تصوف میں آزمائشیں (باب اول)

تصوف میں آزمائشیں حکمت نمبر11

تصوف میں آزمائشیں کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر11 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

 حضرت ششتری رضی اللہ عنہ کا واقعہ :

حضرت ششتری عالم اور وزیر تھے ۔ اور ان کے والد بزرگوار امیر تھے ۔ جب انہوں نے تصوف کے طریقے میں داخل ہونا چاہا تو ان کے شیخ حضرت ابن سبعین نے ان سے فرمایا: تم کو اس طریقہ تصوف سے کچھ فیض اس وقت تک نہ ملے گا جب تک تم اس طرح عمل نہ کرو ۔ سارا سامان فروخت کر دو ۔ گدڑی پہن لو۔ اور ڈگڈگی ہاتھ میں لو۔ اور بازار میں جا کر بجاؤ ۔ پس انہوں نے ان سب پر عمل کیا۔ پھر انہوں نے شیخ سے دریافت کیا۔ بازار میں ڈگڈگی بجاتے ہوئے میں کیا کہوں؟ حضرت شیخ نے فرمایا تم یہ کہو بدات بذكر الحبيب میں نے دوست کے ذکر سے شروع کیا ۔ پھر وہ بازار میں گئے ۔ اور ڈگڈگی بجا کر یہی گانے لگے ۔ انہوں نے تین روز ایسا ہی کیا۔ اس تین روز میں ان کے کل حجابات دور ہو گئے ۔ تو اب وہ بازاروں میں علوم ذوق و معرفت کے اشعار لگانے لگے ۔ ان کے کلام میں سے چند اشعار یہ ہیں:۔
شُويْخٌ مِنْ أَرْضِ مكناس في وَسَطِ الأَسْوَاقِ يغنى
آش عَلَيَّ مِنَ النَّاسِ وَآشَ عَلَى النَّاسِ مِنى
مکناس کی سرزمین کا رہنے والا ایک حقیر بوڑھا۔ بازاروں کے بیچ میں گا رہا ہے۔ کیا میرے اوپر لوگوں کا کچھ ہے۔ اور کیا لوگوں پرمیراکچھ ہے ۔
إِش حَدٌ من حد افْهَمُوا ذِي الْإِشَارَةِ
وَانْظُرُوا كِبْرَسِنِي وَالْعَصَا وَالْغَرَارَةِ
کیا حد کی کوئی حد ہے۔ اشارہ والے کو سمجھو۔ میرے بڑھاپے اورعصا اور بور یہ کو دیکھو۔
فَهَكَذَا عِشْتُ بفَاسِ وكد هان هوني
اش عَلَى مِنَ النَّاسِ وَاشَ عَلَى النَّاسِ مِنِّي
پس اسی طرح میں نے فاس میں زندگی گزاری۔ اور عاجزی نے مجھ کو آرام دیا۔ کیا میرے اوپر لوگوں کا کچھ ہے۔ اور کیا لوگوں پر میرا کچھ ہے۔
وَمَا أَحْسَنَ كَلَامه إِذَا يَخْطُرُ فِي الْأَسْوَاقِ
وَتَرى أَهْلَ الْحَوَانِت تَلْتَفِتُ لو بِالْأَعْنَاقِ
اس کا کلام کہنا بہترین ہوتا ہے۔ جب دو بازاروں میں گزرتا ہے۔ اور تو دکانداروں کو دیکھتا ہے کہ گردن اٹھا کر اس کے کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
بِالْغَرَارَةٍ فِي عُنقو يعكيكزوبغراف
گردن میں بور یہ پہنے ہوئے ۔ ہاتھ میں ٹیڑھاعصا اور کشکول لئے ہوئے
شَّيْخُ بَيْنِي عَلَى سَاسٍ كَانشاَء اللہ یبنی
آش عَلَى مِنَ النَّاسِ وَاش عَلَى النَّاسِ مِنِّي
شیخ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق بنیاد سے بناتا ہے۔ کیا میرے اوپر لوگوں کا کچھ ہے۔ اور کیا میرے اوپر لوگوں کا کچھ ہے۔

تیس سال کی صحبت بے اثر

اسی طرح اس شخص کا واقعہ ہے۔ جو حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صحبت میں تیس سال رہا۔ وہ ان کی صحبت اور مجلس سے بھی جد انہیں ہوتا تھا۔ ایک روز اس نے حضرت بایزید سے عرض کیا ۔ یا حضرت! میں عرصہ تیس سال سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ اوردن میں روزہ رکھتا ہوں اور رات نماز میں گزار تاہوں۔ اور میں نے تمام خواہشات کو ترک کر دیا ہے۔ لیکن معرفت اور حقیقت کے جو احوال آپ ہمیشہ بیان فرماتے ہیں۔ میں ان میں سے کچھ بھی اپنے قلب میں نہیں پاتا ہوں ۔ حالانکہ میں آپ کی ہر بات پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ حضرت بایزید نے اس سے فرمایا: اگر تم تین سو سال تک نمازیں پڑھو، اور میں تم کو جو جس حال میں دیکھتا ہوں اسی حال پر قائم رہو۔ تب بھی تم ان حالات اور کیفیات میں سے ایک ذرہ بھی نہ پاؤ گے ۔ اس نے عرض کیا: یا حضرت ایسا کیوں؟ حضرت بایزید نے جواب دیا اس لئے کہ تم اپنے نفس کے ساتھ محجوب ہو اس نے عرض کیا، کیا اس کے لئے کوئی ایسی دوا ہے جس سے یہ حجاب دور ہو جائے ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں، ہے لیکن تم اس کو قبول نہ کرو گے۔ نہ اس پر عمل کرو گے ۔ اس نے عرض کیا ۔ آپ جو کچھ فرما ئیں گے میں اس کو ضرور قبول کروں گا ۔ اور اس پر عمل کروں گا ۔ حضرت بایزید نے اس کو حکم دیا۔ تم اس وقت حجام کے پاس جاؤ اور اپنے سر اور داڑھی ( یہ تو حرام ہے ) کو منڈوا دو۔ اور یہ لباس اتار دو۔ اور ایک عبا پہن لو۔ اور اپنے گلے میں ایک توبڑا لٹکالو۔ اس تو بڑے میں اخروٹ بھر لو۔ پھر اپنے گرد لڑکوں کو جمع کر لو۔ اور بلند آواز سے کہو: اے لڑکو! جو میری گردن پر ایک گھونسہ مارے گا۔ میں اس کو ایک اخروٹ دوں گا۔ اور اسی حال میں تم اس بازار میں جاؤ جہاں تمہاری عزت و تعظیم کی جاتی ہے۔ تا کہ تمہیں پہچاننے والے اور تمہاری عزت کرنے والے لوگ تمہاری یہ حال دیکھیں۔ یہ سن کر اس نے جواب دیا:۔ اے بایزید! سبحان اللہ ، آپ مجھ جیسے آدمی سے ایسی باتیں کہتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس قسم کے کام کروں گا؟ حضرت نے فرمایا: تمہارا سبحان اللہ کہنا شرک ہے۔ اس نے دریافت کیا: شرک کیسے ؟ حضرت بایزید نے فرمایا اس لئے کہ تم نے اپنے نفس کو بڑا اور بزرگ سمجھا۔ اور اس کی تسبیح کی۔ اس نے کہا اے بایزید! جیسا آپ نے فرمایا ایسا کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔ اس لئے میں ایسا ہرگز نہ کروں گا۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ بتائیے جو میں کر سکوں ۔ حضرت بایزید نے فرمایا: تم کو سب سے پہلے اسی طریقے پر عمل کرنا ہوگا ۔ تا کہ تمہارا مرتبہ گر جائے ۔ اور تمہارا نفس ذلیل ہو جائے ۔ پھر اس کے بعد تمہارے لئے جو طریقہ مناسب ہوگا وہ میں تم کو بتاؤں گا۔ اس نے کہا میں اس طریقے پر عمل نہ کر سکوں گا۔ حضرت نے فرمایا: تم نے کہا تھا کہ میں قبول کروں گا اور عمل کروں گا ۔ اور میں یہ جانتا ہوں کہ جب تک نفس فنانہ ہو جائے۔ اور عوام کی عادات (بشری صفات ) ترک نہ ہو جائیں ۔ اس وقت تک کسی بندے کے اندر اسرار غیبی کے حجابات دور کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور جب نفس فنا ہو جاتا ہے اور کل بشری عادات ترک ہو جاتی ہیں ۔ اس وقت فوائد کا ظہور ہوتا ہے۔
اسی طرح حضرت ابو عمران بردعی کا واقعہ ہے: ان کو ان کے شیخ حضرت ابوعبداللہ تا ؤ دی نے فاس میں حکم دیا تھا۔ سر منڈاؤ، عبا پہنو اور روٹیاں اٹھاؤ اور آواز دیتے ہوئے پھرو۔ کون مجھے آزاد کرتاہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت شیخ کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا۔ اسی طرح ہمارے شیخ الشیوخ سیدی حضرت عبدالرحمن مجذوب کا واقعہ ہے لوگوں کے درختوں سے انجیر کھانا، بازاروں میں گاتے ہوئے پھر نا محل کو بر بادکر دینا وغیرہ۔ وہ بار ہا بازاروں میں گاتے ہوئے پھرے۔ اسی طرح حضرت سیدی علی عمرانی کا واقعہ ہے:۔ ان کے خراب اشیاء اختیار کرنے کے واقعات فاس میں اس طرح مشہور ہیں۔ جیسے پہاڑ پر لگی ہوئی آگ ۔ وہ پست اور حقیر جگہوں میں رہتے تھے اور اسی حال میں انتقال فرما گئے۔ رضی اللہ عنہ ۔
اسی طرح ہمارے شیخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ وہ بور یہ پہنتے تھے۔ اور مشکیزہ میں پانی بھر کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ دوسرے حالات جو مشہور ہیں ۔ پس یہ حکایتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ گمنامی وہ نہیں ہے جو عوام سمجھتے ہیں ۔ جیسے گھروں میں بیٹھنا، اور پہاڑ میں جا کر رہنا۔ محققین کے نزدیک یہ خالص شہرت ہے۔ بلکہ گمنامی وہ ہے جو حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ نفس کا اس کے کمترین وصف کے ساتھ پایا جاتا، اور نفس کو اس وصف کا ہمیشہ احساس و شعور ہونا ہے۔ اور نفس کا کمترین وصف اس کی ذلت اور رسوائی ہے اور جوشے بھی نفس پر گراں گزرتی ہے وہ تواضع پیدا کرتی ہے۔ اور تواضع کا فائدہ، عمل حاصل کرنا اور حقیقت کا کمال اگر تم یہ اعتراض کرو کہ ان احوال سے عوام کے نکتہ چینی اور غیبت میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ تو میرا جواب یہ ہو گا : کہ اس کی بنیاد نیت اور ارادے پر ہے۔ جس شخص نے بھی مذکورہ بالا خراب احوال میں سے کسی حال کو اختیار کیا ہے۔ اس نے اپنے نفس کو فنا کرنے ، اور اخلاص پیدا کرنے ، اور اپنے قلب کا علاج کرنے کی نیت سے اس کو اختیار کیا ہے ۔ اور صوفیائے کرام اپنے اوپر نکتہ چینی اور اعتراض کرنے والوں سے ہمیشہ چشم پوشی کرتے اور ان کو معذور سمجھتے ہیں ۔ سیدی علی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے:۔ ہم ان لوگوں کو معذ درسمجھتے ہیں۔ جنہوں نے ہم کو معذور سمجھا۔ اور ان لوگوں کو بھی معذ در رکھتے ہیں ۔ جنہوں نے ہم کو معذور نہیں سمجھا۔ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے اپنے قواعد میں فرمایا ہے:۔
(قاعدہ) : فقہ کا حکم معلوم کے ساتھ عام ہے۔ اس لئے کہ اس کا مقصد دین کے طریقے کا قائم کرنا، اور اس کے مینارے کا بلند کرنا، اور اس کے کلموں کا واضح کرنا ہے۔ اور تصوف کا حکم خصوصیت کے ساتھ خالص ہے۔ اس لئے کہ وہ بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان معاملہ ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فقیہ کا صوفی پر اعتراض کرنا صحیح ہے۔ اور صوفی کا اعتراض فقیہ پر صحیح نہیں ہے۔ اور احکام میں صوفی کا فقہ کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔ حقائق میں نہیں ۔
تنبیہ۔ یہ دوا ئیں جو ہم نے بیان کی ہیں۔ مرض کی حالت کے لئے ہے۔ لیکن جس شخص کو شفاء حاصل ہو گئی اور اس کی فنا مکمل ہو چکی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہے۔ اس کے لئے پوشیدہ کرنا اور ظاہر کرنا برابر ہے۔ حضرت ابوالعباس مرسی نے فرمایا ہے:۔ جو شخص شہرت چاہتا ہے۔ وہ شہرت کا بندہ ہے اورجو پوشیدگی چاہتا ہے وہ پوشیدگی کا بندہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندے کے لئے ظاہر کرنا اور پوشید ہ کرنا برابر ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں