انوار واسرار کی سواریاں (باب ششم)

انوار واسرار کی سواریاں کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر55 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان واردات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
55) الأنْوارُ مَطايا القُلوبِ وَالأَسْرارِ.
انوارقلوب و اسرار کی سواریاں ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: نور : ایک نکتہ ہے جو بندے کے قلب میں اسم یا صفت کی حقیقت سے واقع ہوتا ہے۔ پھر اس کی حقیقت پورے قلب میں سرایت کر جاتی ہے یہاں تک کہ وہ حق اور باطل کو واضح طور پر دکھاتی ہے۔ کہ اس کے ساتھ اس کے سبب سے پیچھے رہنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے۔ اور سر : قلب سے زیادہ باریک اور صاف ہے۔ اور سب روح کا نام ہے۔ روح جب تک نافرمانیوں ، گنا ہوں ، خواہشات اور عیوب سے تا ریک رہتی ہے۔ اس کا نام نفس رکھا جاتا ہے اور جب وہ ان مکروہات سے رک جاتی ، اور اونٹ کے بندھنے کی طرح بندھ جاتی ہے تو اس کو عقل کہتے ہیں۔ پھر جب تک وہ غفلت اور حضور میں بدلتی رہتی ہے تو اس کو قلب کہا جاتا ہے۔ پھر جب وہ مطمئن اور ساکن ہو جاتی ہے اور بشریت کی مشقت سے آرام پا جاتی ہے۔ تو اس کو روح کہتے ہیں ۔ پھر جب وہ ظاہر کی تاریکی سے صاف ومصفی ہو جاتی ہے۔ تو اس کو سر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سر ہو جاتی ہے۔ جس وقت وہ اپنی اصل کی طرف لوتی ہے۔ اور وہ جبروت کا سر ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے قدس کے حضور میں پہنچانا چاہتا ہے اور اپنی محبت کے محل کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو انوار کے واردات سے سواریوں کی طرح اس کی مدد کرتا ہے۔ پھر وہ اس کو عنایت کی پالکی میں بٹھا کر ، ہدایت کی ہلکی ہلکی ہوا اس پر چلاتے ہوئے ، رعایت کی مدد سے گھیرے ہوئے ، ان پر سوار کر کے لے جاتا ہے۔ پس روح عالم بشریت سے عالم روحانیت کی طرف کوچ کر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سر ہو جاتی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ (قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي آپ فرمادیجئے ! روح، میرے رب کے حکم میں سے ہے ۔
پس انوار، جو واردات ہیں:۔ قلوب کی سواریاں ہیں۔ ان کو علام الغیوب کے حضور تک لے جاتے ہیں۔ اور وہی اسرار کی بھی سواریاں ہیں۔ ان کو عزیز و جبار کے جبروت تک لے جاتے ہیں ۔ پس سلوک ہدایت ہے اور جذب عنایت۔ پس واردات انتباہ و اقبال : ۔ سلوک کی سواری ہے۔ اور وارد وصال: جذب کی سواری ہے۔ تو وہ انوار، جو قلوب کی سواریاں ہیں، اور ان کو سلوک کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو وہ اس میں انتباہ و اقبال کے نور کی لذت کے ساتھ لے جائے جاتے . ہیں۔ تو ان کا سلوک گو یا جذب ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ انوار جوان کو اسرار کی سواریوں پر لے جاتے ہیں۔ تو وہ ان کو سلوک سے ملے ہوئے جذب کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو وہ سلوک اور جذب کے درمیان ہوتے ہیں ۔ اور یہ لے جانا بہت عظیم الشان ہے ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں