بھائیوں کے چار آداب (باب ہفتم)

 بھائیوں کے چار آداب کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر66 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
بھائیوں کے آداب:۔ چار ہیں
اول: ان کی عزت و حرمت کی حفاظت ہے۔ خواہ وہ غائب ہوں یا حاضر تو نہ کسی کی غیبت کرے۔ نہ کسی کو حقیر سمجھے۔ نہ یہ کہے کہ میرے شیخ کے مریدین میں فلاں شخص کامل ہے۔ اور فلاں شخص ناقص ہے۔ یا فلاں شخص عارف ہے۔ یا فلاں شخص عارف نہیں ہے۔ یا فلاں شخص کمزور ہے۔۔ اور فلاں شخص طاقتور ہے۔ یا اس کے علاوہ کیونکہ یہ خالص نیت ہے۔ اور غیبت بالا جماع حرام ہے۔ خاص کر اولیائے کرام کے حق میں۔ کیونکہ ان کے گوشت زہر قاتل ہیں۔ جیسا کہ علما ءصالحین کے گوشت۔ پس مرید کو اس بری خصلت سے اپنے کو بچانا چاہیئے ۔ اور ان لوگوں سے جن کی طبیعت ایسی ہو ، اسی طرح بھاگنا چاہیئے ۔ جس طرح شیر سے بھاگتا ہے۔ کیونکہ جو شخص اس سے دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اولیائے کرام انبیاء علیہم السلام کی طرح ہیں۔ تو جس شخص نے ان میں فرق اور امتیاز کیا۔ اس نے اپنے اوپر ان کے فیض کو حرام کر لیا۔ اور انکی نعمت کی ناشکری کی۔
ایک صوفی نے فرمایا ہے جس شخص کو فقر ا ءنے توڑ دیا۔ اس کو شیخ نہیں جوڑ سکتا۔ اور جس شخص کو شیخ نے تو ڑ دیا۔ اس کو فقراء جوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ درست اور تجربہ کیا ہوا ہے کیونکہ ایک ولی کی ایذارسانی بہت سے اولیائے کرام کی ایذارسانی کی طرح نہیں ہے۔ جس شخص کو شیخ تو ڑ دیتا ہے۔ اس کے بارے میں اخوان شفاعت کرتے ہیں۔ تو شیخ کا قلب جڑ جاتا ہے۔ بخلاف فقرا کے قلوب کے۔ کہ جب وہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تو ایسا کم ہوتا ہے کہ وہ جانے پر متفق ہوں۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
دوم :ان کی خیر خواہی کرے۔ اس طرح کہ ان کے جاہل کو تعلیم دے۔ ان کے گمراہ کو ہدایت کرے۔ ان کے کمزور کو طاقت پہنچائے ۔ اگر چہ اس کے لئے ان کے پاس سفر کر کے جانا پڑے۔ کیونکہ ان میں ابتداو الے بھی ہیں۔ اور انتہا والے بھی ہیں۔ قوی بھی ہیں۔ ضعیف بھی ہیں۔ پس ہر ایک کو ان کے مرتبہ کے مطابق نصیحت کرے۔ لوگوں سے ان کی سمجھ کے موافق خطاب کرے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
سوم : ان سے تواضع کرنا۔ ان کے ساتھ اپنے نفس سے انصاف چاہنا حتی الامکان ان کی خدمت کرے۔ کیونکہ قوم کا خادم ان کا سردار ہوتا ہے۔ تو جس شخص کو کوئی ایسا کام در پیش ہو، جس سے فرصت نہ پاسکے۔ اس کی امداد واجب ہے۔ تا کہ وہ اس سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو۔ اگر چہ یہ ہلکا ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ (وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰ) تم لوگ نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ تو جو چیز بھی فقیر کے دل کو مشغول کرتی ہے۔ اس کا دور کرنا جہاد اور نیکی ہے۔
چہارم : ان کے اندر صفائی اور خلوص دیکھیے ، اور ان کے کمال کا اعتقاد رکھے۔ پس کس کو ناقص نہ خیال کرے اگر چہ اس سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو بظا ہر نقص کا باعث ہو۔ کیونکہ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ عذروں کو تلاش کرتا ہے۔ تو اس کے لئے ستر عذر تلاش کرنا چاہیئے ۔ پھر بھی اگر اس سے اس کے نقص کا سبب دور نہ ہو۔ تو اس کو اپنے نفس میں دیکھنا چاہیئے ۔ المومن مراة اخيه
مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے ۔ جو چیز دیکھنے والے کے اندر ہے وہی آئینہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ تو اہل صفا کو صرف صفا و خلوص نظر آتا ہے۔ اور ملاوٹ والے ملاوٹ دیکھتے ہیں۔ اہل کمال صرف کمال دیکھتے ہیں۔ اور اہل نقص کو نقص ہی دکھائی دیتا ہے اور اس بارے میں حضرت نبی کریم ﷺ کی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ مِنَ الْخَيْرِ : – (حُسنُ الظَّنِّ بِاللَّهِ، وَحُسْنُ الظَّنِّ بِعِبَادَ اللَّهِ وَخَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ مِّنَ الشَّر : سُوءُ الطَّنِ بِاللهِ، وَ سُوءُ الطَّنَ بِعِبَادِ
د و خصلتیں ایسی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن ۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن ظن رکھنا ۔ اور دو خصلتیں ایسی ہیں۔ جن سے بڑی کوئی برائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ براگمان ، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ برا گمان رکھنا۔وباللہ التوفیق
پس یہ سب آداب:۔ وہ ہیں جن کا لحاظ اور خیال رکھنا، فقیر پر واجب ہے۔ خواہ وہ طالب ہو سائر ہو، یا واصل ہو۔ اور پہلے باب کی ابتداء میں آٹھ آداب کا بیان گزر چکا ہے۔ ان میں بعض آداب عارف کے لئے ہیں، اور بعض سائر کے لئے۔ لہذا ان کو پھر دیکھنا اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا چاہیئے ۔ کیونکہ طریقت کل کا کل ادب ہے۔ یہاں تک کہ بعض عارفین نے فرمایاہے:۔ اپنے عمل کو نمک بناؤ ۔ اور اپنے ادب کو آٹا ۔
حضرت ابو حفص رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: ۔ تصوف ۔ کل آداب ہیں۔ ہر وقت کے لئے آداب ہیں۔ ہر حال کے لئے آداب ہیں۔ ہر مقام کے لئے آداب ہیں۔ تو جس نے ادب کو لازم پکڑا۔ وہ اللہ والوں کے مقام تک پہنچ گیا۔ اور جس نے ادب کی بے حرمتی کی۔ وہ قرب کے مقام سے دور رہا۔ اور قبولیت کے مرتبہ سے مردود ہوا۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ ظاہری اور باطنی آداب کو اپنے اوپر لازم کرو۔ کیونکہ جس نے ظاہری ادب کی بے ادبی کی اس کو ظاہر میں سزادی گئی اور جس نے باطنی ادب کی بے ادبی کی۔ اس کو باطن میں سزادی گئی ۔ مباحث اصلیہ میں فرمایا ہے۔
وَالْآدَبُ الظَّاهِرُ لِلْعَيَانِ دَلَالَةُ الْبَاطِنِ فِي الْإِنْسَانِ
آنکھوں کے سامنے ظاہری ادب انسان کے اندر باطنی ادب کی دلیل ہے
وَهُوَ أَيْضًا لِلْفَقِيرِ سَنَدٌ وَللْغَنِي زِيْنَهُ وَ سُوْدَدٌ
اور وہ فقیر کیلئے سند کی حیثیت رکھتا ہے اور دولتمند کیلئے زینت اور سرداری ہے
وَقِيلَ مَنْ يَحْرَمُ الْآدَبُ فَهُوَ بَعِيدٌ مَا تَدَانِي وَاقْتَرَبُ
بیان کیا گیا ہے: جو شخص ادب سے محروم رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور ہے۔
وَقِيلَ مَنْ تَحسِبُهُ الأَنسَابُ فَإِنَّمَا تُطْلِقُهُ الْآدَابُ
بیان کیا گیا ہے:۔ نسب کی نسبت سے منسوب ہونا۔ اکثر آداب کی بجا آوری سے محروم کر دیتے ہیں۔
فَالْقَوْمُ بِالْآدَابِ حَقًّا سَادُوا مِنْهُ اسْتَفَادَ الْقَوْمُ مَا اسْتَفَادُ
پس صوفیائے کرام آداب ہی کے باعث سردار ہوئے ہیں اور جو کچھ بھی فائدہ حاصل کیا۔ آداب ہی سے کیا۔
حضرت ابو حفص سراج رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:۔ آداب کے لحاظ سے آدمیوں کے تین طبقے ہیں:۔1۔ اہل دنیا 2۔ اہل دین 3۔ اہل دین میں اہل خصوصیت
اہل دنیا:۔ تو ان کے اکثر آداب : فصاحت و بلاغت میں ، بادشاہوں کی خبر و توجہ نفقہ ہےیا نہیں؟ طلب نفقہ عربی اور دوسری زبان کے اشعار میں ہے۔
اہل دین ان کے اکثر آداب : علوم کے یاد کرنے نفسوں کی ریاضت کرنے ، جسمانی اعضاء کو ادب دینے ، طبیعتوں کی درستی کرنے ، حدود شرعیہ کی حفاظت کرنے ، خواہشات کو ترک کرنے ،شبہوں سے پر ہیز کرنے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے میں ہیں۔
اہل دین میں اہل خصوصیت:۔ ان کے آداب: ۔ قلوب کی حفاظت ، اسرار کی رعایت ظا ہر و باطن کا یکساں ہونا ہیں۔ تو مریدین : علوم کے ذریعہ۔ اور درمیان والے:۔ آداب کے ذریعہ۔ اور عارفین : ۔ ہمتوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر فضیلت حاصل کرتے ہیں۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مرید کے لئے جو جہل کا لازم ہونا بیان کیا ہے۔ وہ اس کے اپنے نفس کے لئے دلیل قائم کرنے اور اس کی طرف سے مدافعت کرنے کے ساتھ مقید ہے۔ جس کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ اس حال میں ، مقد مہ اور نتیجہ تیار کرنے کے لحاظ سے بحث و تکرار کرنے والا ہے۔ اور اس کے اوپر عارفین کا یہ قول صادق آتا ہے۔ جس قوم کو بحث و تکرار کرنا سکھایا گیا، وہ عمل سے محروم ہو گئی ۔ لیکن اگر وہ اپنی بے ادبی کا اعتراف کرے ۔ اور اپنے نفس سے انصاف کرے۔ تو یہ اس کے حق میں یہ جہل ہو گا نہ جہالت۔
عارفین نے فرمایا ہے:۔ بے ادبی اگر ادب تک پہنچا دے تو وہ ادب ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں