حجاب حکمت کا ہٹنا (بارھواں باب)

حجاب حکمت کا ہٹنا کے عنوان سے بارھویں باب میں  حکمت نمبر 116 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور ان کے اوپر سے حکمت کے حجاب کو جو اس کی صفات کا اثر ہے، ہٹا دے گا۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:
116) أَمَرَكَ في هذِهِ الدّارِ بِالنَّظَرِ في مُكَوَّناتِهِ، وَسَيَكْشِفْ لَكَ في تِلَكَ الدّارِ عَنْ كَمالِ ذاتِهِ.
اللہ تعالی نے اس دنیائے فانی میں تم کو اپنی مخلوقات میں نظر کرنے کا حکم دیا ہے اور عنقریب آخرت میں تمہارے سامنے اپنی ذات کے کمالات میں سے کچھ ظاہر فرمائے گا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی میں تم کو یہ حکم دیا ہے کہ تم اس کی مخلوقات کے واسطہ سے اس کی طرف نظر کرو۔ اس لئے کہ تم اپنی خلقت کی کمزوری کی بناء پر اس کی مقدس ذات کی حقیقت کی طرف ، اصلی جبروت کی عظمت میں بغیر واسطہ کے نظر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہو۔
اگر چہ یہ عقل کی رو سے جائز ہے۔ اسی لئے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ذات الہی کا دیدار طلب کیا۔ لیکن حکیم مطلق کی حکمت کا تقاضاء الوہیت کی پاکیزگی کے انوار سے ربوبیت کے اسرار کو چھپانا تھا۔ اس کے لئے حسینوں کے لئے نقاب ، اور سورج کے لئے بدلی ضروری ہے ۔ اور اگر وہ کبریائی کی چادر کے بغیر ظاہر ہوتا۔ تو ادر اک واقع ہوتا۔ (یعنی حاصل ہو جاتا ) اور پھر ترقی باقی نہ رہتی۔ کیونکہ اس مقدس ذات کے اسرار میں ترقی صرف صفات کے انوار کی طرف نظر کرنے سے ہے ۔ اور وہ دونوں جہان میں بھی ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ پس ذات بغیر مظہر کے مطلق پائی نہیں جاسکتی ہے ۔ کیونکہ حقیقت ، ظاہر کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ اہل حقیقت میں سے اہل تحقیق کا یہی مسلک ہے۔
تو اگر تم یہ اعتراض کرو:۔ کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے دنیا اور آخرت کے اعتبار سے دونوں رویوں کے درمیان کس طرح فرق کیا ہے۔ جب کہ تحقیق یہ ہے کہ رویت ایک ہے۔ اس لئے کہ مظہر متحد ہے؟
تو جواب یہ ہے : ۔ چونکہ اس دنیائے فانی کے مظہر میں حس یعنی ظاہر باطن پر غالب ہے ۔۔ اور حکمت ظاہر ہے۔ اور قدرت باطن ہے۔ اور آخرت کا مظہر اس کے برعکس ہے۔ وہاں حقیقت ظاہر پر غالب ہے۔ اور قدرت ظاہر ہے۔ اس لئے وہاں ذات کی حقیقت اس سے زیادہ ظاہر ہوگی جتنی یہاں ہے ۔ اس مفہوم سے دونوں روایتوں کے درمیان فرق واقع ہوا ہے۔ اس کی مثال : حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ جو انہوں نے اپنے حزب کبیر میں فرمایا ہے:۔ دنیا کی عزت، ایمان اور معرفت سے ہے۔ اور آخرت کی عزت ، ملاقات اور مشاہدہ سے ہے ۔ یہ خواص کے اعتبار سے ہے۔ لیکن عوام : تو وہ ظاہر کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں ۔ دنیا میں بھی ۔ اور آخرت میں بھی ۔
لیکن وہ رؤیت (دیدار ) جو ان کو جنت میں حاصل ہوگی۔ تو احتمال یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے انوار قدس میں سے کوئی نوران کے سامنے ظاہر کر دے۔ اور اس میں ان کو اپنی معرفت کا الہام فرما دے۔ یہ حدیث شریف کا ظاہری مفہوم ہے۔ یا یہ کہ اس وقت ان کو ان کے ظاہر سے فنا کر دے۔ یہاں تک کہ وہ ذات کی حقیقت کا مشاہدہ کر لیں ۔ اور اس کے دیدار کا لطف حاصل کر لیں ۔ اور پھر ان کو ان کے ظاہر کی طرف لوٹا دے
حاصل یہ ہے: ۔ کہ ذات کی تجلی دو قسم کی ہے۔
ایک قسم یہ ہے کہ وہ کثیف واسطوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کا ظاہر حکمت ہے، اور ان کا باطن نور ہے۔ ان کا ظاہر حکمت ہے ، اور ان کا باطن قدرت ہے ۔ ان کا ظاہر حس ہے، اور ان کا باطن حقیقت ہے۔ اور یہ تجلی اس دنیائے فانی میں ظاہر ہوتی ہے۔
دوسری قسم: یہ ہے کہ وہ لطیف اور نورانی واسطوں سے ظاہر ہوتی ہے ۔ ان کا ظاہر بھی نور ہے۔ اور ان کا باطن بھی نور ہے۔ انکا ظاہر قدرت، اور ان کا باطن حکمت ہے۔ انکا ظاہر حقیقت ، اوران کا باطن حس ہے۔ اور یہ آخرت میں ظاہر ہوگی۔
پس عارفین:۔ چونکہ ان کو اس دنیائے فانی میں شہود، اور معرفت حاصل ہو چکی ہے۔ اور آخرت میں حور و قصور ان کو اللہ تعالی سے حجاب میں نہیں کر سکیں گے۔ بلکہ وہ ہمیشہ مشاہدہ اور سرور، اور تازگی اور خوشی میں ہوں گے۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ چونکہ اللہ تعالی نے ان کو یہاں اس دنیا میں اپنی معرفت عطا فرمائی ہے تو وہاں آخرت میں ان کو محجوب نہ فرمائے گا۔
آدمی اسی حال پر مرتا ہے، جس حال پر اس نے زندگی گزاری ہے اور جس حال پر وہ مرا ہے، اسی حال پر اٹھایا جائے گا۔ بخلاف عوام کے: تو ان لوگوں کا یہ حال ہے ۔ چونکہ اللہ تعالی نے اپنے نفس کے مشاہدہ کے باعث ان کو اس دنیا میں اپنے مشاہدہ سے محجوب کر دیا ہے۔ تو وہ آخرت میں بھی اپنے معبود حقیقی کے دیدار سے محجوب ہوں گے ۔ مگر ایک مخصوص وقت میں مخصوص طریقے پر ۔
اس لئے حضرت ابن عربی حاتمی نے امام رازی کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں ان سے فرمایا تم میرے پاس آ جاؤ۔ میں آج تم کو تمہاری موت سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پہچا ن کروادوں ۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے تو وہ پہچانتے نہیں ہیں اور انکار کر دیتے ہیں۔
حضرت شیخ ابو محمدعبد القادر جیلانی سے ایک ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو یہ دعوی کرتا تھا وہ اللہ تعالی کو اپنے بصر کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ تو حضرت نے اس کو طلب فرمایا ۔ اور اس سے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ تو اس نے کہاہاں میں اللہ تعالیٰ کو اپنے بصر کی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔ تو حضرت نے اس کو ڈانٹنا۔ اور اس بات سے اس کو منع کیا۔ پھر حضرت شیخ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: کیا وہ سچ کہتا ہے ۔ یا جھوٹ کہتا ہے؟ حضرت نے فرمایا وہ صحیح کہتا ہے۔ مگر شہبہ میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اس نے جمال کے نور کا مشاہدہ اپنی بصیرت کی آنکھ سے کیا۔ پھر وہ نور اس کی بصیرت میں قائم ہو کر اس کے بصر کی طرف نافذ ہوا۔ تو اس کے بصر نے اس کی بصیرت کو دیکھا ۔ اور اس کی بصیرت کی شعاع، اللہ تعالی کے مشاہدہ کے نور سے متصل رہتی ہے۔ (یعنی ہمیشہ مشاہدہ میں رہتی ہے ) تو جس کو اس کی بصیرت کی آنکھ نے دیکھا ہے اس کو اس نے یہ خیال کیا۔ کہ اس کے بصر کی آنکھ نے دیکھا ہے۔ حالانکہ اس کے بصر نے اس کی بصیرت کو دیکھاہے۔
حاصل یہ ہے:۔ اس کے بصر کی آنکھ، اس کی بصیرت کی آنکھ میں منعکس ہوئی۔ (یعنی بصیرت کا عکس بصر پر پڑا) تو اس نے اللہ تعالی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھا۔ لیکن سمجھا یہ کہ اس نے اللہ تعالی کو اپنے بصر کی آنکھ سے دیکھا۔
اور اس کا مفہوم یہ ہے: روح جب تک بشریت کے ساتھ محجوب رہتی ہے۔ تو نظر صرف ظاہری آنکھ کے لئے ہوتی ہے۔ تو وہ ظاہر کے سوا کچھ نہیں دیکھتی ہے۔ پھر جب روحانیت بشریت پر غالب ہو جاتی ہے۔ تو بصر کی نظر پر بصیرت کا عکس پڑتا ہے۔ تو جن حقیقتوں کو بصیرت کی نظر دیکھتی ہے ان کو بصر کی نظر بھی دیکھتی ہے۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ کے حسب ذیل کلام کا یہی مفہوم ہے:۔
غَيِّبتُ نَظَرِى فِي نَظَرْ وَأُفْنِيتُ عَنْ كُلِّ فَاني
میں نے اپنے بصر کی نظر کو بصیرت کی نظر میں غائب کر دیا ہے ۔ اور ہر فانی شے سے میں فنا ہو گیا ہوں ۔
حقَّقْتُ مَا وَجَدْتُ غير وَأَمْسَيْتُ في الحَالِ هَانى
میں نے جو کچھ پایا۔ اس کی حقیقت کو میں نے سمجھ لیا۔ سب غیر ثابت ہوئے ۔ اور اب میں مطمئن اور پر سکون ہوں ۔ اللہ تعالی اعلم


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں