِكُمْ هَذَا الْخَبيْرَ بِكُمُ أَنتُمْ هُمْ يَا حَيَاةَ الْقَلْبِ يَا أَمَلِي
میں نے تمہارے ذریعے اس تمہارے خبر رکھنے والے کو پہچانا ۔ اے قلب کی زندگی اور اے میری تمنا! وہ تمہیں ہو

خلق سے مراد

شرح حضرت ششتری کا قول خلق تمہاری خلق ہے خلق سے مراد صورتیں ہیں۔ اور امر سے مراد، روحوں کا راز ہے۔ یعنی مخلوق تمہاری حکمت ہے۔ اور روحیں تمہارے اسرار میں سے ایک سر ہیں ۔ پس میرا وجود بالکل نہیں ہے۔ لہذا میں نے اپنی ذات پر جتنی قدرت پائی وہ تمہارے لئے پائی۔ اور اپنی ذات کو تمہارے مظاہر میں سے ایک مظہر پایا۔ اور میں تمہارے وجود کے سایوں میں سے ایک سایہ ہوں۔
پھر فرمایا: تمہارے وجود میں حجاب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یعنی محسوس حجاب کے لئے تمہارے وجود میں جگہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر تمہارے وجود میں حجاب کے لئے جگہ ہوتی تو وہ حجاب تم سے زیادہ ہمارے قریب ہوتا۔ اور یہ حال ہے اس لئے کہ تو نے فرمایا ہے:۔
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الْإِنْسَانَ وَنَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِهِۦ نَفۡسُهُۥۖ وَنَحۡنُ أَقۡرَبُ إِلَيۡهِ مِنۡ ‌حَبۡلِ ٱلۡوَرِيدِ
اور البتہ ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اس کانفس اس کے اندر جو وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ ہم اس کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی گردن کی رگ (شہ رگ) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
اور حضرت ششتری کا قول پہاڑ کی طرف دیکھ کے قول کا راز رازوں میں سے ایک راز ہے۔ ابھی محسوس حجاب کے لئے ہمارے تمہارے درمیان جگہ نہیں ہے۔ مگر تمہارے غلبے کے حجاب اور تمہاری عزت و کبر یائی کی چادر کے لئے جگہ ہے۔ اور اس نے تمہارے اصلی جبروتی نور کے دیکھنے سے آنکھوں کو روک دیا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ نور ظاہر ہو جائے تو جلال کے نور سے مخلوقات مٹ جائیں گی اور جل جائیں گی۔ اور اسی راز کی بناء پر جب حضرت موسی علیہ السلام نے دیدار الہٰی طلب کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ اس نور کی تھوڑی سی تجلی ان کے اوپر ظا ہر کرے۔ تو ان کو پہاڑ کی طرف دیکھنے کا حکم دیا۔ لیکن اس نور کی تھوڑی سی تجلی کو پہاڑ برداشت نہ کر سکا۔ اور اپنی جگہ پر قائم نہ رہا۔ تو ہم کو یہ معلوم ہو گیا، کہ اس دنیا میں کمزور بندے کو اللہ واحد قہار کے دیکھنے کی طاقت نہیں ہے مگر اس طریقے پر کہ وہ کثیف مخلوقات پر حقیقت کی چادریں پھیلا دے۔ پھر ان مخلوقات کے واسطے سے بندہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرے۔ اور ان کے قول پہاڑ کی طرف دیکھ کے قول کے رانہ کے لئے کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی صرف غلبے کے حجاب کے لئے تمہارے وجود میں جگہ ہے۔ یہی مفہوم اللہ تعالیٰ کے قول پہاڑ کی طرف دیکھ سے واضح ہوتا ہے۔
یا یہ معنی ہے۔ تمہارے وجود میں محسوس حجاب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مگر وہ حجاب جو اس حکمت کے راز کے لباس میں ہو۔ جس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے قول پہاڑ کی طرف دیکھ سے واضح ہوتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے۔ اے موسی تم حکمت کے حجاب کے بغیر مجھے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن تم پہاڑ کی طرف دیکھو۔ پس اگر پہاڑ نے میرے نور کی تجلی برداشت کرلی اپنی جگہ پر قائم ہو گیا تو تم بھی مجھے دیکھوگے لیکن جب بغیر محسوس واسطے کے اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی کی تو پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور اس حقیقت کے بارے میں حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔
أَنَا شَيءٌ عَجِيْبُ لِمَنْ رَانِي وَأَنَا الْمُحِبُّ وَالْحَبيْبُ لَيْسَ ثَمَّ ثَانِي
جس شخص نے مجھے دیکھا ہے میں اس کے لئے ایک عجیب شی ہوں۔ میں ہی محبت کرنے والا اورمیں ہی محبوب ہوں یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے۔
يَا قَاصِدا عَيْنَ الْخَبْرِ عَطَاةَ عَيْنُكَ الْخَمْرُ مِنكَ وَالْخَيْرُ وَالسِّرُّ عِنْدَكَ
اے حقیقت کی عین خبر کا ارادہ کر نیوالے ! اس کو تیرے وجود نے پوشیدہ کیا ہے۔ محبت کی شراب اور حقیقت کی خبر تیری طرف سے ہے اور راز تیرے پاس ہے ۔
ارْجِعُ لِذَاتِكَ وَاعْتَبِرْ مَا ثُمَّ غَيْرُكَ
اپنی ذات کی طرف لوٹ ۔ اور عبرت حاصل کر۔ وہاں تیرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے
یعنی اے حقیقت کی خبر کا ارادہ کرنے والے! اس کو تیرے ہی وجود نے پوشیدہ کیا ہے۔ لہذا اگر تیرا وجود غائب ہو جائے تو عین حقیقت میں پہنچ جائے گا۔ محبت کی شراب کا پینا ، اور حقیقت کی خبر تیری طرف سے ہے اور ربوبیت کا راز تیرے ہی پاس ہے۔ کیونکہ تو ایک طلسمی خزانہ ہے۔ لہذا اگر تو پہچاننے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو اپنی ذات کی طرف رجوع کر۔
اور تو غور کر تو کل وجود کو ایک پائے گا۔ اور وہ ایک تو ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا: منی علی دارت کوسی میری شراب محبت کا پیالہ میری طرف سے میرے اوپر گردش کرتا ہے
ایک عارف کا شعر ہے۔
هذَا الْوُجُودُ وَإِن تَعَدَّدْ ظَاهِرًا وَحَيَاتِكُمْ مَا فِيهِ إِلَّا أَنتُمْ
یہ و جو داگر چہ ظاہر میں بہت ہیں۔ لیکن تمہاری زندگی کی قسم، اس میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے
نیز حضرت ششتری نے فرمایا ہے:۔
لقَدْ فَشَى سِرَى بِلَا مَقَالِ ، وَقَدْ ظَهَرَ عَنَى فِي ذَالْمِثَالِ، تَرَى وُجُودَ غَيْرِى مِنَ المَحَالِ، وَكُلُّ مَا دُونِي خَیَالَ فِي مُتَّحِدُ فِي كُلُّ شَيْ، أَنَا هُوَ الْمَحْبُوبُ وَآنَا الحبيب، وَالْحَبُّ لِي مِني شَيءٌ عَجِيْبٌ، وَحدَى أَنَا فَافَهُمْ سِرَى غَرِيبٌ، فَمَنْ نَظَرَ ذاتِي رَانِي شَيْ، وَفِي حَلَا ذَاتی طُوَانِي طَيْ، صِفَاتِي لَا تَخْفَى لِمَنْ نَّظَر، وَذَاتِي مَعْلُومَةٌ تِلْكَ الصُّوَرُ، إِفْنِ عَنِ الْإِحْسَاسِ تَرَى عَبْرَ فِي السِّرِّ وَالْمَعْنَى خَفِيَتْ كَيْ اظھر لانه مِنْ سِتْرٍ عَلَى، وَقَدْ اتْفَقَتْ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى وَهُوَ سِر –
البتہ بغیر کہے ہوئے میرا ر از ظاہر ہوا۔ اور مجھ سے مجھ میں صاحب مثال ظاہر ہوا۔ میرےسوا کوئی وجود محال ہے اور میرے سوا جو کچھ ہے، خیالی سایہ ہے۔ میرے اندر کل اشیاء ومتحد ہیں۔ میں ہی محبوب اور میں ہی حبیب ہوں۔ اور میرے لئے مجھ سے محبت عجیب شے ہے۔ میں دیکھتا ہوں۔ پس تو یہ سمجھ لے کہ میرا راز انوکھا ہے۔ پس جس شخص نے میری ذات کو دیکھا اس نے مجھے بھی سمجھا۔ حالانکہ میرے اندر ایک ذات جلوہ گر ہے۔ اور وہ مجھے بخوبی ڈھانپے ہوئے ہے۔ میری صفات دیکھنے والے کے لئے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اور میری ذات ان صورتوں کی معلوم کی ہوئی ہے تو احساس سے فنا ہو جا۔ تو تجھے یہ تعبیر نظر آئے گی۔ کہ سر اور حقیقت میں اصل (ذات) پوشیدہ ہے۔ کیونکہ وہ مجھ پر چھائی ہوئی ہے۔ اور سب اس پر متفق ہیں کہ وہ راز ہے ۔
وحدت:۔ عارفین کے مقالات (اقوال) اور محبت کرنے والوں کے وجدانی حالات ہیں۔ اور ان کے اشعار، ان کے ذوق اور شراب محبت پینے کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور یہ عبارتیں صرف ذوق واشارات والے ہی سمجھتے ہیں۔ لہذا جس شخص کی سمجھ ان کے مفہوم تک نہ پہنچے اور اس کا علم ان کا احاطہ نہ کر سکے۔ اس کے لئے یہ کافی ہے کہ ان حقائق کو تسلیم کرے۔ اور ان کا سمجھنا ان کے اہل حضرات کے سپرد کردے اور اللہ تعالیٰ کی کمال پاکیزگی، اور مشابہت کے باطل ہونے پر اعتقاد رکھے۔ اس لئے کہ یہ حقائق ذوقی ہیں۔ اور صرف اہل ذوق حضرات کی صحبت ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اللہ تعالیٰ کے لئے حجاب کے باطل ہونے پر ہر دلیل پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے دس دلیلیں قائم کی ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہ پوشیدہ ہونے کے ساتھ ظاہر ہے۔ عارفوں کے نزدیک مکمل طور پر ظاہر و عیاں ہے۔ اور جاہلوں کے نزدیک بالکل پوشیدہ ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں