اوراد و وظائف سے جہالت (بارھواں باب)

اوراد و وظائف سے جہالت کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 112 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

بارھواں باب

اور اد کی تعظیم ، اور امداد کے وارد ہونے کیلئے آمادگی اور کدورتوں سے باطنوں کی صفائی کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-

112) لا يَسْتَحْقِرُ الوِرْدَ إلا جَهولٌ. الوارِدُ يُوْجَدُ في الدّارِ الآخِرَةِ، وَالوِرْدُ يَنطَوي بانْطِواءِ هذِهِ الدّارِ. وأَوْلى ما يُعْتَنى بِهِ: ما لا يُخْلَفُ وُجودُه. الوِرْدُ هُوَ طالِبُهُ مِنْكَ، وَالوارِدُ أنْتَ تَطْلُبُهُ مِنْهُ. وَأيْنَ ما هُوَ طالِبُهُ مِنْكَ مِمّا هُوَ مَطْلَبُكَ مِنْهُ!.
ورد، وظیفہ کو جاہل ہی حقیر سمجھتا ہے ورد (وظیفہ کو حقیر نہیں سمجھتا ہے مگر جاہل۔ وارد (ورد کا نتیجہ )آخرت میں ملے گا اور در داس دنیا کی زندگی ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس کیلئے کوشش کرے، اور اس میں مشغول رہے جو اس کے بعد باقی نہ رہے گا۔ ورد کا طالب تم سے اللہ تعالی ہے اور وارد کا طالب اللہ تعالی سے تم ہو، اور جس چیز کا طالب تم سے اللہ تعالی ہے وہ اس کے برابر کیسے ہو سکتا ہے جس کے طالب اللہ تعالی سے تم ہو ؟
ورد کی تعریف میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ ورد :- وہ اذ کارو عبادات ہیں جن کو بندہ اپنے اوپر یا شیخ اپنے مرید پر لازم کرتاہے۔ وارد: وہ الہی خوشبوئیں ہیں، جو اللہ تعالٰی اپنے اولیائے عظام کے قلوب کو تحفہ عطا کرتا ہے۔ پھر یہ واردان کے اندر قوت محرکہ بن جاتا ہے ( حرکت دینے والی قوت ) اور اکثر اوقات وہ انہیں مدہوش کر دیتا ہے اور ان کو ان کے ظاہر سے غائب کر دیتا ہے اور یہ اچانک آتا ہے اور ہمیشہ نہیں رہتاہے۔
اور اورا د کی تین قسمیں ہیں:۔
پہلی قسم : مجتہدین عابدوں اور زاہدوں کا ورد ہے۔
دوسری قسم : سائرین اہل سلوک کا ورد ہے۔
تیسری قسم :-عارفین اہل وصول کا ورد ہے۔
پہلی قسم : مجتہدین عابدین و زاہدین کا ورد: قسم قسم کی عبادتوں میں وقتوں کا مستغرق ہونا ہے
اور ان کی عبادت : ذکر اور دعا، اور نماز ، اور روزہ کے درمیان ہے اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب الا حیا والقوة میں دن اور رات کے اوارد و وظائف کو بیان فرمایا ہے، اور ہر وقت کیلئے ایک خاص ور د مقرر کیا ہے۔
دوسری قسم :- – سائرین اہل سلوک کا ورد :- شواغل (اپنے میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی چیزوں ) اور شواغب ( شور و ہنگاموں) سے دور رہنا ، اور دنیاوی تعلقات ، اور اللہ تعالیٰ سے روکنے والی چیزوں کو ترک کرنا ، اور قلب کو بری صفتوں سے خالی کر کے بہترین اوصاف سے آراستہ کرتا ہے۔ اور ان کی عبادت: اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔ جمعیت قلب کے ساتھ ، اور اللہ تعالی کے حضور کے ساتھ جو اس کیلئے اس کا شیخ مقرر کرتا ہے۔ اور وہ اپنی طرف سے اس پر کچھ اضافہ نہیں کرنا ہے۔
تیسری قسم : عارفین واصلین کا ورد :- خواہشات کا ترک کرنا ، اور مولائے حقیقی کی محبت ہے اور ان کی عبادت : اللہ تعالی کے حضور میں قائم ہونے کےساتھ غور و فکر کرنا ہے، جس شخص کو اللہ تعالی کسی ورد میں قائم کر دے تو اس کو چاہیئے کہ اس پر مضبوطی قائم ر ہے۔ اور اس سے آگے نہ بڑھے اور نہ اس کے سوا دوسرے ورد کو حقیر سمجھے۔ اس لیے کہ عارف کسی شے کو حقیر نہیں سمجھتا ہے۔ بلکہ
وہ ہر ایک کے ساتھ اس کے مقام میں رہتا ہے اور ہرشے کو اس کے مقام میں قائم رکھتا ہے ۔ کیونکہ وردکو حقیر نہیں سمجھتا ہے اور وارد کو طلب نہیں کرتا ہے۔ مگر جاہل ، یا حق کا مخالف اور کس طرح وہ ورد کو حقیر سمجھ سکتا ہے جبکہ اس کے ذریعہ بادشاہ معبود اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کو داخل ہونا ہے؟ ورد کا صلہ اور اس کا پھل آخرت میں ملے گا اور وارد جس کو تو طلب کرتا ہے اس دنیاوی زندگی
کے ختم ہو جانے کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي اورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ یہ وہ جنت ہے، جس کے تم ان اعمال کے بدلے میں وارث بنائے گئے ہو جو تم دنیا میں کرتے تھے اور حدیث شریف میں آیا ہے:-
إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي وَتَقَاسَمُوھا بِأَعْمَالِكُمْ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :- تم لوگ جنت میں میری رحمت سے داخل ہو جاؤ اور اس کو اپنے اعمال کے مطابق تقسیم کر لو
نیز واردات سے مراد: ورد کا پھل اور اس کے نتیجے ہیں اور وہ یقین و اطمینان ، اور تسلیم و رضا ، اور ان کے علاوہ ، وہ تمام بہترین اوصاف ہیں جوورد کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں تو جب تم کو اس کے نتائج مل جائیں اور اس کے ثمرات حاصل ہو جائیں تو تمہارے لیے لازم ہے کہ ان سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ میں مشغول ہو جاؤ۔ پس ورد کو صرف وہی شخص حقیر سمجھتا ہے اور وارد کے حاصل ہونے کا مشتاق رہتا ہے جو وارد کا بندہ ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالی کا بندہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ماسوی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ربوبیت کی عظمت کے حق کے ساتھ قائم رہنے کیلئے عبودیت کے وظائف سے جن اور اد کا وہ مکلف ہے ان کو اپنے اوپر لازم کرتا ہے یعنی مضبوطی سے اختیار کیے رہتا ہے کیونکہ یہ ہمیشہ رہتے ہیں اور انہیں کے ذریعے حی و قیوم اللہ تعالی کی رضا مندی تک پہنچتا ہے تو جن چیزوں کیلئے انسان کوشش کرتا ہے ان میں سے زیادہ بہتر وہ چیز ہے جس کا وجود اس کی موت کے بعد ختم ہو جائے گا اور وہ ور د ہے۔ تو انسان کو چاہیئے کہ جب تک اس دنیائے فانی میں ہے ورد کو غنیمت سمجھے۔ اس لیے کہ آخرت میں عمل نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آخرت بدلہ ملنے اورا مید کے حاصل ہونے کا گھر ہے۔ پس دنیا :۔ عمل کی جگہ، یہاں بدلہ نہیں ہے اور آخرت میں بدلہ ملنے کی جگہ ہے، وہاں عمل نہیں ہے۔ تو انسان کو چاہیئے کہ وہ موت سے پہلے اپنی زندگی کو غنیمت سمجھے کیونکہ جو وقت ورد سے خالی گزرتا ہے وہ اس سے فوت یعنی ضائع ہو جاتا ہے۔
حدیث شریف میں وارد ہے:۔
لَا تَأْتِي عَلَى الْعَبْدِ سَاعَةٌ لَّا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلَّا كَانَتْ عَلَيْهِ حَسُرَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بندے پر کوئی ایسا وقت جس میں وہ اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا ہے، مگر وہ قیامت کے روز اس کیلئے افسوس کا سبب ہوگا
یعنی بندے کا جو وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی گزرتا ہے وہ اس وقت کے ضائع ہونے پر قیامت کے روز افسوس کرے گا۔
ذکر کرنے والے کے حال کے موافق ذکر کی بہت قسمیں ہیں:۔
حضرت حسن نے فرمایا ہے:۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو پایا ۔ کہ جتنا تم لوگ اپنے دیناروں، اور درہموں ( روپیوں اور شرفیوں ) کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہو تم سے کہیں زیادہ وہ اپنے وقتوں کے ضائع ہونے سے ڈرتے تھے ۔
اس حقیقت کے بارے میں یہ شعر کہا گیا ہے۔
السباق السباق قولا وفعلًا حَذرِ النَّفْسَ حَسْرَةَ الْمَسْبُوقِ
قول اور فعل میں سبقت کر و سبقت کرو۔ اپنے کو گزرے ہوئے وقت کے افسوس سے بچاؤ
ان بعض احادیث میں حضرت محمد سے روایت ہے
من استواى يَوْمَاهُ فَهُوَ مَغْبُونٌ ، وَمَنْ كَانَ يَوْمُهُ شَرًّا مِنْ أَمْسِةَ فَهُوَ مَحْرُوم ، وَمَنْ لَّمْ يَكُنْ فِي الزِيَادَةِ فَهُوَ فِي النُّقْصَانِ ، وَمَنْ كَانَ فِي النُّقْصَانِ فَالْمَوْتُ خَيْرٌ لَهُ
جس شخص کے دو دن ( آج کا دن اور گزرا ہوا کل کا دن ) برابر ہوں تو وہ نقصان اور دھو کہ میں ہے اور جس شخص کا آج کا دن گزرے ہوئے کل کے دن سے برا ہو، وہ محروم (بدنصیب ) ہے، اور جو شخص زیادتی (یعنی بہتری ) میں نہ ہو ، وہ نقصان میں ہے۔ اور جو شخص نقصان میں ہے اس کیلئے موت بہتر ہے
اور جتنی چیزوں کیلئے بندہ کوشش کرتا ہے ان میں زیادہ بہتر ورد :۔ اس لیے بھی ہے کہ اس کو بندے سے اللہ تعالی طلب کرتا ہے، نہ کہ وارد:۔ جس کو اللہ تعالی سے بندہ طلب کرتا ہے۔ پس ورد :- عبودیت کے وظیفوں میں سے ہے اور یہی وہ شے ہے، جو اللہ تعالی ہم سے چاہتا ہے
اور جو چیز اللہ تعالی ہم سے چاہتا ہے وہ ان چیزوں کے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو ہم اللہ تعالی سے چاہتے ہیں؟ دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے:۔ دونوں کے مرتبے کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا فرق دونوں کے وصف میں ہے۔
قضَاءُ اللهِ اَحَقُّ ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوثق ، وَإِنَّمَا الْوَلَاء لِمَنْ اعْتَقَ
اللہ تعالی کا حکم، زیادہ مستحق ( تعمیل کے لائق ) ہے اور اللہ تعالی کی شرط ، زیادہ مضبوط ، اور قابل اعتماد ہے اور دوستی صرف اس کیلئے ہے جس کو اللہ تعالی نے اس کے نفس کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے
تو حاصل یہ ہوا کہ درد کیلئے کوشش کرنی ، اور اس کی طرف متوجہ ہونا، وارد کیلئے کوشش کرنے ، اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے افضل اور اکمل ہے۔ کیونکہ ورد:- عبودیت کے وظیفوں سے ہے اور وہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک بندہ اس دنیا میں رہے گا۔ اور جس طرح ربوبیت کے حقوق ختم نہیں ہوتے ہیں اسی طرح عبود بیت کے حقوق بھی ختم نہیں ہو تے ہیں
حضرت نقشبندی نے فرمایا ہے:۔ اس لیے اس مقام کے سردار حضرت محمد ﷺ نے عبادت کوترک نہیں فرمایا۔ یہاں تک کہ حضرت کے دونوں قدم مبارک میں ورم ہو جاتا تھا:
فَقِيلَ لَهُ كَيْفَ تَفْعَلُ هذا وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ فَقَالَ: – أَفَلَا اكُونُ عَبْدًا شَكُورًا
حضرت محمد ﷺ سے صحابہ کرام نے عرض کیا:- آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں؟حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:- کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں
حضرت محمد ﷺ نے اس طرح فرما کر یہ تعلیم دی ہے کہ نعمت کا شکر ادا کرنا مکمل خدمت ہے اور یہ نعمت کی زیادتی کا سبب ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:۔
لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَ نَّكُمُ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم کو اور زیادہ نعمت عطا کروں گا
اور یہ حضرت جنید کی جماعت کا راستہ ہے ۔ حضرت جنید نے اپنے اوراد و وظائف نزع کی حالت میں بھی نہیں چھوڑے، ان کے اصحاب نے اس کے بارے میں ان سے دریافت کیا :- تو انہوں نے فرمایا: اس کیلئے مجھ سے زیادہ کون مستحق ہے اس حال میں کہ میرا اعمال نامہ آج لپیٹ کربند کیا جارہا ہے۔ تو حضرت جنید نے نزع جیسی شدید تکلیف کی حالت میں بھی خدمت ترک نہیں کی تو دوسری
بہتر حالتوں میں ان کی خدمت (طاعت )کا کیا حال رہا ہوگا۔
لوگوں نے ان سے کہا:۔ کچھ ایسے لوگ ہیں ، جو یہ کہتے ہیں:۔ ہم ایسی حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے اوپر سے اور ادو عبادات کی تکلیف ساقط ہو چکی ہے تو حضرت جنید نے فرمایا ۔ ہاں ، وہ لوگ پہنچ گئے لیکن دوزخ میں ۔
نیز ایک دوسرے کلام میں حضرت جنید نے فرمایا : یہ باتیں ، ان لوگوں کی ہیں جو اپنی مقبولیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔اور ہمارے نزدیک چوری ، اور زنا ، ان لوگوں کی اس حالت سے زیادہ آسان اور ہلکا گناہ ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اوار دان سے ساقط ہو گئے ہیں۔
اور حضرت جنید نے اپنے اس قول میں سچ فرمایا ہے:۔ کیونکہ بیشک چور، اور زنا کار، اپنی چوری ، اور زنا کے سب گنہگار ہے۔ لیکن کفر کی حد تک نہیں پہنچتا ہے۔ لیکن فرائض کے ساقط ہونے کا قائل ، اور معتقد، دین سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح خمیر کیے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتاہے۔ پس اے میرے بھائی! اس اصول کو مضبوطی سے پکڑو ، اور ایسے لوگوں کی باتیں نہ سنو جو حقیقتوں کو کتابوں سے حاصل کرتے ہیں (یعنی کتاب پڑھ کر حقیقت کا صرف علم کرتے ہیں عمل اور ذوق سے محروم ہیں )، اور اپنی سمجھ ، اور نفسانی خواہش کے مطابق کفر، اور بے دینی اور اعمال کے ساقط ہونے کی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔
حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :- لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمُ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَابِعًا لِمَا جِئْتُ بِه تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی خواہش اس شریعت کا پابند نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يَحْببکمُ اللهُ آپ لوگوں سے فرمادیجئے : اگر تم لوگ اللہ تعالی سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو ۔ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا
پس تم اقوال ، اور افعال، اور احوال میں حضرت محمد ﷺ کی اور سلف صالحین کی پیروی کو اپنے او پر لازم کرو۔ ان کے مقام کی عزت کرو اور انہی کے ساتھ رہو۔ کیونکہ آدمی اس کے ساتھ رہے گا یعنی اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔ جس سے وہ محبت کرتا ہے حضرت نقشبندی کا کلام ختم ہوا۔
حضرت نقشبندی کا یہ کلام بہت خوب ہے :- اس لیے کہ جو شخص کتا میں پڑھ کر حقیقتوں کا علم حاصل کرتا ہے اس کے پاس ذوق نہیں ہوتا ہے وہ صرف کتابی علم سے حقیقتوں کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رخصت کی پیروی کرتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرتا ہے۔ لیکن جو شخص اہل ذوق میں سے ہے اس کا راز پوشیدہ ہے اور اس کا معاملہ با احتیاط اور دانشمندانہ ہے اس کی عبادت ادب اور شکر ہے ، اور وہ دوام شکر کا زیادہ مستحق ہے۔ اور واسطہ (وسیلہ ) کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اگر وسیلہ نہ ہوتا تو اصل مقصود ہی فوت ہو جاتا ۔
حضرت ابوالحسن دراج نے فرمایا ہے: اللہ تعالی کی طرف سے کرامات ، اور کمالات کا تحفہ پانے کے بعد ، عارفین باللہ کے اوارد و عبادات کی پابندی کرنے کے بارے میں حضرت جنید سے دریافت کیا گیا۔ تو حضرت جنید نے فرمایا:-
عارفین کی عبادت:۔ بادشاہوں کے سر کے تاجوں سے زیادہ بہتر ہے۔ حضرت جنید کو ایک شخص نے اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی ، تو اس شخص نے کہا ۔ آپ اتنی بزرگی اور تقدس کے باوجود ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں۔ حضرت جنید نے فرمایا جس کے قرب تک ہم پہنچے ہیں۔ یہ اس کے قرب تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ہم اس کوکبھی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ پس شریعت دروازہ ہے اور حقیقت بارگاہ الہی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :-
وَأۡتُواْ ‌ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٰبِهَااور تم لوگ گھروں کے اندراس کے دروازوں سے آؤ ۔
پھر حضرت جنید نے فرمایا:۔ حقیقت میں صرف شریعت کے دروازے سے داخل ہو نا ممکن ہے اور شریعت پر عمل کیے بغیر حقیقت میں داخل ہو نا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالی جزائے خیر دے سیدی عبداللہ ھبتی زجلی کو انہوں نے اس حقیقت کو اپنی نظم میں بیان فرمایا ہے:۔
وَثَالِثُ الفصولِ فِي الشَّرِيعَةُ لِأَنَّهَا إِلَى الْهُدَى ذَريعَهُ
وصول الی اللہ کا تیسرا حصہ شریعت میں ہے، اس لیے کہ شریعت ہی ہدایت کا ذریعہ ہے
فَكُلُّ بَابٍ دُونَهَا مَسْدُودٌ وَمَنْ أَتَى مِنْ غَيْرِهَا مَرْدُودٌ
پس شریعت کے سوا سب دروازے بند ہیں، جو شخص شریعت کے سوا کسی دوسرے دروازے سے وصول کی طرف آتا ہے وہ مردود ہے
قَدِ اصْطَفَاهَا رَبُّنَا عَزَّوَجَلَّ بِفَضْلِهِ وَجُودِهِ عَلَى الْمِلَلِ
ہمارے رب عزوجل نے شریعت کو اپنے فضل و کرم سے تمام ملتوں سے پسند کر کے منتخب کیاہے
طَرِيقَةُ العَدْنَانِ لِلرَّحْمَانِ مَحْفُوفَةٌ بِالنُّورِ وَالرِّضْوَانِ
اللہ رحمن تک پہنچنے کیلئے حضرت نبی عدنانی ﷺ ہی کام کا طریقہ یعنی شریعت نور اور رضائے الہی سے گھری ہوئی ہے
طُوبَى لِمَنْ أَتَّى بِهَا لِلْعَرْضِ فَالْوَیلُ لِلَّذِي بِهَا لَمْ يَقْضِ
اس شخص کیلئے بشارت ہے، جو شریعت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس شخص کیلئے تباہی ہے جو شریعت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کرتا ہے
يَا أَيُّهَا الْمُرِيدُ إِنْ أَرَدْتَ وِصَالَ مَنْ بِحُبهِ شُغِفْتَ
اے مرید اگر تم اس ذات پاک کا وصال چاہتے ہو، جس کی محبت میں تم مبتلا ہو
فَشُدَّ مِنكَ الْكَفَّ يَاوَلِي عَلَى شَرِيعَةِ النبي الأمي
تو اے میرے دوست اپنی ہتھیلی حضرت محمد ﷺ کی شریعت پر مضبوطی سے رکھو، (شریعت پر مضبوطی سے قائم رہنے کا عہد کرو ) حَصِلُ جَمِيعَ مَالَہَ الشَّرْعُ ارْتَضَى وَكُنْ لِكُلِّ مَا سِوَاهُ رَافِضًا
ان سب کو حاصل کرو، جن کو شریعت نے پسند کیا ہے اور شریعت کے خلاف سب کچھ ترک کردو۔
تَرَى الْفُؤَادَ صَافِيًا وَشَارِقاً وَعَنْ سِوَى الْمَوْلَى إِلَى الْمَوْلَى ارْتَقَى
تم اپنے قلب کو صاف اور روشن دیکھو گے ۔ اور اللہ تعالی کے ماسوا سے اللہ تعالی کی طرف ترقی کرتا ہوا پاؤ گے۔
پھر ارشاد فرمایا:۔
فبا الشَّرِيعَةِ الْوِصَالُ لِلْمُنى كَالْفَوْزِ بِالْبَقَاءِ مِنْ بَعْدِ الْفَنَاءِ
تو شریعت ہی کے ذریعے امیدوں تک رسائی ہوتی ہے۔ جیسے کہ فنا کے بعد بقاء کے ذریعہ کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔
وَمَنْ يَظُنُّ الْخَيْرَ فِي سِوَاهَا فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا دَرَاهَا
اور جو شخص شریعت کے سوا کسی دوسری شے میں کامیابی کا خیال کرتا ہے تو بلاشبہ اللہ کی قسم وہ اس کی حقیقت سے ناواقف ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: میں نے بہت سے فقراء کو دیکھا ہے کہ انہوں نے شریعت کی پابندی میں کوتاہی کی ۔ تو وہ طریقت سے خارج ہو گئے۔ اور حقیقت کا نور ان سے چھین لیا گیا۔ اور بہت سے دوسرے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بہت زمانہ تک صوفیائے عظام کی صحبت میں رہے۔ لیکن ان کے اندر محبین کی خوبی ، اور عارفین کی نشانی ظاہر نہیں ہوئی۔ اور ایسا صرف شریعت کے احکام کی مکمل اتباع نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اور ہمارے شیخ حضرت بزیدی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ جو شخص جذب اور عذر کے بغیرشریعت کو ترک کر دیتا ہے۔ وہ بہت بڑا عیار ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اللہ کی قسم، ہم نے شریعت ہی میں بھلائی دیکھی ۔ اور شریعت ہی سے کامیاب ہوئے ۔ تو اللہ تعالی ہم کو فیصلہ اور قضا کے دن (قیامت) تک شریعت کے ادب اور پابندی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں