حسن ظن عیوب نہ بھولے (پندرھواں باب)

حسن ظن عیوب نہ بھولے کے عنوان سے پندرھویں باب میں  حکمت نمبر 144 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اگر کسی ایسے وصف اور عمل کے ساتھ اس کی تعریف کی جائے جو اس کے اندر نہیں ہے اور وہ اس سے دھوکے میں مبتلا ہو جائے۔ تو وہ اپنے رب اللہ تعالیٰ سے جاہل ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے :۔
144) أجْهَلُ النّاسِ مَنْ تَرَكَ يَقينَ ما عِنْدَهُ لِظَنِّ ما عِنْدَ النّاسِ.
سب آدمیوں سے زیادہ جاہل وہ شخص ہے۔ جو لوگوں کے حسن ظن کی بنا پر ، اپنے پاس موجود چیز کے یقین کو ترک کر دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:- اپنے پاس موجود کا یقین :- وہ اپنی برائیوں اور اپنے پوشیدہ عیوب اور اپنی ان باطنی خامیوں اور خطاؤں پر ، جو اس سے چھپی ہوئی ہیں ، اس کا علم ہے۔
اور لوگوں کا حسن ظن : وہ ہے جو وہ کمالات اور طاعتوں کے انوار اس کے ظاہر میں دیکھتے ہیں۔ اگر چہ ان طاعتوں میں باطنی خرابیاں اور نفسانی فوائد شامل ہیں۔ تو وہ مدح و ثنا کرتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ تو اگر اس نے اسی پر قناعت کر لیا اور اسی سے خوش ہو گیا ۔ جو اس کے پاس ہے۔ تو وہ آدمیوں میں زیادہ جاہل اور احمق ہے۔ کیونکہ اس نے مخلوق کے علم پر قناعت کیا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا خوف نہیں کیا اور فقیر کی ذات سے اس کے بر عکس مطلوب ہے۔
فقیر سے مطلوب:- یہ ہے کہ تعریف سے اس کو ناگواری محسوس ہو۔ اور برائی سن کر وہ خوش ہو۔ یہاں تک کہ اس کے نزدیک مدح و ثنا اور عیب جوئی و بد گوئی دونوں برابر ہوں۔ اور یہ اس وقت ہے۔ جبکہ تعریف کرنے والا دیندار اور پرہیز گار ہو لیکن اگر تعریف کرنے والا جاہل یا فاسق ہو۔ تو ان لوگوں کی تعریف کو پسند کرنے اور اس خوش ہونے سے بڑھ کر کوئی جہالت اور ناسمجھی نہیں ہے۔
حکیموں میں سے ایک حکیم کے متعلق یہ روایت کی گئی ہے۔ عوام میں سے کسی نے ان کی تعریف کی۔ تو وہ رونے لگے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان سے کہا آپ کیوں رورہے ہیں۔ اس نے تو آپ کی تعریف کی ہے ؟ حکیم نے اس شاگرد سے فرمایا ۔ اس نے میری تعریف اس جہت کی ہے کہ میری کوئی عادت اس کی عادت سے موافق ہو گئی ہے۔ یعنی اس کی کوئی بری عادت میرے اندر پیدا ہوتی ہے ) اس لئے میں رورہا ہوں۔
حضرت یحی بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔برے لوگوں کی تعریف تمہارے لئے ذلت ہے۔ اور تم سے ان کی محبت تمہارے لئے عیب ہے۔ کسی حکیم سے کہا گیا۔ عوام تمہاری تعریف کرتے ہیں۔ تو حکیم نے اس سے نفرت ظاہر کی اور کہا:۔ شاید ان لوگوں نے میرے اندر کوئی ایسی صفت دیکھی ہے۔ جو ان کو پسند آئی ہے۔ اور اس صفت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ جو ان لوگوں کو پسند ہو اور مجھ کو بر ا بنادے۔
لہذا فقیر کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنی ان خوبیوں اور اعمال کو چھپائے جن سے اس کی تعریف کی جائے اور جاند اعمال میں سے ایسا عمل ظاہر کرے۔ جس کی وجہ سے وہ عوام کی نظروں سے گر جائے۔ جیسا کہ گمنامی کے باب میں گزر چکا ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائی عربی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ فقیر کے لئے مناسب یہ ہے کہ اس کی شہرت ، اس کے قدم ( عمل ) سے زیادہ نہ ہو۔ بلکہ اس کا عمل ، اس کی شہرت سے زیادہ اور اس کا مرتبہ اس کے دعوے سے بڑا ہونا چاہیئے ۔ پس فقیر کو ظاہر میں جلالی اور باطن میں جمالی ہونا چاہیئے ۔ لہذا جس قدر جلال تم اپنے ظاہر پر ظاہر کرو گے؟ اس قدر جمال تمہارے باطن میں داخل ہوگا۔ اور جتنا جمال تم اپنے ظاہر پر ظاہر کرو گے ، اتنا جلال تمہارے باطن میں داخل ہوگا۔ اس لئے ظاہر کا آراستہ کرنا باطن کو خراب کرتا ہے۔ اور ظاہر کی خرابی باطن کو آراستہ کرتی ہے۔ تو جتنا تم ظاہر کو خراب کرو گے ، اتناہی باطن آراستہ ہو گا۔ اور جتنا تم ظاہر کو
آراستہ کرو گے، اتنا ہی باطن خراب ہوگا۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب کواللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ۔ انہوں نے جاہلوں کی شان میں بہت خوب فرمایا ہے:۔
اتَّفَقُوْ عَلَى الدِّينِ تَرَكُوهُ تَعَانَدُوا فِي الْمَالِ وَالْكَسَاوِي
ان لوگوں نے دین کو متفق ہو کر چھوڑ دیا۔ لیکن مال اور لباسوں میں ایک دوسرے کی مخالفت کی۔
الثَّوبُ مِنْ فَوْقٍ غَسَلُوهُ وَ عَلُوا الْقَلْبَ عَاوِي
انہوں نے کپڑے کو اوپر سے دھویا۔ اور قلب کو خالی چھوڑ دیا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں