اچھے اختیار کی عادت (گیارھواں باب)

اچھے اختیار کی عادت کے عنوان سے گیارھویں باب میں  حکمت نمبر 105 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

گیارھواں باب

تعرفات جلالی میں ہمیشہ اس کی معرفت کے ساتھ ، اور اس کی نعمت ، اس کی نعمت کے مشاہدہ کے ساتھ ، اور اس کی قضا و قدر کے احکام میں ہمیشہ اس کے لطف و احسان جاری ہونے کے ساتھ ، ادب کا لحاظ رکھنے کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے
105) ليُخَفِّفْ أَلمَ البَلاءِ عَلَيْكَ عِلْمُكَ بِأَنَّهُ سُبْحانَهُ هُوَ المُبْلي لَكَ. فَالَّذي واجَهَتْكَ مِنْهُ الأقْدارُ هُوَ الَّذي عَوَّدَكَ حُسْنَ الاخْتِيارِ.
تمہارے اوپر سے مصیبت کی تکلیف کو ہلکا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تم کو یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی تم کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ تو وہ ذات جس کی طرف سے قضا و قدر کےاحکام تمہارے سامنے آتے ہیں، وہی ہے جس نے تم کو اچھے اختیار کا عادی بنایا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اے انسان جب تیرے اوپر کوئی مصیبت آئے ، یا تیرے بدن ، یا اہل، یا مال میں، کوئی بلا نازل ہو، تو تو اس کو یاد کر جس نے تیرے اوپر یہ بلا نازل کی۔ اور اپنے اوپر اس کی اس رحمت ، اور مہربانی ، اور محبت کو یاد کر ، جس سے وہ موصوف ہے تا کہ تو اس مصیبت کے نازل ہونے میں جو نعمتیں ہیں، اور جو وسیع فضل و کرم اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ہیں ، ان کو سمجھ لے۔ اور اگر کچھ بھی نہ حاصل ہو تو گناہوں اور عیبوں سے تیرا پاک وصاف جانا ، اور علام الغیوب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے تیرا قریب ہو جانا ہی تیرے لئے کافی ہے تو کیا تو نے احسان کے سوا اس کی طرف سے کچھ اور بھی پایا ہے؟ اور کیا بھلائی اور انعام کے سوا اس کی طرف سے کچھ اور بھی دیکھا ہے؟ تو جس ذات سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے قضا و قدر کے احکام تیرے سامنے آئے ہیں اس ذات سبحانہ تعالیٰ نے تجھ کو حسن اختیار عطا فرمایا ہے۔ اور جس ذات پاک کی طرف سے تیرے سامنے قہر کے احکام آئے ہیں ، اسی ذات پاک نے تجھے اپنے تمام احسانات کا عادی بنایا ہے اور جس ذات مقدس کی جانب سے تیرے اوپر ظاہری سختیاں اور تکلیفیں نازل ہوئی ہیں اس نے تجھ کو باطنی نعمتیں عطا کی ہیں اور وہ ذات مقدس جس کی قہاریت کی بارگاہ سے تیرے اوپر مصیبتیں نازل ہوئی ہیں وہی ہے ، جس نے تجھ کو انواع و اقسام کی انعامات واکرامات کا تحفہ عطا کیا ہے:
صاحب عینیہ نے اس سلسلہ میں کیا خوب اشعار فرمائے ہیں:
تلذ فى الآلام إِذْ أَنْتَ مُسْقِمي وَإِنْ تَمْتَحِنَى فَهْيَ عِنْدِي صَنَائِعُ
بیماریاں مجھ کو مزے دار معلوم ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ مجھے بیمار کرنے والا تو ہے اور اگر مجھ کو آزمائش میں تو مبتلا کرتا ہے تو وہ میرے لئے ہنر ہے۔ (بہتر ہے)
تحكم بما تهواهُ فِي فَإِنَّنِي فَقِير لِسُلْطَانِ المَحَبَّةِ طَائع
میرے بارے میں جو تیری مرضی ہے وہ فیصلہ کر کیونکہ میں محبت کے بادشاہ کامحتاج اور فرماں بردار ہوں۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: میں اپنے شیخ حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ کے سامنے سویا ہوا تھا۔ تو شیخ نے مجھ کو جگا کر ارشاد فرمایا: اے جنید! میں نے دیکھا: گویا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے سری! میں نے مخلوق کو پیدا کیا ، تو سب نے میری محبت کا دعوی کیا ، پھر میں نے دنیا کو پیدا کیا ۔ تو ان کے دس حصوں میں سے نو حصے، مجھ سے بھاگ گئے۔ اور میرے ساتھ صرف دسواں حصہ باقی رہا۔ پھر میں نے جنت پیدا کی ۔ تو اس دسویں حصہ کے دس حصوں میں سے نو حصے مجھ سے بھاگ گئے ۔ اور میرے پاس دسویں حصے کا دسواں حصہ باقی رہا۔ پھر میں نے ان کے اوپر بلا کا ایک ذرہ مسلط کیا۔ تو میرے پاس سے دسویں حصہ کے دسویں حصے کے دس حصوں میں سے نو حصے بھاگ گئے ۔ تو میں نے اپنے ساتھ باقی رہنے والوں سے کہا: نہ تم لوگوں نے دنیا کی خواہش کی ، نہ تم لوگوں نے آخرت کو لیا۔ نہ دوزخ کی آگ سے بھاگے ۔ تو بتاؤ تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا بے شک جو ہم چاہتے ہیں تو اسے جانتا ہے تو میں نے کہا۔ میں تمہاری سانسوں کی تعداد میں تمہارے اوپر بلا ئیں مسلط کروں گا ۔ اور ایسی بلائیں جن کو مضبوط پہاڑ بھی برداشت نہیں کر سکتے کیا تم لوگ ان پر صبر کرو گے؟ ان لوگوں نے کہا۔ اگر بلاؤں میں مبتلا کرنے والا تو ہے۔ تو جو کچھ تیری مرضی ہے کہ ۔ ہم تیری مرضی پر راضی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ یہی لوگ میرے حقیقی بندے ہیں۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب تنویر میں فرمایا ہے۔ سمجھ کے دروازوں کا کھلنا ہی احکام کی تعمیل میں لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ اور اگر تم چاہو تو اس طرح کہو: صرف عطاؤں کے واردات ہیں، بلاؤں کی برداشت کے لئے طاقت پیدا کرتے ہیں۔ اور اگر چاہو تو اس طرح کہو۔ اس کے حسن اختیار کا مشاہدہ کرنا ہی اس کی قضا و قدر کی برداشت کی طاقت عطا کرتے ہیں۔ اور اگر چاہو تو اس طرح کہو۔ اس کے علم کے وجود کا علم ہونا ہی، اس کے حکم پر صبر عطا کرتا ہے۔ یا اس طرح کہو۔ اس کا اپنے جمال کے وجود کے ساتھ لوگوں پر ظاہر ہونا ہی اس کے افعال پر ان کو صبر پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ یا اس طرح کہو لوگوں کے اس بات کا علم ہی، کہ صبر سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ ان کے ، قضا و قدر پر صبر کا سبب ہوتا ہے۔ یا اس طرح کہو :


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں