جلال ظاہرجمال کو پوشیدہ رکھنا (پندرھواں باب)

جلال ظاہ جمال کو پوشیدہ رکھنا کے عنوان سے پندرھویں باب میں  حکمت نمبر 145 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تو جب تم جلال کو ظاہر کرو اور جمال کو پوشیدہ کرو۔ پھر اللہ بزرگ و برتر تمہاری تعریف ایسے وصف کے ساتھ ظاہر فرمائے، جس کے تم اہل نہیں ہو۔ تو تم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اس طریقے پر کرو۔ جس کا وہ مستحق ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے:۔
145) إِذَا أَطْلَقَ الثَّنَاءَ عَلَيْكَ وَلَسْتَ بِأَهْلٍ فَأَثْنِ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ
جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدح و ثنا جاری فرمائے اور تم اس کے اہل (مستحق) نہیں ہو ۔ تو تم اس کی حمد و ثنا اس شے کے ساتھ کرو جس کا وہ مستحق ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی زبان پر تمہاری تعریف اس وصف کے ساتھ جاری فرمائے ، جس کو تم اپنے نفس ( اختیار وقوت )سے نہیں سمجھتے ہو ۔ اور تم اس کے اہل نہیں ہو۔ تو تم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اس طریقے پر کرو۔ جس کا وہ مستحق ہے۔ یعنی اس تعظیم کے ساتھ جس کا وہ مستحق ہے۔ تا کہ یہ تمہاری تعریف میں مخلوق کی زبان جاری کرنے کی نعمت کا شکر ہو جائے ۔ اور نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے عیوب کو مخلوق سے چھپایا اور تمہاری خوبیاں ان کے سامنے ظاہرکیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کا ایک ذرہ بھی انکے سامنے ظاہر کر دیتا ہے۔ تو وہ تم سے نفرت کرتے اور تمہارے دشمن ہو جاتے۔
پس بیشک بندہ نقائص (عیوب) کا مقام ہے۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کمالات کا مقام ہے۔ لہذا جو کمال بھی تمہارے اندر ظاہر ہوا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے کمالات سے ٹپکا ہوا ہے۔ لہذا سب حمد و ثنافی الحقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ تو جب وہ تمہار ے اوپر
واقع ہو ( یعنی تمہاری تعریف ہونے لگے ) تو تم اس کو اس کی اصل طرف واپس کر دو ۔ اور تعریف در حقیقت اپنی اصل ہی میں واقع ہوئی ہے۔ لیکن چونکہ ارادہ مختلف ہو گیا۔ لہذا حکم بھی مختلف ہو گیا۔
سادات میں سے کسی کی تعریف کی گئی۔ لیکن وہ خاموش تھے ۔ تو ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو انہوں نے جواب دیا :- اس تعریف میں سے میرے اندر کچھ نہیں ہے اور میں اپنے نفس کے بارے میں زیادہ سخت نہیں ہوں ۔ بلکہ درمیانی حالت میں بھی نہیں ہوں ۔ اور جاری ہونے اور پیدا ہونے کا سبب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ جمع کے مرتبہ والوں کی حالت ہے۔ اور بعض سادات فرق کو استعمال کرتے تھے۔ جب وہ اپنی تعریف سنتے تھے۔ تو اپنی خلوت میں اپنے سر پرمٹی ڈالتے تھے۔
پس تعریف اور برائی کی حالت کے اعتبار سے آدمیوں کی تین قسمیں ہیں :- پہلی قسم : وہ لوگ ہیں جو تعریف سے خوش ہوتے ہیں۔ اور برائی کو نا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نفوس ان کے اوپر غالب ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں ہے ۔ کہ نفوس عزت اور بلندی سے خوش ہوتے ہیں اور ندامت اور ذلت سےنا خوش ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ غافل عوام ہیں۔
دوسری قسم :۔ وہ لوگ ہیں۔ جو مدح و ثنا کو نا پسند کرتے ہیں۔ اور مذمت کو پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے نفوس کے مجاہدہ میں مشغول ہیں ۔ اس لئے جوشے بھی نفس کو تکلیف دیتی اور اس کو قتل کرتی ہے۔ یہ لوگ اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ اور جوشے نفس کو زندہ کرتی اور طاقت پہنچاتی ہے۔اس سے بھاگتے ہیں اور یہ لوگ عابدین اور زاہدین اور مریدین میں سے سائرین ہیں۔
تیسری قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو مدح و ثنا سے اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ وہ اس کو اپنے مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیکھتے ہیں۔ اور مذمت کو نا گوار سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کو اپنے دوست اللہ تعالیٰ کا جلال سمجھتے ہیں۔ اور یہ لوگ عارفین ہیں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں