بوجہ اکتاہٹ ذکرکی قسمیں (بارھواں باب)

بوجہ اکتاہٹ ذکرکی قسمیں کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 118 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور جن چیزوں کے ذریعے ، روح محبت کی تکلیفوں سے مانوس ہوتی ہے ان میں سے اس کا خدمت میں مشغول ہونا ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے
118) لِمَا عَلِمَ الحق مِنْكَ وُجُودَ الْمِلَلِ لون لَكَ الطّاعاتِ
اس وجہ سے کہ اللہ تعالی کو تمہارے گھبرانے اور اکتانے کا علم تھا۔ اس نے تمہارے لئےطاعت کی مختلف قسمیں مقرر کی۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اے بندے! تیرے لئے اللہ تعالی کا یہ فضل و کرم ، اور حسن اختیار ہے کہ چونکہ اسے یہ علم تھا ۔ کہ تم اس کے دیدار کے بغیر صبر اور سکون سے نہیں رہ سکتے ہو ۔ اس لئے اس نے تم کو اپنی مخلوقات کے مظاہر اور صفات کے آثارمیں، ان تجلیوں کا مظاہرہ کرایا، جو اس کی ذات سے نمودار ہوتی ہیں۔ اور چونکہ اللہ سبحانہ تعالی کو یہ علم تھا کہ اس کے بندوں میں ایسے لوگ ہیں ۔ جو مخلوقات کے مظاہر میں اس کی تجلیوں کے مشاہدہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ تو ان کو اپنی خدمت میں مشغول کیا۔ اور چونکہ اسے یہ علم بھی تھا کہ اس کو ایک ہی قسم کی خدمت سے گھبراہٹ اور پریشانی لاحق ہو گی۔ اس لئے اس نے اس کے لئے طاعت کی مختلف قسمیں اور شکلیں مقرر کیں۔
کیونکہ نفس کی شان (عادت) یہ ہے کہ ایک ہی چیز کے بار بار کرنے سے گھبرا جاتا ہے۔ اسی حالت کے متعلق ایک عارف شاعر فرماتے ہیں:
لا يُصْلِحُ النَّفْسُ إِذْ كَانَتْ مُدَبرَةٌ إِلَّا التَّنَقُلُ مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ
چونکہ نفس تدبیر کرنے والا ہے۔ اس لئے اس کی اصلاح صرف ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے ہی سے ہو سکتی ہے ( کیونکہ ہرشے سے مرغوب ہوتی ہے اور ایک ہی چیز کے بار بار کرنے سے خواہ وہ کتنی ہی بہترین ہو۔ گھبراہٹ اور پریشانی لاحق ہوتی ہے )اس لئے اللہ تعالی نے تمہارے لئے اپنی طاعت کی مختلف قسمیں اور شکلیں مقرر کی ہیں ۔ مثلاً جب تم نماز سے اکتا جاتے ہو تو اس کے ذکر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ اور جب اس کے ذکر سے اکتا جاتے ہو، تو اس کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہو جاتے ہو۔ اور اسی طرح ایک طاعت سے دوسری طاعت کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہو۔
اور ذکر کی قسمیں بہت ہیں۔
اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا: خوشی اور دلچسپی کے اسباب میں سے ہے۔ اور خوشی اور دلچسپی کے ساتھ طاعت ، اگر چہ کم ہو، کابلی اور سستی والی طاعت سے افضل ہے۔ اگر چہ وہ زیادہ ہو۔ ظاہر کی زیادتی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ صرف حقیقت کے وجود کا اعتبار ہے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے بندے کے لئے طاعت کی مختلف قسمیں تین وجوہ سے مقرر کی ہیں ۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندے پر اپنی رحمت اور شفقت کی بناء پر ایسا کیا۔ تا کہ وہ ایک قسم سے دوسری قسم کی طرف منتقل ہو کر راحت اور خوشی حاصل کر لے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے پر حجت قائم کرنے کے لئے ایسا کیا۔ تا کہ طاعت کے ترک کرنے میں اس کے لئے کوئی عذر باقی نہ ر ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ کل طاعتوں میں اختیار دینے کے ساتھ عمل میں اس کے لئے نسبت ثابت کر دے۔ تا کہ کرامت مکمل ، اور طاعت آسان ہو جائے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: جب خواہش اللہ سبحانہ تعالی کے موافق ہوتی ہے تو یہ مکھن کے ساتھ شہد ہے۔ (یعنی بہت ہی بہتر ہے ) اور جو شخص اپنی طبیعت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف سفر کرتا ہے۔ تو اس کی رسائی اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی طبیعت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی کی طرف اپنی طبیعت کی مخالفت کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ اللہ تعالی تک اس کی رسائی ، اس کی طبیعت سے اس کی دوری کے مطابق ہوتی ہے۔ اور مقصود اللہ سبحانہ تعالی کی موافقت ہے نہ کہ نفس کی مخالفت اور سنت کے شواہد (دلائل ) پوشید ہ نہیں ہیں۔ تم اسے بخوبی غور کرکے سمجھو۔
اور اکتانے کے اسباب میں سے حرص ہے۔ اور حرص کا سبب عمل میں آزادی (وقت کی پابندی نہ ہونا) ہے۔ اس لئے وقتوں کے تعین کے ساتھ مقید کیا گیا۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے
مندرجہ ذیل قول میں واضح فرمایا ہے:
. وًعَلِمَ ما فيكَ مِنْ وُجودِ الشَّرَهِ فَحَجَرَها عَلَيْكَ في بَعْضِ الأوْقات
اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے اندر حرص کے وجود کا علم تھا۔ اس لئے اس نے تمہارے اوپر طاعت کو بعض وقتوں میں مقید کیا ۔ (یعنی بعض وقت میں مقرر کیا۔ اور بعض وقت میں منع کیا ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: شرہ :۔ نفس کا وہ ہلکا پن ہے۔ جو عمل کے لئے ایک دوسرے سے جلدی کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اور اس خفت کا نتیجہ : تین خرابیاں ہوتی ہیں۔
پہلی خرابی ہمیشہ عمل کرنے کی صورت میں نفس کی تنگی کے سبب عمل کا ترک کر دینا۔
دوسری خرابی اگر عمل کو ترک نہ کرے توا کتا جانا ۔ اور گرانی محسوس کرنا ۔
تیسری خرابی۔ جلد بازی کی وجہ سے عمل میں خلل واقع ہونا ( یعنی ارکان کو کامل طریقہ پر نہ اداکرنا)
اور وقت کے ساتھ مقید کرنے میں تین فوائد ہیں ۔
پہلا فائدہ :۔ حرص کو روکنا ہے۔ اس لئے کہ طاعت اگر آزاد ہوتی ہے، تو نفس اس میں حرص کے طریقے پر پڑتا ۔
دوسرا فا ئدہ:۔ تاخیر اور ٹال مٹول کو دور کرنا ہے۔ اس لئے کہ اگر وقت کی قید نہ ہوتی ۔ تونفس اس کو ایک وقت سے دوسرے وقت کے لئے ٹالتا رہتا۔ پھر اس کا انجام کو تا ہی کرنا، اور ضائع کر دینا ہوتا۔
تیسرا فائدہ:۔ عمل میں ثابت قدمی اور مضبوطی سے قائم ہونا ہے۔ اس لئے کہ اگر وقت کی قید نہ ہوتی۔ تو نفس عمل میں سستی کرتا ۔ اور بغیر عذر کے چھوڑ دیتا۔ اور خواہش کے غلبہ کی وجہ سے اس کی حفاظت نہ کرتا ۔ اور فوائد کے حاصل کرنے میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس کو یاد نہ رکھتا۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے طاعت کو وقت کے ساتھ مقید کرنے کی وجہ بیان کی ۔ اور وہ مضبوط اور قائم کرنا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
، لِيكونَ هَمك إقامةَ الصلاة لا وُجودَ الصَّلاةِ، فَما كُلُّ مُصَلٍّ مُقيم
طاعت کے لئے وقت کی قید اس لئے ہے۔ تا کہ تمہارا مقصد نماز کا قائم کرنا ہونہ کہ نماز کی شکل ظاہر کرنا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں