حقیقت بندگی

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ :فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرّحَیْمِ

قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن (یوسف108)

(اے حبیب مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں

 رسول اﷲ کا اس آیت میں یہ فرمانا میں جس راہ پر گامزن ہوں اور اس کی طرف دوسروں کو بلاتا ہوں تو سوچ سمجھ کر اور علی وجہ البصیرت چل رہا ہوں اور میرے پیرو کار بھی ایسے ہی ہیں۔ میں دلائل سے اور تجربہ سے ثابت کرسکتا ہوں کہ اس راہ پہ چلنے والے ہی حقیقی کامیابی پہ رہنے والے ہیں

قرآن و حدیث میں اﷲ اور اس کے رسول کی احکامات وفرامیں ایسے ہیں جس کا انکار کرنے والا کفر کی وادیوں میں بھٹکنے والا ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کی باطنی دنیا اور تسلیم ورضا کا جذبے نے ایک ایسے علم کے ذریعے تقویت پکڑی جسے روحانی دنیا کے جاننے والوں کے علاوہ کوئی اور سمجھ سکتا ہے نہ انہیں حقیقی بندگی میسر آتی ہے کبھی خیال کیا کہ کس طرح ایک ہلکی سی نگاہ سے صحابہ کرام کے دل کی دنیاتبدیل ہو جاتی آپ ﷺکے دست اقدس کی جنبش سے اورصرف دیکھنے سے کتنی بڑی تبدیلیاں ہوتیں

سنن ابن ماجہ میں ہے

 ، حضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں کہ جب رسول اﷲ مدینہ تشریف لائے کہا گیا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں تو لوگوں میں میں بھی آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ جب میں آپ کے چہرہ انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں (یعنی آپ دعوی نبوت میں سچے ہیں) تو آپ نے پہلی بات یہ فرمائی جب لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھو تم سلامتی سے جنت میں داخل ہو جاؤ گے ۔

 باطنی دولت کو رسول اﷲ انے خود ہی آشکار کیا التقویٰ ھھنایشیر الی صدرہ ثلاث مرات تقویٰ یہاں ہے تین مرتبہ آپ انے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا(صحیح مسلم :کتاب البر واصلۃ)دوسری حدیث میں ہے

لکل شیء معدن ومعدن التقوی قلوب العارفین(معجم الطبرانی )ہر شے کی ایک کان ہوتی ہے اور تقویٰ کی کان اولیاء و عرفاء کے دل ہوتے ہیں۔

کسی کا قول ہے صدور الابرار قبور الاسرارنیک لوگوں کے سینے رازوں کی قبریں ہوتی ہیں۔

ان احادیث کے ساتھ اس حدیث کو ملائیں تو بات ذہن کے بند دریچے کھولتی ہے

وقال ابو ہریرۃ ما فضلکم ابوبکربکثرۃصیام ولاصلوۃولکن بسر وقر فی صدرہ(احیاء العلوم الدین امام غزالی ،میزان العمل امام غزالی )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوتم پر روزوں اور نمازوں کی کثرت کی وجہ سے فضیلت نہیں ملی لیکن اس بھید اور علم کی وجہ سے عطا ہوئی جو اس کے سینے میں ہے ۔

بہر حال دست اقدس سے باطنی دولت میسر آنے کے ضمن میں ایک مثال حضرت یعقوب علی نبینا وعلیہ السلام کی ہے

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنھماقرآن مجید کے اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں۔

لو لا ان رأی برھان ربہ (یوسف :24)رسول اﷲ نے فرمایا

مثل لہ یعقوب فضرب صدرہ فخرجت شہوتہ من أناملہ (مستدرک حاکم کتاب التفسیر تفسیر سورۃ یوسف)

حضرت یوسف علیہ السلام کیلئے یعقوب علیہ السلام کی تمثیل سامنے آئی جنہوں نے ان کے سینے پہ ہاتھ ماراتو ان کی شہوت انگلیوں سے باہر نکل گئی۔

حضرت یوسف علیہ السلام بھی نبی تھے جنہیں عقائد اہلسنت کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے گناہوں سے پاک رکھنا تھا رب العلمین چاہتا یہ خیال بھی نہ پیدا ہوتالیکن دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ کسی خاص عمل سے ارادے تبدیل ہوتے ہیں اور انہیں تبدیل کرنے والی کوئی کامل ہستی ہونا بھی ضروری ہے ۔

عن علی قال بعثنی رسول اﷲ ﷺ الی الیمن فقلت یا رسول اﷲ تبعثنی وانا شاب اقضی بینھم ولا ادری ماالقضاء قال فضرب بیدہ فی صدری ثم قال اللھم اھد قلبہ وثبت لسانہ قال فما شککت بعد فی قضاء بین اثنین(ابن ماجہ ابواب الاحکام)

 حضرت علی ص سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول ا ﷲ اآپ مجھے جوانی کے عالم میں بھیج رہے ہیں ان کے فیصلے کیسے کرونگا مجھے معلوم نہیں کیونکر فیصلہ کرتے ہیں یہ سن کر آپ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینے پہ مارا پھر فرمایااے اﷲ اس کے دل کو ہدایت دے اوراسکی زبان کو مضبوط بنا حضرت علیص فرماتے ہیں اس دعا کے بعد مجھے دو آدمیوں میں فیصلہ کرنے میں کبھی دشواری پیش نہ آئی ۔

حضرت عثمان بن ابی العاص فرماتے ہیں مجھے رسول اﷲﷺنے طائف کا عامل بناکر بھیجا مجھے نماز کی رکعتیں یاد نہ رہتیں میں رسول اﷲ ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا تو فرمایا

ذاک الشیطان ادنہ فدنوت منہ فجلست علی صدور قدمی قال فضرب صدری بیدہ وتفل فی فمی وقال اخرج عدو اﷲ ففعل ذالک ثلث مرات

یہ شیطان کا کام ہے میرے نزدیک آ میں نزدیک گیا تو میں آپ اکے پاؤں کی انگلیوں پر بیٹھ گیا آپ ا نے میرے سینے پہ ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھوک مبارک ڈال دیا اور ساتھ ہی فرمایا نکل جا اے اﷲ کے دشمن تین بار آپ انے ایسے ہی کیاپھر اپنے کام پہ جانے کا حُکم دیا حضرت عثمان قسم کھا کر کہتے ہیں مجھے نہیں یاد کہ اس کے بعد کبھی شیطان نے بھلایا ہو۔( سنن ابن ماجہ :کتاب الطب باب الفزع والارق )

اگر یہی کام آج کاملین کے ذریعے سے ہو تو اس پر اعتراض کی کوئی وجہ تو نہیں ہونا چاہیئے یہ بھی تو سنت ہے اور ساتھ اثرات بھی موجود ہوں ہزاروں لوگ ان صحابی کی طرح تبدیل ہو رہے ہوں ۔

شیبہ بن عثمان غزوہ حنین میں اپنے باپ اور چچا کا بدلہ لینے کیلئے ظاہراً مسلمان ہو کر شریک ہوئے جب رسول اﷲاکو قتل کرنے کے ارادے سے اتنا قریب ہو گئے کہ تلوار کا وار کرسکتے ایک آگ کا شعلہ نمودا ہوا یہ الٹے بھاگنے لگے تو رسول اﷲ ا نے بلایاسینے پہ ہاتھ مارا اس کی برکت سے انکے سینے سے شیطان نکل گیاخود فرماتے ہیں جب میں نے نگاہ اٹھا کر چہرہ اقدس کو دیکھا تو آپ مجھے اپنی آنکھوں او رکانوں سے بھی بہت محبوب دکھائی دینے لگے (الوفا باحوال المصطفٰے مصنف ابن جوزیؒ )دست مصطفٰے نے بغض کو محبت میں تبدیل فرما دیا

مصعب بن شیبہ اپنے والد کی بات ان کی زبان سے بیان کرتے ہیں ۔

میں آپ ﷺکے ساتھ کھڑا تھا میں نے عرض کی میں ابلق گھوڑے دیکھ رہا ہوں رسول اﷲا نے فرمایا

انہ لا یراھا الا کافرفضرب بیدہ علی صدری ثم قال اللھم اھد شیبۃ ثم ضربھا الثانیۃاللھم اھد شیبۃثم ضربھا الثالثۃاللھم اھد شیبۃفواﷲ ما رفع یدہ من صدری من الثالثۃ حتی ما کان احد من خلق اﷲّّأحب الی منہ (معجم الکبیرللطبرانی باب الشین: دلائل النبوۃللبیہقی باب رمی النبیﷺ )

اے شیبہ ان گھوڑوں کو تو صرف کافر دیکھتے ہیں پھر آپﷺانے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینے پہ مارا اوردعاکی اے اﷲ شیبہ کو ہدایت عطا فرما ،دوسری مرتبہ ہاتھ مارا اور دعا کی اے اﷲ شیبہ کو ہدایت عطا فرما ، تیسری مرتبہ ہاتھ مارا اوردعا کی اے اﷲ شیبہ کو ہدایت عطا فرما تو خدا کی قسم تیسری مرتبہ آپ ﷺکا ہاتھ میرے سینے سے اٹھنے کی دیر تھی کہ مخلوق میں مجھے کوئی بھی رسول اﷲﷺ سے زیادہ محبوب نہ تھا۔

یہ دل سے اسلام کو نہ قبول کرنے کی وجہ سے کفرونفاق تھا جو آپ اکا سینے پر ہاتھ مارنے سے سارا کفر اور نفاق دور ہو گیا ۔

عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما ان رسول اﷲ ﷺ ضرب صدر عمر بن الخطاب بیدہ حین اسلم ثلاث مرات وھزشو یقول اللھم اخرج ما صدرہ من غل وأبدلہ ایمانا(مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابۃمناقب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب۔معجم الکبیرللطبرانی)

 حضرت عبد اﷲ ابن عمررضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲا نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے سینے پرتین مرتبہ ہاتھ مارا جب وہ مسلمان ہوئے اور ساتھ دعافرما رہے تھے اے اﷲ ان کے دل سے کینہ دور فرمااور اسے ایمان سے بدل دے ۔

 حضرت ابی بن کعب صسے رسول اﷲا نے پوچھاکتاب اﷲ کونسی آیت تیرے خیال میں سب بڑی ہے پہلی دفعہ ادب کے طور پر اﷲ ورسولہ اعلم کہا دوسری دفعہ عرض کیا آیت الکرسی

فضرب صدری وقال لیھن لک یا ابا المنذر العلم (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ماجا ء فی آیۃ الکرسی)

توآپ ا نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا اے ابو المنذرتجھے علم مبارک ہو

 تو ماننا پڑے گا یہ فیض کی تقسیم کا وہ ذریعہ تھا جسے الفاظ کا جامہ پہنایا نہیں جا سکتا اور عقل و شعور سے ما وراء کوئی شے تھی جس سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہو تیں قبولیت کا وہ تیر بہدف جو کبھی بھی ناکام نہ ہوا دعا سے بھی زیادہ کارگرہتھیاراسکو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا

حضرت عثمان بن ابی العاصص فرماتے ہیں مجھے رسول اﷲا نے قوم کی امامت کا حکم دیا

قلت یا رسول اﷲ انی اجد وسواسا فضرب بیدہ علی صدری فلم احس بہ بعد

میں نے عرض کی یا رسول اﷲا مجھے کچھ وسواس سا رہتا ہے تو آپ ا نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اس کے بعد کبھی مجھے وسواس نہ ہوا (معجم الاوسط للطبرانی باب الاف)

 حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنھما ایک مرتبہ نبی کریم اکو وضو کروا رہے تھے آپ نے سینے پہ ہاتھ مارتے ہوئے یہ دعا دی ۔

اللھم فقہہ فی الدین وعلمہ التأویل اے اﷲ اسے دین کی سمجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما(معجم الاوسط للطبرانی باب الاف)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میرے دل میں رسول اﷲ ﷺکی ایسی تکذیب پیدا ہوئی جو زمانہ جاہلیت میں نہیں تھی ۔

فلما رأی رسول اﷲ ماقد غشینی ضرب فی صدری ففضت عرقاوکانما انظر الی اﷲتعالی فرقا(صحیح مسلم کتاب فضائل القران)

جب رسول اﷲ نے میری اس حالت کو دیکھا زور سے میرے سینے پر ہاتھ مارا(نسائی کے الفاظ میں یہ دعا کی اے اﷲ اس سے شیطان کو دور کر دے )آپ کا ہاتھ مارنا تھا کہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور خوف الٰہی کی مجھ پہ ایسی کیفیت پید اہوئی گویامیں اﷲکی بارگاہ میں حاضر ہوں۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن میں قاضی بنا کر بھیجتے وقت فرمایااگر کوئی معاملہ تیرے سامنے پیش ہو تو کیسے فیصلہ کروگے تو عرض کی اﷲ کی کتاب سے فرمایا اگر اس میں نہ ملے تو ؟ عرض کی رسول اﷲﷺ کی سنت سے فرمایا اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو؟عرض کی اپنی رائے سے فیصلہ کرونگا۔

فضرب صدرہ ثم قال ’’الحمد ﷲ الذی وفق رسول رسول اﷲلما یرضی رسول اﷲ ‘‘(سنن الدارمی کتاب المقدمہ باب الفتیاء وما فیہ من الشدۃ )

تو رسول اﷲا نے ان کے سینے پہ ہاتھ مارا اور فرمایا ’’سب تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے رسول اﷲﷺ کے بھیجے ہوئے ہوئے کو رسول اﷲا کے موافق کیا جس نے اﷲ کے رسول خوش کر دیا۔

رسول اﷲاﷺاپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہکے پاس تشریف لے گئے جب وہ بیمار تھے اس مرض کی تکلیف کیوجہ سے موت کی تمنا کر رہے تھے ۔

فضرب رسول اﷲ بیدہ علی صدرالعباس ثم قال ’’لا تتمنی الموت یا عم رسول اﷲفانک ان تبق تزداد خیر

 (مسند ابی یعلی حدیث ام الفضل بنت حارث باب لا تتمنی الموت )

رسول اﷲﷺ اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سینے پہ ہاتھ مارا اور فرمایا ’’اے اﷲ کے رسول کے چچا موت کی تمنا نہ کرو اگر آپ زندہ رہے تو آپ کی بھلائیوں میں اضافہ ہو گا ۔

اما م محمد شرف الدین بوصیریؒ قصیدہ بردہ میں فرماتے ہیں ۔

وَلَا الْتَمَسْتُ غِنَی الدَّارَیْنِ مِنْ یَدِہٖ

اِلَّا اسْتَلَمْتُ النَّدٰی مِنْ خَیْرِ مُسْتَلَمٖ

آپکے دست اقدس سے جب کبھی کسی نے دنیا و دین سے کچھ بھی طلب کیا یہ دست کرم اتنا بھلائی والاہے کہ مانگنے والوں کو ہر سرفرازی عطا کر دیتا ہے۔

کَمْ اَبْرَاَتْ وَصِبًّا بِاللَّمْسِ رَاحَتُہٗ

وَاَطْلَقَتْ اَرِبًا مِّنْ رِبْقَۃِ اللَّمَمٖ

 آپ کے دست مبارک کے چھونے سے کامل شفا مل جاتی ہے اور بہت سے دماغی بیماروں نے جنوں سے رہائی حاصل کی ۔

 انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے بنی المصطلق نے خدمت حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں بھیجاکہ میں حضور سے دریافت کروں حضور کے بعد ہم اپنے اموال زکوٰۃ کس کے پاس بھیجیں، فرمایا ابو بکر کے پاس۔ عرض کی اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو کسے دیں؟فرمایاعمر کو۔عرض کی جب ان کا بھی واقعہ ہو۔ فرمایا عثمان کو۔رواہ عنہ فی المستدرک

یہ وہی راستہ ہے جو تسلسل و تواتر سے آج تک چلا آرہا ہے اور حقیقی بندگی بھی انہی کو ملی جنہوں نے اس راستے کو اپنایا اور اس پر قائم رہتے ہوئے یہ زندی بسر کی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں