بیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس العشرون فی القول بلا عمل ‘‘ ہے۔

 منعقده 21 ذیعقد ہ545  و بروز جمعہ، بوقت صبح ، بمقام مدرسہ قادریہ

 نفاق بڑھ جائے تو اخلاص کم ہو جا تا ہے:

اے شہر کے رہنے والو! تم میں نفاق بہت بڑھ گیا ہے، اور اخلاص کم ہو گیا ہے، باتیں بہت ہیں عمل کوئی نہیں ۔ عمل کے بغیر قول کسی کام کا نہیں، بلکہ وہ تم پر دلیل ہے قرب خداوندی کا رستہ نہیں عمل کے بغیر قول ایسا ہے کہ

جیسے دروازے کے بغیر کوئی گھر ہو۔ یا ایسا خزانہ جس سے کچھ خرچ نہ کیا جائے ، وہ صرف دعوی ہی دعوئی ہے جس کا کوئی گواہ نہیں،صورت تو ہے مگر روح کے بغیر ،  ایسابت ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں نہ پاؤں ، نہ ہی پکڑنے کی قوت وطاقت ہے، تمہارے بڑے اعمال ایسے ہیں کہ جیسے روح کے بغیر جسم، روح کیا ہے  اخلاص و توحید ، اور قرآن وسنت رسول اللہ ﷺ پر ثابت قدم رہنا۔ غفلت نہ کرو، اپنی حالت کو بدل لو، بھلائی پاؤ گے، احکام الہی پر عمل کر و، منع کئے گئے سے باز رہو،تقدیرالہی کی موافقت کرو، مخلوق میں سے گفتی کے افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں کو انس اور مشاہدہ اور قرب الہی کی شراب پلائی جاتی ہے، جس سے مست ہو کر وہ تقدیر کے غموں اور بلاؤں کی تکالیف محسوس نہیں کرتے ، تنگی اور مصیبتوں کے سب دن گزر جاتے ہیں ، انہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا ، وہ اللہ کی حمد اور شکر گزاری کرتے رہتے ہیں، مصائب و آلام کے نزول کے وقت وہ اپنے آپ ہی میں نہ تھے کہ رب تعالی پر اعتراض کرتے ، جیسے تم پر آفتیں آتی ہیں ویسے ہی اللہ والوں پر آتی ہیں  ،اور بعض ان میں سے وہ ہیں جوصبر کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو آفات سے اور ان پر صبر سے غائب ہو جاتے ہیں ، انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی ۔ تکلیف کا ماننا ایمان کی کمزوری ہے، اور یہ ایمان کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے، جب تکلیف پر صبر آ نے لگتا ہے تو یہ ایمان اٹھتی جوانی کی مثل ہوتا ہے ، تقد یرالہی پر موافقت کرنا ایمان کی بلوغت کی نشانی ہے، راضی برضاء الہی ہو جانا اس کے قرب کے وقت ہوتا ہے،  وہ اپنے علم سے اللہ کی طرف دیکھتا ہے، جب قلب اور باطن کا وجود اللہ کے پاس ہو تب غیبت وفنا ہوتے ہیں، یہ حالت مشاہدے اور آپس میں بات چیت کی ہے، ایسے شخص کا باطن اور وجود فنا ہو جا تا ہے، اور خلقت کے نزدیک محو ہو جا تا ہے، وہ اللہ کی حضوری میں ہوتا ہے، وہاں محو ہو کر پوری طرح سے پگھل جاتا ہے، اسے بقامل جاتی ہے، پھر اللہ جب چاہتا ہے اسے زندہ کرتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے خلقت کی طرف واپس کر دیتا ہے ۔ اس کے بکھرے ہوئے اور متفرق اجزاء کو جمع کرتا ہے، جیسے قیامت کے دن مخلوق کے ریزہ ریزہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اجسام کو جمع کرے گا ۔ ان کی ہڈیاں اور گوشت اور بال اکٹھے کرے گا  پھر اسرافیل علیہ السلام کو ان میں ارواح بھو نکنے کا حکم کرے گا ، یہ بات تو عام مخلوق کے لئے ہے لیکن اپنے پیاروں کو بلا واسطہ لوٹا تا ہے ، ایک نظر میں انہیں فنا کرتا ہے اور ایک نظر میں لوٹا تا ہے ۔

اللہ کی محبت آسان نہیں جو ہر ایک اس کا دعوی کرنے لگے:

 محبت کی شرط یہ  ہے کہ تمہارا ارادہ محبوب کے ارادے کے ساتھ ہو،دنیا و آخرت میں مخلوق اور کوئی چیز تجھے اس محبوب سے نہ روک سکے، اللہ کی محبت آسان بات نہیں جوهر ایک اس کا دعوی کرنے لگے، کتنے لوگ ہیں جو محبت کا دعوی کرتے ہیں ، جبکہ محبت ان سے کوسوں دور ہوتی ہے، اور کتنے لوگ ہیں جو محبت کا دعوی نہیں کرتے ،حالانکہ محبت انہیں حاصل ہے۔ مسلمانوں میں سے تم کسی کو حقیر و ذلیل نہ سمجھو کیونکہ ان میں اسرار الہی بیج کی طرح بکھیر دیئے گئے ہیں ۔اے مسلمانو! اپنے نفسوں میں تواضع اختیار کرو، اور اللہ کے بندوں پر غرور و تکبر نہ کرو، اپنی غفلتوں سے ہوشیار ہو جاؤ تم غفلت میں ایسے پڑے ہو گویا کہ تمہارا حساب کتاب ہو چکا ہے اور تم پل صراط سے گزر چکے ہو اور جنت میں اپنے مکان دیکھ لئے ہیں ۔ کیسی خودفریبی ہے، کچھ خیال کرو، تم میں سے ہر ایک کثیر گناہوں کے باعث اللہ کا نا فرمان ہے ۔ اس کے باوجود اسے ( انجام کی کوئی فکر نہیں ، نہ وہ ان سے تو بہ کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی نافرمانیاں بھلا دی گئیں، جبکہ وہ تاریخوں اور وقت کے ساتھ تمہارے اعمال نامے میں درج ہیں۔ چھوٹے بڑے، کم یا زیادہ سب گناہوں کا حساب و عذاب ہوگا ،۔ اے غافلو، ہوشیار ہو جاؤ! اے سونے والو، بیدار ہو جاؤ ! – اللہ کی رحمت حاصل کرو۔اے بندو! جس کسی نے گناہ اور لغزشیں بکثرت کی اوران پر اصرار کرتا رہا  نہ توبہ کی ا ورنہ شرمندہ ہوا ۔ اگر اس نے اپنے کئے کا تدارک نہ کیا تو قاصد اس کے پاس آ گیا۔اے آخرت کے بغیر دنیا کو طلب کرنے والے ۔ اے خالق کے بغیر مخلوق کو طلب کرنے والے۔ تو محتاجی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور امیری کے سوا کسی کی آرزو نہیں کرتا۔

رزق کا معاملہ منشاءالہی پر موقوف ہے:

تجھ پر افسوس ہے! رزق قسمت کا ہے جو زیادہ یا کم نہیں ہوتا ، نہ ہی آگے یا پیچھے ہوتا ہے، تم اللہ کی ضمانت میں شکایت کرتے ہو، جو چیز نصیب میں نہیں اس کی طلب پر حرص کرتا ہے، تیری حرص نے تجھے اہل علم کے پاس حاضر ہونے اور نیکی کی محافل میں جانے سے روک رکھا ہے، تجھے اس بات کا خوف ہے کہ تیرا نفع کم اور مال تھوڑ ا ہو جائے گا۔ تجھ پر افسوس ہے! جب تو اپنی ماں کے پیٹ میں بچہ تھا توتجھے کون کھلا تا تھا، آج تجھے اپنے آپ اور خلقت پر، اپنی اشرفیوں اور روپوں پر اپنے لینے اور دینے پر شہر کے حاکم پر،جس جس پر تجھے اعتماد اور بھروسہ ہے، وہی تمہارا خدا ہے۔ اور جس جس سےتجھے ڈر خوف ہے۔ جس سےتجھے کوئی آرزویا کچھ امید ہے۔

 جس سے تم نفع یا نقصان دیکھو اوریہ نہ سمجھو کہ اس کے ہاتھوں سے اللہ ہی کرا تا ہے، وہی تمہارا رب ہے، تجھے جلد ہی اپنے متعلق پتہ چل جائے گا ۔ اللہ تعالی تم سے سننے  اور سیکھنے اور پکڑنے کی قوت وہمت چھین لے گا،  تمہارا مال اور جس پر اللہ کے سوا بھروسہ تھا ، جاتے رہیں گے، ۔۔۔ خلقت اور تمہارے بیچ میں قطع تعلق کر دے گا اور تمہاری طرف سے طاقت کے دل سخت کر دے گا، تمہاری طرف سے ان کے ہاتھ روک دے گا ، تمہارا کاروبار ٹھپ کر کے ۔ رزق کے دروازے بند کر دے گا، ایک دروازے سے دوسرے دروازے کی طرف مارے مارے پھرو گے۔ تجھے ایک لقمہ تو کیا ایک ذرہ بھی نہ ملے گا ۔ جب اسے پکارو گے ، تجھے قبول نہ کرے گا،  یہ ساری مصیبت: تمہارے شرک اور غیر اللہ پر بھروسہ کرنے ، ماسوا اللہ سے نعمت طلب کرنے ،نعمت سے گناہوں پر مدد چاہئے کی وجہ سے ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ میں نے خودایسا برتا ؤ ہوتے دیکھا ہے، غالبا یہ لوگ نافرمانوں میں سے تھے ، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو تو بہ کر کے اپنی بداعمالی کا تدارک کر لیتے ہیں ۔ اللہ بھی ان کی توبہ قبول کر کے نظر رحمت فرماتا ہے، اور ان سے لطف و کرم کا معاملہ کرتا ہے ، اے خلق خدا! توبہ کرو، اے عالمو !اے فقیہو ، اے زاہدو! اےعابدو! تم میں سے ہر ایک شخص تو بہ کا محتاج ہے، تمہارے جینے اور مرنے کی سب خبریں میرے پاس ہیں ، اگر تمہارے ابتدائی افعال شک و شبه والے ہوں اور مجھ سے چھپے ہوں تو تمہاری موت کے وقت وہ سب مجھ پرکھل جاتے ہیں ۔ اگر تمہاراکسی کا اصل مال مجھ سے پوشیدہ ہو جائے تو میں اس کے نکاس کو دیکھتا ہوں ، اگر اس کا خرچ بیوی بچوں اور اللہ کے فقیروں اورمخلوق کی اصلاح وفلاح پر ہو، تو میں جان لیتا ہوں کہ اس مال کی اصل حلال ہے۔ اگر خاصان خدا صد یقوں پر خرچ ہوا ہوتو جان لیتا ہوں کہ اسکے حصول کے اصل اللہ پر توکل ہے، اور یقینا یہ مال حلال ہے، میں تمہارے ساتھ بازاروں میں نہیں رہتا لیکن اللہ تعالی تمہارے مالوں کو اس طریقے سے اور دوسرے طریقوں سے بھی مجھ پر ظاہر کر دیتا ہے۔

دل میں غیر کا خوف رسوائی کا باعث ہے:

 بیٹا! اس بات سے بچو کہ اللہ تعالی تمہارے دل میں اپنے غیر کو نہ دیکھے تا کہ تمہاری رسوائی نہ ہو، اس بات سے بھی بچو کہ وہ تمہارے دل میں اپنے غیر کا خوف، غیر سے امید اور غیر کی محبت نہ دیکھے، اپنے دلوں کو غیر اللہ سے پاک کرو، نفع یا نقصان غیر کی بجائے اس سے دیکھو، اس لئے کرتم اللہ کے گھر میں ہو اور اس کی مہمانی میں ہو۔

صحیح محبت وہی ہے جو اللہ کی محبت میں تغیر نہ لائے

بیٹا! تم خوبصورت چہرے دیکھتے ہو ، اورتم انہیں چاہنے لگتے ہو، یہ محبت ناقص ہے، اس پر پکڑ ہوسکتی ہے صحیح  محبت وہی ہے کہ جو اللہ کی محبت میں تغیر نہ لائے ، اللہ کی محبت وہ ہے جو تم اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہو – یہی محبت صدیقوں اور روحانیوں کی ہے ، ان کی محبت ایمان سے نہیں بلکہ یقین اور آنکھ سے ہے ۔ ان کے دل کی آنکھوں سے حجاب اٹھ گئے ہیں، جو کچھ غیب میں ہے، وہ دیکھتے ہیں ، وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں کہ جس کی شرح وہ خود بیان نہیں کر سکتے ۔

التجا ہے اللهم ارزقنا محبتك مع العفو والعافية  الہی! ہمیں عفو و عافیت کے ساتھ اپنی محبت عطا فرما۔  تمہاری قسمتیں  دنیا میں مقررہ اوقات تک اللہ تعالی کے پاس امانت ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ مالک کی اجازت مل جانے کے بعد تمہارے حوالے ہونے سے  روکے ،مخلوق اور ان کی عقل کی خرابی پر دنیا ہنستی ہے اور مذاق اڑاتی ہے، ایسے شخص پر ہنستی ہے:  جوایسی چیز کا خواہاں ہے جو اس کے نصیب میں نہیں ، اور جو مالک کی اجازت کے بغیر قسمت کا لکھا مانگتا ہے

 دنیا خود بخود تمہاری تابع کیوں کر ہوسکتی ہے:

 اے لوگو! اگر تم دنیا کے دروازے سے منہ پھیر لو، اور اللہ کے دروازے کی طرف رخ پھیر لو تو دنیا خود بخود تمہاری تابع فرماں ہو جائے گی ۔ اللہ سے عقل کی طلب کرودنیا جب اولیاء اللہ کی طرف آتی ہے تو وہ اس سے کہتے ہیں:’’ چلی جادوسروں کو دھوکہ دے، ہم نے تجھے پہچان لیا اور دیکھ لیا ہے۔ ہما را تجر بہ نہ کر ہمیں تیری آزمائش خوب معلوم ہے،  ہم پر پرکھنے کی مشقت نہ ڈال، تیرے سکے کھوٹے ہیں ،  تیری ز ینت خالی بت پر ہے جولکڑی سے بنا ہے، جس میں روح نہیں ، – تیرا ظاہر ہے باطن نہیں صورت ہے سیرت نہیں ، دیکھنے اور پرکھنے کی چیز اصل میں آخرت ہے ۔

 اولیاء اللہ پر دنیا کے عیب جب ظاہر ہوتے ہیں تو وہ اس سے کنارہ کر لیتے ہیں، اور جب مخلوق  کے عیب ظاہر ہوتے ہیں تو وہ ان سے غائب ہو جاتے ہیں، ان سے بھاگتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں ۔ جنگلوں اور بیابانوں اور ویرانوں اور غاروں میں جنوں اور فرشتوں کے ساتھ جوزمین پر چلنے والے ہیں ، ان سے انس حاصل کرتے ہیں ۔ فرشتے اور جنات ان کے کبھی وحشی جانوروں کی صورت میں، جس صورت پر چا میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ فرشتوں اور جنات  پاس ان کے پاس  غیر صورتوں میں آتے ہیں،: کبھی و ہ زاہدوں اور راہبوں کی صورت میں داڑھی سمیت ظاہر ہوتے ہیں ، کبھی مردوں کی صورت میں، کبھی وحشی  جانوروں کی صورت میں، جس صورت پر چاہیں ظاہر ہوتے ہیں فرشتوں اور جنات کیلئے صورتیں بدلنا ایسے ہے جیسے تم میں سے کسی کے گھر میں مختلف طرح کے کپڑے لٹکے ہوئے ہوں، جسے چاہا پہن لیا ۔ مرید صادق جو اللہ تعالی کی ارادت میں سچا ہوتا ہے، اپنی ابتدائی حالت میں مخلوق کے دیکھنے سے تنگ آ تا ہے، اور ان کی بات نہیں سننا چاہتا، دنیا کا ایک زرہ دیکھنے سے بھی تنگی محسوس کرتا ہے ، خلقت میں سے کچھ دیکھنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا ، ۔ شروع شروع میں اس کا دل حیران اور عقل غائب اور آنکھیں چڑھی رہتی ہیں، رحمت الہی کا ہاتھ اس کے دل – کے سر پر آ جانے تک حالت یہی رہتی ہے ۔ اس وقت اس پر ایک نشہ سا چھا جا تا ہے، پھر وہ ہمیشہ مست رہتا ہے، قرب الہی کی مہک اس کے دماغ میں پہنچتی ہے تب اسے افاقہ ہوتا ہے، اب وہ تو حید اور اخلاص اور معرفت الہی میں اپنے علم اور محبت کے ساتھ قرار پکڑ لیتا ہے ، اسے خلقت کی وسعت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے، اسے اللہ کی طرف سے قوت حاصل ہوتی ہے ، کسی مشقت کے بغیر مخلوق کا بوجھ اٹھا لیتا ہے ۔ ان کے قریب ہو جا تا ہے، انہیں چاہتا ہے، اس کا پورا شغل ان کی اصلاح وفلاح ہوتا ہے۔ اس کے باوجود) وہ اللہ کی طرف سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوتا، زاہد مبتدی آغاز میں خلق سے بھاگتا ہے ، جبکہ زاہد جو اپنے زہد میں کامل ہوان باتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا ، نہ ہی مخلوق سے گریز کرتا ہے، بلکہ ان کا طالب بنتا ہے ۔ کیونکہ وہ عارف باللہ ہو چکا ہوتا ہے، جسے اللہ کی پہچان ہو جاتی ہے وہ کسی شے سے نہیں ۔ بھا گتا، ۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ زاہد مبتدی بدکاروں اور نافرمانوں سے بھاگتا ہے، جبکہ انتہائی مقام والا زاہد انہیں طلب کرتا ہے، وہ انہیں کیوں نہ طلب کرے اس کے پاس ان کی پوری دوا ہے، اس لئے زاہدوں میں سے ایک بزرگ نے ارشادفرمایا: لا يضحك في وجه الفاسق إلا العارف

’’ فاسق کے چہرے پر عارف کے سوا کوئی نہیں ہنستا‘‘ جو اللہ کی معرفت میں کامل ہو جا تا ہے اللہ کی خبر دینے لگتا ہے، لوگوں کور استہ دکھانے لگتا ہے۔ وہ ایک جال ہے جو دنیا کے سمندر سے خلقت کو شکار کرتا ہے، اسے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا ۔ اسے ایسی قوت عطا ہوتی ہے کہ ابلیس کولشکر سمیت شکست فاش دے دیتا ہے اور مخلوق کو اس سے بچالیتا ہے ۔ اے زاہد بن کر جہالت کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے والے، آگے آ ، اور جو کچھ میں کہتا ہوں ، اسے سن !،  اے روئے زمین کے زاہدو! آ گے آ ؤ اور اپنے خلوت خانے ویران کر دو، اور مجھ سے قریب ہو جاؤ ، تم اپنی خلوت میں کسی اصل کے بغیر بیٹھے ہو، تمہیں کچھ نہیں ملا، آگے آؤ اور حکمت و دانائی کے ثمرات پاؤ ، اللہ تم پر رحم کرے تمہارا آنا میرے کسی نفع کے لئے نہیں ، بلکہ تمہارے ہی لئے ہے۔

حاجت روائی کے لئے محنت کرو، صنعت سیکھو

 اے بیٹا! تو ضرورت مند ہے، اپنی حاجت روائی کے لئے محنت کر و صنعت سیکھو، ہزار بار بناؤ اور ہزار بارتوڑ و تا کہ تو ایسی عمارت بنائے جو پھر نہ ٹوٹے، جب تو بنائے اور توڑنے میں فنا ہو جائے تو اللہ تعالی تیرے لئے ایسی عمارت بنائے گا جو کبھی نہ ٹوٹے گی۔

اللہ کے طالبوں کی جان ومال سے خدمت کرو:

 اے لوگو تمہیں کب سمجھ آئے گی ،اسے کب پاؤ گے جس کی طرف میں سیر کرتا ہوں ، اللہ کے طالبوں اور مریدوں کی تلاش کرو، جب وہ مل جائیں تو اپنی جانوں اور مالوں سے ان کی خدمت کرو، اللہ کے سچے مریدوں اور عاشقوں کے لئے خاص خوشبوئیں ہیں، اور خاص علامت ان کے چمکتے روشن چہرے ہیں ، تمہارے اندراور تمہارے دیکھنے میں نقص ہے ، اور سمجھ میں نقص ہے، اس میں بڑی آفتیں ہیں، تمہارے نزدیک: صدیق و زندیق، حلال و حرام زہروتریاق مخلص و منافق، تابع فرمان و نافرمان – طالب مولی اور طالب مخلوق مشرک ومتوحد،میں کوئی فرق نہیں ، علم رکھتے ہوئے عمل کرنے والے مشائخ کرام کی خدمت کروتا کر تمہیں سب چیزوں کی حقیقت کا عرفان کرا دیں اللہ کی معرفت کے حصول کی کوشش کرو، جب اسے پہچانو گے تو غیر کو بھی پہچان لو گے، پہلے معرفت حاصل کرو، پھر محبت کرو اگر دل کی آنکھوں سے نظر نہیں آ تا ہے تو دل کی آنکھوں سے دیکھو، نعمتیں جب اس کی طرف سے سمجھوگے تو ضرور اس سے محبت پیدا ہوگی ، نبی اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا : أَحِبُّوا ‌اللهَ ‌لِمَا ‌يَغْذُوكُمْ ‌مِنْ ‌نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللهِ اللہ سے محبت کرو کیونکہ تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے، اور مجھے چاہو کیونکہ اللہ تعالی مجھے چاہتا ہے۔

مانگے ،بن مانگے ملنے والی سب نعمتوں کا شکر ادا کرو

اے لوگو! اللہ تعالی نے تمہیں اپنی نعمتیں عطا فرمائیں جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، اور اس سے نکلنے کے بعد غذا عطا فرمائی ، پھر اس نے عافیت اور سب طرح کی قوت اور اطاعت عنایت فرمائی ، اپنی اطاعت تمہارے نصیب میں کی ، تمہیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کا پیروکار بنایا ، چنانچہ اس کا شکر ادا کرو اور محبت کرو ، جب تم نعمتوں کو اللہ تعالی کی طرف سے خیال کرو گے تو تمہارے دلوں سے مخلوق کی محبت جاتی رہے گی ، اللہ کا عارف اللہ کا محب اللہ کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھنے والا وہی شخص ہے جو نیکی اور بدی سب اسی کی طرف سے جانتا ہے، مخلوق میں سے جو اس سے بھلائی و برائی کرتا ہے، وہ اس کی طرف نہیں دیکھتا ۔مخلوق میں سے اگر کوئی اس سے بھلائی کرتا ہے تو اسے اللہ کی تسخیر سمجھے، اگر مخلوق میں سے کوئی اس سے برائی کرے تو اسے اللہ کی مسلط کردہ جانے ،  اس کی نظر ہمیشہ خلق سے نکل کر خالق پر پڑے ۔ اس کے باوجود وہ شرع کا پابند ہے ۔ کسی بھی حالت میں شرعی حکم ۔ کو ساقط نہ ہونے دے۔ عارف الہی کا دل ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف ہمیشہ منتقل ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ مخلوق سے بے رغبتی ، پھر انہیں چھوڑ دینا اور ان سے رخ پھیر لینا طاقت پکڑ جاتا ہے ، اللہ کی رغبت ہو جاتی ہے، اللہ کی ذات پر تو کل قوی ہو جا تا ہے ۔ خلقت سے لین دین کی عادت جاتی رہتی ہے ، جو کام خلقت سے حاصل ہوتا ہے، اسے اللہ کے ہاتھ سے جانتا ہے اس کی عقل جو مخلوق اور خالق میں مشترک ہے،مضبوط اور موکد ہو جاتی ہے، اور دوسری عقل بڑھادی جاتی ہے ۔ وہ خاص عقل اللہ کی طرف سے ہے (یعنی جز وی عقل سے کلی عقل بن جاتی ہے )۔

ڈر کہیں مخلوق کی محتاجی میں نہ موت آ جائے :

 اے خلقت کے محتاج! اے خلقت کے مشرک!  ڈر کہیں مخلوق کی محتاجی میں نہ موت آ جائے  ایسی حالت میں اللہ تیری روح کے لئے اپنا دروازہ نہ کھولے گا اور نہ اس کی طرف نظر رحمت ڈالے گا، کیونکہ جوغیر پر بھروسہ کرنے والاہو، اللہ ایسے مشرک سے سخت نالاں ہے، تجھے چاہیے کہ تو پہلے نفس سے الگ ہو جاء پھر خلق سے الگ ہو جاء پھر دنیا سے الگ ہوجا، – پھر آخرت سے جدا ہو جابالآ خر ماسوا اللہ سے الگ ہو جا۔

پھراگر چا ہو کہ مالک کے ساتھ خلوت ہو تو اپنے وجود اور اپنی تدا بیر اور اپنی بکواس کو دور کرو تجھ پر افسوس! تو اپنے خلوت خانہ میں بیٹھا ہے اور تیرا دل لوگوں کے گھروں میں ہے، ان کے آنے اور ان کے ہدیوں کا منتظر رہتا ہے تیری عمر بیکار گئی صورت سے بھی بے صورت رہ اپنے نفس کو کسی چیز کا اہل نہ سمجھ  یہاں تک کہ اللہ اسے اہل نہ بنادے۔ جب تک اللہ کی طرف سے اہلیت نہ آئے تم اور خلقت از خوداہلیت حاصل نہیں کر سکتے ۔ اللہ اگرتم سے کسی امر کا ارادہ کرے تو اس کے لئے تمہارے لئے سامان کر دیتا ہے۔ اگر تمہارا باطن صحیح نہ ہو اور قلب ماسوا اللہ سے خالی نہ ہو تو صرف خلوت تمہیں نفع نہیں دے سکتی۔

التجا ہے اللهم انفعني بما أقول والفعهم بما أقول ويستمعون – ” الہی جو کچھ میں کہتا ہوں اس سے مجھے نفع عطا فرما، اور انہیں بھی میری نصیحت سے نفع عطا فرما، اور وہ میری نصیحت ہوش سے سن کر قبول کر یں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں