بدلہ کی جگہ آخرت (باب ہشتم)

بدلہ کی جگہ آخرت کے عنوان سے  باب  ہشتم میں  حکمت نمبر71 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پس تمام سوالوں کا جواب دینا، اور مشارات کا بیان کرنا ، اور علوم کو ظاہر کرنا ، دنیاوی زندگی کی حد تک مخلوق کو اپنی طرف متوجہ کرنے ، اور ان کے درمیان اپنے لئے عزت و تعظیم بڑھانے کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ جس کی خوبی اور افضلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کی خدمت واجب ہو جاتی ہے ۔ اور عوام کی شان ہے کرامت اور بزرگی والے کی تعظیم کرتی ہے۔ تو وہ اپنے علم وعمل کا پھل اس دنیا ئے فانی میں چن لیتا ہے۔ اور آخرت میں صدیقین کے درجے اس سے فوت ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کے چھپانے ، اور اللہ کے علم پر قناعت کرنے کا حکم دیا۔ تا کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دن اس کے اوپر جزا حاصل ہو۔ اس حقیقت کی طرف اپنے اس قول میں تنبیہ فرمائی۔
71) إِنَّمَا جَعَلَ الدَّارَ الآَخِرَةَ مَحَلاًّ لِجَزَاءِ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ ؛ لأَنَّ هَذِهِ الدَّارَ لاَ تَسَعُ مَا يُرِيدُ أَنْ يُعْطِيَهُمْ ، وَلأَنَّهُ أَجَلَّ أَقْدَارَهُمْ عَنْ أَنْ يُجَازِيَهُمْ فِى دَارٍ لاَ بَقَاءَ لَهَا.
اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں کو بدلہ دینے کی جگہ عالم آخرت مقرر کی گئی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جتنا کچھ دینا چاہتا ہے۔ اس کی گنجائش کے لئے یہ دنیا کافی نہیں ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ان کے مرتبے اس سے زیادہ بلند ہیں کہ ان کو فنا ہو جانے والی جگہ میں بدلہ دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دار غرور ( دھوکا کا گھر ) فرمایا۔ اور اس کے لئے ہلاک اور برباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ دنیا پست و حقیر ، زائل وفانی ہے۔
اور اس کا نام دنیا ، یا تو اس وجہ سے رکھا گیا کہ وہ عنقریب فنا ہونے والی ہے۔ یا اس وجہ سے کہ وہ حقیر اور پست ہے۔ تو یہ دنیا تنگ زمانہ، اور تنگ مکان والی ہے۔ اور آخرت کو دار قرار ( ہمیشہ قائم رہنے کا گھر) فرمایا۔ اور اس کو انوار کے ظاہر ہونے اسرار کے منکشف ہونے ، فرحت و خوشی نعمت و سرور، احباب کے مشاہدہ ، حجاب کے دور ہونے کا مقام بنایا۔ اس کی نعمت ہمیشہ رہنے والی، اور اس کا وجود ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے مومن بندوں کے لئے بدلہ دینے کا مقام، اور انبیاء علیہم السلام، اور صدیقین کے لئے جائے قیام بنایا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کو ایسی جگہ بدلہ دے جس کو باقی نہیں رہنا اور تنگ زمانہ ، اور تنگ مکان والی ہے۔ جو کدورتوں، تبدیلیوں ، ذلتوں رسوائیوں کی جگہ ہے۔ اور چونکہ وہ تنگ ہے۔ اس وجہ سے جو انعامات اور بخششیں اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے۔ وہ اس دنیا میں نہیں سماسکتیں۔ نہ زمانہ کے اعتبار سے، نہ جگہ کے اعتبار ہے۔ کیونکہ ادنی درجہ کا جنتی اس دنیا سے دس گنا زیادہ کا مالک ہوگا ۔ تو اعلیٰ درجے کا جنتی، اس دنیا سے کتنے گنا زیادہ کا مالک ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِى لَهُمْ مِنْ قرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ اس کے لئے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کتنی نعمتیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کے اعمال کا صلہ ہے۔ جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أعْدَدْتُ لِعِبَادِى الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْن رَاتُ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بشر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے جو کچھ تیار کیا ہے ۔ اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال گزرا۔
اور اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مومن اور مقرب بندوں کی قدر و منزلت کو اس سے بلند کیا ہے کہ ان کو ایسی جگہ بدلہ دے جس کے لئے بقاء نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی آبادی ، ویران۔ اور اس کا وجود بے حقیقت اور قریب ہے۔ جیسا کہ بعض اخبار (احادیث ) میں ہے:۔ اگر دنیا ، فنا ہونے والی سونے کی ہوتی اور آخرت ، باقی رہنے والے ٹھیکرے کی توعقلمند باقی رہنے والی آخرت کو اختیار کرتا۔ اور فنا ہونے والی دنیا کو چھوڑ دیتا ۔ لیکن خاص کر اس حال میں کہ معاملہ الٹا ہے، یعنی آخرت باقی رہنے والے سونے کی ہے۔ اور دنیا فنا ہونے والے ٹھیکرے کی ہے۔ تو اس کو وہی شخص اختیار کرتا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بدبختی اور دکھ کا فیصلہ کر دیا ہے اور دوسری حدیث شریف میں ہے۔
أَلا وَإِنَّ السَّعِيدَ ‌مَنِ ‌اخْتَارَ ‌بَاقِيَةً ‌يَدُومُ ‌نَعِيمُهَا، عَلَى فَانِيَةٍ لا يَنْفَدُ عَذَابُهَا، وَقَدَّمَ مَا يُقَدَّمُ عَلَيْهِ، مِمَّا هُوَ الآنَ فِي يَدَيْهِ، قَبْلَ أَنْ يُخَلِّفَهُ لِمَنْ يَسْعَدُ بِإِنْفَاقِهِ، وَقَدْ شَقِيَ هُوَ بِجَمْعِهِ وَاحْتِكَارِهِ
خبر دار رہو! بے شک نیک بخت وہ ہے جس نے باقی رہنے والی آخرت کو، جس کی نعمت ہمیشہ رہے گی ، فنا ہونے والی دنیا پر جس کا عذاب ختم نہ ہوگا، اختیار کیا۔ اور جہاں وہ جائے گا ، وہاں کے لئے ، جو کچھ اب اس کے قبضہ میں ہے۔ اس میں آگے بھیجدیا۔ اس وقت سے پہلے کہ اس کو اپنے پیچھے اس شخص کے لئے چھوڑ جائے۔ جو اس کو خرچ کر کے خوش ہوگا۔ حالانکہ اس مال کو جمع کرنے کے سبب وہ بد بخت ہوا ہے ۔
اور حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا:۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آنحضرت فرماتے تھے:۔
حَلُّوّا أَنْفُسَكُمْ بِالطَّاعَة، وَأَلْبِسُوهَا ‌قِنَاعَ ‌الْمَخَافَةِ، وَاجْعَلُوا آخِرَتَكُمْ لأَنْفُسِكُمْ وَسَعْيِكُمْ لِمُسْتَقَرِّكُمْ، وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ عَنْ قَلِيلٍ رَاحِلُونَ، وَإِلَى اللَّهِ صَائِرُونَ، فَلا يُغْنِي عَنْكُمْ هُنَالِكَ إِلا عَمَلٌ صَالِحٌ قَدَّمْتُمُوهُ، أَوْ حُسْنُ ثَوَابٍ أَحْرَزْتُمُوهُ، إِنَّمَا تَقْدُمُونَ عَلَى مَا قَدِمْتُمْ، وَتُجَازَوْنَ عَلَى مَا أَسْلَفْتُمْ، فَلا تَخْدَعَنَّكُمْ زَخَارِفُ دُنْيَا دَنِيَّةٍ، عَنْ مَرَاتِبِ جَنَّاتٍ عَلِيَّةٍ، فَكَأَنَّ قَدْ كُشِفَ الْقِنَاعُ، وَارْتَفَعَ الارْتِيَابُ، وَلاقَى كُلُّ امْرِئٍ مُسْتَقَرَّهُ، وَعَرَفَ مَثْوَاهُ وَمَقِيلَهُ
تم لوگ اپنے نفسوں کو طاعت سے آراستہ کرو۔ اور ان کو خوف کا برقع پہناؤ ۔ اور اپنی آخرت کو اپنے نفسوں کے لئے بناؤ۔ اور اپنی کوشش کو اپنے ٹھکانے کے لئے خرچ کرو ۔ اور یقین کے ساتھ جان لو :تم قلیل یعنی دنیا سے کوچ کرنے والے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کرنے والے ہو ، اور وہاں تم کو کوئی چیز فائدہ نہ دے گی۔ مگر وہ جو تم نے پہلے کر کے بھیجا ہے یا وہ بہتر تو اب جو تم نے دنیا میں بدلہ دیا ہے وہ حقیقت تم لوگ صرف اس طرف بڑھو گے جو تم نے پہلے سے کر کے بھیجا ہے اور تم کو وہی بدلہ دیا جائے گا جوتم نے پہلے دنیا میں کیا ہے۔ پس تم کو حقیر دنیا کی نمائشی زینتیں فریب دے کر بلند جنتوں کے مرتبوں سے روک نہ دیں پس گویا پردہ کھل گیا اور شک وشبہ مٹ گیا اور ہر شخص اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا اور ہر شخص نے اپنے ٹھکانے اور لوٹنے کی جگہ کو پہچان لیا پھر اس آخرت کے گھر میں بدلہ اس دنیا کے عمل پر اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہو۔ اور اس کا مقبول ہونا پوشیدہ ہے۔ لیکن اس کی علامتیں ہیں۔ جس کے ذریعے وہ معلوم کی جاتی ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں