حضور قلب اور ذکر (باب پنجم)

حضور قلب اور ذکرحکمت نمبر47

حضور قلب اور ذکر کے عنوان سے  باب  پنجم میں  حکمت نمبر47 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور مرید جن اعمال کے ذریعہ مقامات کو طے کرتا ہے ان میں سب سے افضل اور اقرب ہے اس لئے اس کا بیان اس کے اثر کے ساتھ کیا۔ پس فرمایا:
47) لا تَتْرُكِ الذِّكْرَ لِعَدَمِ حُضورِكَ مَعَ اللهِ فيهِ ، لِأَنَّ غَفْلَتَكَ عَنْ وُجودِ ذِكْرهِ أَشَدُّ مِنْ غَفْلتِكَ في وُجودِ ذِكْرِهِ. فَعَسى أَنْ يَرْفَعَكَ مِنْ ذِكْرٍ مَعَ وُجودِ غَفْلةٍ إلى ذِكْرٍ مَعَ وُجودِ يَقَظَةٍ، وَمِنْ ذِكِرٍ مَعَ وُجودِ يَقَظَةٍ إلى ذِكِرٍ مَعَ وُجودِ حُضورٍ، وَمِنْ ذِكِرٍ مَعَ وُجودِ حُضورٍ إلى ذِكِرٍ مَعَ وُجودِ غَيْبَةٍ عَمّا سِوَى المَذْكورِ، {وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ}.
ذکر اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور قلب نہ ہونے کی وجہ سے ذکرکوترک نہ کرو اس لئے کہ ذکر کرنے سے تمہاری غفلت ذکر کرنے کی حالت میں تمہاری غفلت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو غفلت کے ساتھ ذکر کے درجے سے نکال کر بیداری کیساتھ ذکر کے درجہ میں پہنچادے۔اور پھر بیداری والے ذکر کے مقام سے اٹھا کر حضور کے ساتھ ذکر کے مقام میں پہنچا دے اور یہ اللہ تعالیٰ کیلئے کچھ دشوار نہیں ہے ۔

افضل ترین عمل

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اہل تصوف سے طریقے میں ذکر : ایک بڑا اور مضبوط رکن ہے اور تمام اعمال سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَاذْكُرُونِي اذْكُرُكُمْ تم میراذ کر کر و میں تمہارا ذکر کروں گا۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًااے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کرو ۔
اور ذکر کثیر یہ ہے کہ اس کو کبھی نہ بھولے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے جو عبادت اللہ تعالیٰ نے فرض کی اس کیلئے ایک مخصوص وقت مقرر کیا اور ان کے وقتوں کے علاوہ دوسرے وقت میں بندوں کو معذور رکھا لیکن ذکر کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی وقت مخصوص مقرر نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ
جب تم نماز پوری کر چکو تو کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے لیٹے ہوئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔

مجھے جامع اور مختصر نصیحت فرمائیے

حضرت رسول کریم ﷺ سے ایک شخص نے کہا
یا رَسُولَ اللَّهِ كَثُرَتْ عَلَى شَعَائِرُ الْإِسْلَامِ فَأَوُصِنِي بِأَمْرٍ أَدْرَكَ بِهِ مَا فَاتَنِي وَأَوْجِزُ فَقَالَ: لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا بِذِكْرٍ اللہ
یا رسول اللہ ! اسلام کے شعائر میرے اوپر زیادہ ہو گئے ہیں ۔ مجھ کوکسی ایسی چیز کی وصیت فرما ئیے جومختصر ہو اور میں اس کے ذریعہ اپنے فوت شدہ اعمال کو پالوں (یعنی فوت شدہ اعمال کی تلافی ہو جائے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔ ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھو۔
اور آنحضرت علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ رَجُلًا ‌فِي ‌حِجْرِهِ ‌دَرَاهِمُ يُقَسِّمُهَا، وَآخَرُ يُذْكَرُ اللَّهَ، كَانَ الذَّاكِرُ لِلَّهِ أَفْضَلُ
اگر کسی شخص کے پہلو میں بہت سے درہم ہوں اور وہ ان کو تقسیم کرے اور دوسرا شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا افضل ہے
نیز آنحضرت ﷺ نے فرمایا: أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، قَالَ مَكِّيٌّ: وَأَزْكَاهَا، عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ إِعْطَاءِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ، فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا ‌أَعْنَاقَكُمْ قَالُوا: وَذَلِكَ مَا ‌هُوَ ‌يَا ‌رَسُولَ ‌اللَّهِ؟ قَالَ: ذِكْرُ اللَّهِ عز وجل
کیا میں تم لوگوں کو تمہارے بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے بہترین اور سب سے زیادہ پاکیزہ عمل اور تمہارے درجوں میں سب سے زیادہ بلند عمل ، اور سونا اور چاندی خیرات کرنے سے تمہارے لئے بہتر عمل اور دشمن سے مقابلہ کرنے اور ان کے قتل کرنے اور تمہارے شہید ہونے سے زیادہ افضل عمل کی خبر نہ دوں اصحاب کرام نے دریافت کیا یا رسول اللہ وہ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

قریب ترین سہل ترین راستہ کون سا ہے؟ 

َعَنْ عَلِي كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ أَيُّ الطَّرْقِ أَقْرَبُ إِلَى اللهِ وَاشْهَلُهَا عَلَى عِبَادِ اللهِ أَفْضَلُهَا عِندَ اللهِ تَعَالَى فَقَالَ : يَا عَلِيٌّ عَلَيْكَ بِمُدَاوَمَةِ ذِكْرِ اللَّهِ فَقَالَ عَلِيٌّ كُلُّ النَّاسِ يَذْكُرُونَ اللَّهِ ، فَقَالَ الله : يَا عَلِيٌّ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حتى لا يُبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مَنْ يَقُولُ اللهُ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ كَيْفَ اذْكُرُ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ فَقَالَ لَهُ : عَيْضُ عَيْنَيْكَ وَاسْمَعُ مِنِى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قُلْ مِثْلَهَا وَآنَا اسمعُ ، فَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا الله ثلاث مَرَّاتٍ مُعْمَدًا عَيْنَيْهِ، ثُمَّ قَالَهَا عَلَى
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے روایت کی ہے:۔ میں نے پوچھا:۔ یا رسول اللہ اسب طریقوں میں کون سا طریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ کے بندوں پر زیادہ آسان اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل ہے حضرت رسول کریم ﷺ نے جواب دیا۔ اے علی ! ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اپنے اوپر لازم کرو۔ پھر حضرت علی نے کہا : ۔ سب لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: اے علی قیامت اس وقت قائم ہوگی۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا زمین پر باقی نہیں رہیگا۔ پھر حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ میں کس طرح ذکر کروں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اپنی آنکھوں کو بند کرو اور مجھ سے تین مرتبہ سنو ۔ پھر اسی طرح تم کہو اور میں سنوں ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنی آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ فر مایا: لا الہ الا اللہ پھر حضرت علی نے اسی طرح آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ کہا:لا الہ الا اللہ۔
پھر حضرت علیؓ نے حضرت حسن بصری کو ۔ پھر حسن بصری نے حضرت حبیب عجی کو ۔ پھر حبیب عجمی نے حضرت داؤد طائی کو ۔ پھر داؤد طائی نے حضر ت معروف کرخی کو پھر معروف کرخی نے حضرت سری سقطی کو پھر سری سقطی نے حضرت جنید کو اس کلمہ کے ذکر کی تلقین کی ۔ رضی اللہ عنہم ۔ پھر یہ تربیت کرنے والوں کی طرف منتقل ہوا پس اللہ تعالیٰ کے حضور میں داخل ہونے کیلیے ذکر کے دروازے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
بارگاہ خداوندی میں دخول کا دروازہ
عارفین نے فرمایا ہے:۔ بندے پر واجب ہے کہ اپنے وقتوں کو ذکر میں مستغرق یعنی ہمیشہ مشغول رکھے اور اپنی کوشش کو ذکر میں صرف کرے کیونکہ ذکر ولایت کا فرمان ہے اور ابتدا اور انتہا میں ضروری ہے تو جس شخص کو ذکر عطا کیا جاتا ہے اس کو ولایت کا فرمان عطا کیا جاتا ہے تو جس نے ذکر کو چھوڑ دیا اس نے ولایت کے فرمان کو چھوڑ دیا پس وہ ولایت سے معزول کر دیا گیا۔ عارفین نےفرمایا ہے:۔
وَالذِكرُ أَعْظَمُ بَابٍ أَنتَ دَاخِلُهُ لِلَّهِ فَاجْعَلْ لَهُ الْأَنْفَاسَ حُرَّاسًا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑا دروازہ ہے جس میں تم داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچو گے۔ پس تم اپنے سانس کو اس کا محافظ بناؤ۔
پس اسم میں فنا کے مطابق ہی ذات میں فنا ہوتی ہے اور فنافی الاسم میں کوتاہی کے مطابق فنانی الذات میں کوتاہی ہوتی ہے تو مرید کیلئے ذکر ہر حال میں لازمی ہے اور ذکر میں حضور قلب نہ ہونے کے سب زبانی ذکر کو ترک نہ کرے۔ بلکہ وہ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رکھے ۔ اگر چہ اس کا قلب غافل ہو کیونکہ اس کے ذکر کرنے سے تمہاری غفلت ، اس کے ذکر کرنے کی حالت میں تمہاری غفلت سے زیادہ سخت ہے اس لئے کہ اس کے ذکر سے تمہاری غفلت اس کی طرف سے بالکل منہ پھیر لیتا ہے اور اس کے ذکر کرنے کی حالت میں کچھ توجہ اور سامنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں زبان کا مشغول ہونا اللہ تعالیٰ کی عبادت سے جسم کے عضو کو زینت دیتا ہے۔ اور اس کے مفقود ہونے میں معصیت میں مشغول ہونے کیلئے اس کو پیش کرتا ہے۔

کیا غافل دل کا ذکر سودمند ہے؟

ایک عارف سے پوچھا گیا:۔ جب قلب غافل ہے تو زبان کے ذکر سے ہم کو کیا فائدہ ہوگا؟
تو اس عارف نے جواب دیا: اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے تم کو زبان سے ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اگر وہ تمہاری زبان کو غیبت میں مشغول کر دیتا، تو تم کیا کر لیتے۔ تو انسان کو چاہئیے کہ زبان کے ذکر کو اپنے اوپر لازم کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قلب کے ذکر کا دروازہ اس کیلئے کھول دے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ تم کو اللہ تعالیٰ غفلت کے ساتھ ذکر کی حالت سے بیداری کے ساتھ ذکر کی حالت کی طرف منتقل کر دے یعنی ذکر میں مشغولی کے وقت ذکر کے معانی سے آگاہی کی طرف تم کو منتقل کر دے اور بیداری کے ساتھ ذکر کی حالت سے اللہ کے حضور کے ساتھ اور خیال میں اس کے نقش ہو جانے کے ساتھ ذکر کی حالت کی طرف تمہیں منتقل کر دے۔ یہاں تک کہ قلب اللہ کے ذکر سے مطمئن ہو جائے۔ اور یہ خواص کا ذکر ہے اور پہلا عوام کا ذکر ہے پھر اگر تم حضور کے ساتھ ذکر پر ہمیشہ قائم رہے۔ تو تم کو اللہ تعالیٰ ما سوا سے غائب ہونے کے ساتھ ذکر کی طرف ترقی دے گا۔ تا کہ تمہارے قلب کو نور سے بھر دے۔ اور اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کے نور کا قرب اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ نور میں ڈوب جاتا ہے اور ماسوی اللہ سے غائب ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ذاکر مذکور اور طالب مطلوب اور واصل موصول ہو جاتا ہے۔ وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ ‌بِعَزِيزٖ اور یہ اللہ تعالیٰ کے لئے دشوار ہیں۔
پس کبھی وہ شخص اونچے درجے میں پہنچ جاتا ہے جو نیچے درجے میں تھا اور اس مقام میں زبان خاموش ہو جاتی ہے اور ذکر قلب کی طرف منتقل ہوتاہے اس مقام والوں کیلئے زبانی ذکر غفلت ہوتی ہے عارف شاعر نے فرمایا ہے۔ ۔
مَا إِنْ ذَكَرْتُكَ إِلَّا هَمَّ يَلْعَنُنِى سِرِى وَقَلْبِي وَرُوحِي عِندَذِكرَاكَا
جب بھی میں نے تیرا ذ کر کیا، تو میرےسر اور قلب اور روح نے تیرے ذکر کے وقت میرے اوپرلعنت کرنے کا ارادہ کیا
حَتَّى كَانَ رَقِيبًا مِنْكَ يَهْتِفُ بِي إِيَّاكَ وَيُحَكَ وَالتَّذْكَارُ إِيَّاكَا
یہاں تک کہ گویا تیری طرف سے ایک محافظ مجھے غیب سے آواز دیتا ہے۔ تم پر تباہی ہو تم زبانی ذکرسے بچو
امَا تَرَى الْحَقَّ قَدْ لَاحَتْ شَوَاهِدُهُ وَوَاصَلَ الْكُلَّ مِنْ مَعْنَاهُ مَعْنَاكَا
کیا تم حق تعالیٰ کو نہیں دیکھتے ہو اس کے جنولے ظاہر ہو گئے ہیں اور اس کی کل حقیقت نےتمہاری حقیقت کو اپنے سے واصل کر لیا ہے۔
حضرت واسطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کےذکر میں مشغول رہنے والے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ترک کرنے والوں سے زیادہ غافل ہیں کیونکہ اس کا ذکر بھی اس کا ماسوی ہے۔ یعنی قلب سے اللہ تعالیٰ کا ذ کر کرنے والا زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی حالت میں اس کے ذکر کے ترک کرنے والوں سے زیادہ غافل ہے کیونکہ زبان سے اس کا ذکر کرنا اور تکلیف اٹھانا نفس کے وجود کا تقاضا کرتا ہے ۔ اور یہ شرک ہے اور شرک غفلت سے زیادہ برا ہے اور اس قول اس کا ذکر اس کا ماسوی ہے کا مفہوم یہی ہے۔ اس لئے کہ زبانی ذکرذا کر کے مستقل وجود کا تقاضا کرتاہے اور فرض یہ ہے کہ ذاکر عیاں یعنی مشاہدہ کے مقام میں محو(فانی)ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ذکر کی حقیقت ، ذکر سے اور اس کے ماسوا ہرشے سے منقطع ہو کر مذ کور کی طرف متوجہ ہونا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق (وَٱذۡكُرِ ٱسۡمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلۡ إِلَيۡهِ تَبۡتِيلٗا) اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔ اور ہر طرف سے منقطع ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔
حضرت قشیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ ذکر ۔ ذاکر کا اپنے مذکور میں داخل ہو جانا ہے، اور اس کے ظاہر ہونے کے وقت سر کا چھپ جانا ہے۔ اور اسی حقیقت کے بارے میں عارفین کے یہ اشعار ہیں ۔
ذَكَرْتُكَ لا أَنَّى نَسِيتُكَ لَمحَةٌ وَأَيْسَرُ مَا فِي الذِّكْرِ ذِكْرُ لِسَانِي
میں نے تمہارا ذ کر کیانہیں بلکہ میں تم کو زبان کے ذکر میں ایک لمحہ کیلئے بھول گیا اور زیادہ آسان وہ ہے جو قلب کے ذکر میں ہے۔
وصِرْتُ بِلَاوَجْدِ أَهِيمُ مِنَ الْهَوَى وَهَامَ عَلَى الْقَلْبُ بِالْخَفَقَانِ
اور میں وجد کے بغیر محبت سے پھر تارہا ہوں۔ اور قلب بھی خفقان کے ساتھ میرے اوپر دوڑا۔
فَلَمَّا أَرَانِي الْوَجدُ أَنَّكَ حَاضِرِى شَهِدْتُكَ مَوْجُودًا بِكُلُّ مَكَانِ
پھر جب وجد نے مجھے کو یہ دکھایا کہ تو میرے پاس حاضر ہے تو میں نے ہر جگہ تجھ کو موجود مشاہد ہ کیا۔
فَخَاطَبْتُ مَوْجُودًا بِغَيْر تَكَلَّم وَشَاهَدْتُ مَوْجُودًا بِغَيْرِ عِيَانِ
تو میں نے اپنے پاس موجود سے بغیر کلام کے خطاب کیا اور آنکھوں کے بغیر اس کا مشاہدہ کیا
اور اس مقام میں مرید فکر و نظر کی عبادت کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور ایک گھڑی کی فکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔
حضرت شیخ ابو العباس رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہمارے کل اوقات سب قدر ہیں یعنی ہماری کل عبادتیں اس کی پوشیدگی اور اس میں اخلاص موجود ہونے کے باعث دوگنی ہیں اس لئے کہ نہ اس سے فرشتہ آگاہ ہوتا ہے۔ کہ وہ اس کو لکھے نہ شیطان واقف ہوتا ہے کہ وہ اس کو خراب کرے اس حقیقت کےبارے میں ایک عارف نے فرمایا ہے. کہا گیا ہے کہ حضر ت حلاج رضی اللہ عنہ کےاشعار ہیں ۔
قُلُوبِ الْعَارِفِينَ لَهَا عُيُون تَرَى مَا لَا يُرَى لِلنَّاظِرِينَا
عارفین کے قلوب کیلئے ایسی آنکھیں ہیں جو وہ چیزیں دیکھتی ہیں جو سب دیکھنے والوں کو نہیں دکھائی جاتی ہیں
وَاَلْسِنَةُ باأَسْرَارٍ تُنَاجِي تَغِيْبُ عَنِ الْكِرَامِ الْكَاتِبِينَا
اور ایسی زبانیں ہیں جو ان اسرار سے سر گوشی کرتی ہیں جو کرام کا تبین سے غائب اور پوشیدہ ہیں۔
وَاَجنحَةٌ تَطيرُ بِغَيْرِ رِيشٍ إِلَى مَلَكُوتِ رَبِّ الْعَالَمِينَا
اور ایسے بازو ہیں کہ پر کے بغیر اللہ رب العالمین کے ملکوت کی طرف اڑتے ہیں۔
وَافْئِدَةً تَهِيمُ بِعِشْقٍ وَجُدٍ إِلَى جَبَرُوتِ ذِى حَقٍ يَقِينَا
اور ایسے دل ہیں جو وجد کے عشق کے وجد کے ساتھ یقیناً حق تعالیٰ کے جبروت کی طرف دوڑتےہیں۔
فَإِنْ تُرِدَنُ تَبَاكُرُ ذِي الْمَعَانِي فَبَذِّلُ الرُّوحِ مِنْكَ يَقِلُّ فِيْنَا
لو اگر تم حقیقت والے کی طرف متوجہ ہونا چاہتے ہو تو اپنی روح کو خرچ کرنا ہو گا اور ایسے لوگ ہمارے اندر کم میں
چونکہ ذکر قلب کی زندگی کا سبب ہے اور ذکر کا ترک کرنا قلب کی موت کا سبب ہے۔ حدیث میں وارد ہے۔
مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّةَ وَالَّذِى لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ كَمِثْلِ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جوذ کر نہیں کرتا ہے دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے چھٹے باب میں قلب کے حیات و موت کی علامت بیان فرمائی ۔ پانچواں باب ختم ہوا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں