انوار طریقت کی امداد (باب ششم)

انوار طریقت کی امداد کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر57 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
57) النُّورُ لَهُ الْكَشْفُ ، وَالْبَصِيرَةُ لَهَا الْحُكْمُ ، وَالْقَلْبُ لَهُ الإِقْبَالُ وَالإِدْبَارُ .
نور کا کام، کشف یعنی ظاہر کرنا ہے اور بصیرت کا کام سمجھ کر اور تمیز کر کے فیصلہ کرنا ہے۔ اورقلب کا کام ، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: نور کی شان یہ ہے کہ وہ امور کو ظاہر کرتا ہے اور ایسا واضح کرتا ہے کہ اس کی اچھائی اس کی برائی سے جدا ہو کر ظاہر ہو جاتی ہے اور کھلی ہوئی بصیرت کی شان یہ ہے کہ وہ اچھائی معلوم کر کے اچھا ہونے کا ، اور برائی معلوم کر کے برا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب اس چیز کی طرف بڑھتا ہے جس کی خوبی ثابت ہو جاتی ہے اور اس چیز سے پیچھے ہٹتا ہے جس کی برائی ثابت ہو جاتی ہے۔ یا اس طرح کہو:۔ اس کی طرف بڑھتا ہے جس میں اس کا فائدہ ہے۔ اور اس سے منہ پھیرتا ہے جس میں اس کا نقصان ہے۔ اس کی مثال یہ ہے ۔ ایک شخص اندھیرے گھر میں داخل ہوا۔ اس میں بچھو اور سانپ ہیں۔ اور سونا ، اور چاندی کے سکے ہیں۔ تو وہ اندھیرے کی وجہ سے نہیں جانتا ہے۔ کس کو لے ۔ اور کس کو چھوڑے۔ اور نہ یہ جانتا ہے کہ کس میں فائدہ ہے اور کس میں نقصان ہے۔ تو جب اس میں چراغ لے جاتا ہے۔ جب وہ فائدہ مند اور نقصان دہ کو دیکھتا ہے اور یہ تمیز کرتا ہے کہ کس سے پر ہیز کرنا ہے اور کیا لینا ہے۔ اسی طرح گناہگار مومن کا قلب ہے وہ معصیت کی تلخی اور طاعت کی شیرینی میں تمیز نہیں کرتا ہے۔ پھر جب تقوی کی روشنی حاصل کر لیتا ہے تو اپنے لئے فائدہ مند اور نقصان دہ چیزوں کو پہچان لیتا ہے ۔ اور حق و باطل کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے ( تقوی اختیار کرو گے ) تو وہ تم کو ایک فرقان عطا کرے گا ۔
اور دوسری جگہ فرمایا: – أَوَمَنْ كَانَ مَيْتا(حق و باطل میں تمیز کرنے والا نور ) فَأَحْيَيْنَا هَا وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًایَمْشِي بِهِ النَّاسَ کیا وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ساتھ وہ آدمیوں میں چلتا ہے اور تیسری جگہ فرمایا:۔
فَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلإسْلامِ فَهُوَ عَلى نُورٍ من ربه جس شخص کے سینہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سےپائے ہوئے نور پر قائم ہے۔ اور یہ نور جو امور کی حقیقت کو کھولتا ہے ۔ وہی واردات کا نور ہے ۔ جو بیان کیا گیا ۔ اور یہی نور علام الغیوب کی طرف لے جانے والی قلوب کی سواریاں ہیں ۔
اول وارد الانتباہ کا نور : اس کی شان یہ ہے کہ یہ غفلت کی ظلمت کو دور کرتا ہے ۔ اور ہوشیاری کے نور کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت : غفلت کے برابر ہونے اور ہوشیاری کے اچھا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس وقت قلب : ۔ اپنے رب کے ذکر کی طرف بڑھتا ہے۔ اور ان چیزوں سے جواس کے رب سے غافل کرتی ہیں۔ پیچھےہٹتا ہے۔ اور یہ طالبین کا نور ہے۔
دوم: وارد الاقبال کا نور ۔ اس کی شان یہ ہے کہ یہ اغیار کی ظلمت کو دور کرتا ہے اور معارف و اسرار کی خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت :۔ اغیار کے نقصان کا ، اور اسرار کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب:۔ اسرار کی خوبی کی طرف بڑھتا ہے۔ اور اغیار کی ظلمت سے پیچھے ہوتا ہے اور یہ سائرین کا نور ہے۔
سوم : واردالوصال کا نور :۔ اس کی شان یہ ہے کہ مخلوق کی ظلمت اور حفاظت کی چادر کو دور کرتا ہے اور خالق کے تجلیات کے نور کو ظاہر کرتا ہے تو قلب اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ میں آگے بڑھتا ہے اور اس کے ماسوا کی طرف توجہ کرنے سے روگردانی کرتا ہے اور یہ واصلین کا نور ہے اور یہی مواجہت کا نور ہے۔ اور اس کے پہلے کا نور، توجہ کا نور ہے۔ اگر تم چا ہو تو اس طرح کہو ۔ اسلام کا نور ۔ ایمان کانور۔ احسان کانور۔
اسلام کا نور: کفر و نافرمانی کی ظلمت کو دور کرتا ہے۔ اور فرماں برداری اور یقین کے نور کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت: کفر و نافرمانی کی برائی اور یقین و فرمان برداری کے نور کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب:۔ اپنے رب کی طاعت کی طرف بڑھتا ہے۔ اور ان چیزوں سے جو اسکے رب سے دور کرتی ہیں منہ پھیر تا ہے۔ اور ایمان کا نور شرک خفی کی ظلمتوں کو دور کرتا ہے۔ اور اخلاص اور کامل صدق کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت : شرک اور اس کے نقصان کی برائی ، اور اخلاص اور اس کے فائدے کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب:۔ اپنے رب کی توحید کی طرف بڑھتا ہے اور شرک اور اس کی برائی سے منہ پھیرتا ہے۔ اور احسان کا نور ماسوا کی ظلمت کو دور کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے نور کو ظاہر کرتاہے۔ پھر بصیرت: حقوق کی ظلمت کی برائی ، اور خالق کے نور کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب ۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے ماسوا سے بالکل غائب ہو جاتا ہے۔ یا تم اس طرح کہو۔ شریعت کا نور طریقت کا نور۔ حقیقت کا نور پس شریعت کا نور۔
بیکاری اور کو تاہی کی ظلمت کو دور کرتا ہے۔ اور مجاہدہ اور آمادگی کے نور کو ظا ہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت بیکاری کی برائی اور مجاہدہ کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ پھر قلب:۔ اللہ تعالیٰ کی طاعت میں جسمانی اعضاء کے مجاہدہ کی طرف بڑھتا ہے۔ اور اپنےحظوظ اور خواہشات کی پیروی سے روگردانی کرتا ہے اور طریقت کا نور: گنا ہوں اور عیوب کی ظلمت کو دور کرتا ہے۔ اور پاکیزگی اور اس کے نتیجہ علم غیب کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر بصیرت :۔ عیوب کی برائی، اور پاکیزگی وعلم غیب کی خوبی کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان چیزوں کی طرف بڑھتا ہے جو تصفیہ کا سبب ہوتی ہیں اور تخلیہ اور تحلیہ سے روکنے والی چیزوں سے پیچھے آتا ہے۔ اور حقیقت کا نور حجاب کی ظلمت کو دور کرتا ہے اور احباب کی خوبیوں کو ظا ہر کرتا ہے۔ یا اس طرح کہو۔ مخلوقات کی ظلمت کو دور کرتا ہے۔ اورشہودو عیاں کے نور کو ظا ہر کرتا ہے۔ پھر قلب حجاب میں داخل ہو کر احباب کے مشاہدے کی طرف ہوتا ہے۔ اور ان چیزوں سے جو احباب کے ساتھ ادب کی رعایت کو ختم کرتی ہیں ۔ روگردانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ رکھے ۔ اس دنیا میں بھی اور دار السلام میں بھی ۔آمین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں