خلوت کے دس فوائد (باب اول)

خلوت کے دس فوائد حکمت نمبر12

خلوت کے دس فوائد کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر12 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جاننا چاہیئے کہ خلوت کے دس فائدے ہیں :۔ پہلا فائدہ:۔ زبان کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو شخص تنہا ہوتا ہے اس کے پاس کوئی بات کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے

اللہ کے رحم کا دروازہ

رَحِمَ ‌اللهُ ‌عَبْدًا قَالَ ‌فَغَنِمَ، أَوْ سَكَتَ فَسَلِمَاللہ تعالیٰ نے اس بندے پر رحم کیا جس نے خاموشی اختیار کیا تو محفوظ رہا۔ یا بات کی تو وہ کامیاب ہوا
اور زبان کی آفتوں سے اکثر وہی محفوظ ر ہتا ہے جو محفل پر تنہائی کو ترجیح دیتا ہے ۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ جب تم کسی فقیر کو دیکھو کہ وہ محفل پر تنہائی کو، اور بات کرنے پر خاموشی کو ، اور آسودہ ہو کر کھانے پر روزہ کو ترجیح دیتا ہے تو تم سمجھ لو کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ اور جب تم کسی فقیر کو دیکھو کہ وہ تنہائی اور خاموشی اور روزہ پر محفل اور بات کرنے اور آسودگی کو ترجیح دیتا ہے تو تم سمجھ لو کہ اس کا پیٹ خالی ہے۔
نیز فرمایا: زیادہ کھانے اور زیادہ بات کرنے میں ورع کی کمی ہے۔ اور تقویٰ ممکن نہیں ہے۔ حساب لمبا اور کتاب یعنی اعمالنامہ بھاری ہوتا ہے اور دوستوں کی زیادتی ہوتی ہے اور مظلوموں کا ظالموں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اور کا تین کرام کی گواہی زیادہ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ غفلت اور بے توجہی رہتی ہے۔ اس لئے کہ بات کرنا، زبان سے صادر ہونے والے کبیرہ گناہوں کی کنجی ہے۔ اور وہ کبیرہ گناہ جھوٹ اور غیبت اور چغلی اور بے ہودہ باتیں ، اور بہتان ہیں۔
پھر فرمایا:۔ حدیث شریف میں ہے:۔
اكثر خَطَايَا ابْنِ آدَمَ فِى لِسَانِهِ، وَاكْثَرُ النَّاسِ ذُنُوبًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ خَوْضًا فِي مَا لَا يَعْنِي
انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے سرزد ہوتی ہیں۔ اور قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ گنہ گار وہ شخص ہو گا جو سب سے زیادہ فضول باتوں میں مشغول رہتا ہے ۔
دوسرا فائدہ:۔ آنکھ کی آفتوں سے محفوظ رہنا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو شخص لوگوں سے علیحدہ ہو کر تنہا ہو جاتا ہے تو وہ ان کی طرف دیکھنے اور دنیا کی زیب وزینت کی طرف جس کے پیچھے لوگ دیوانہ وار پڑے رہتے ہیں ، دیکھنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔
‌وَلَا ‌تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعۡنَا بِهِۦٓ أَزۡوَٰجٗا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيهِ
آپ دنیاوی زندگی کی ان آرائش وزیبائش کی اشیاء کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر نہ دیکھئے ۔ جو ہم نے کفار کے مختلف گروہوں کو اس لئے دی ہے تا کہ ہم اس میں ان لوگوں کو آزمائیں۔
لہذا زیب وزینت کی طرف دیکھنے ، اور اس کے ساتھ قائم ہونے اور زیب وزینت والوں کی طرف رغبت کرنے سے تم اپنے نفس کو روکو۔ حضرت محمد بن سیرین نے فرمایا ہے، چاروں طرف دیکھنے سے پر ہیز کرو۔ کیونکہ اس سے خواہشات زیادہ پیدا ہوتی ہے۔
ایک ادیب نے فرمایا:۔ جو شخص اکثر ترچھی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ حسرتوں میں مبتلا رہتا ہے۔ اور بزرگوں نے فرمایا ہے:۔ آنکھ ہلاکت اور بربادی کا سبب ہے جو شخص اپنی آنکھ کو آزاد چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کو تباہی اور ہلاکت کا شکار کر دیتی ہے۔ اور آنکھ سے تمام اشیاء کی طرف دیکھنا قلب کی پریشانی اور تفرقہ کا سبب ہوتا ہے۔
تیسرا فائدہ: ریاء اور منافقت اور اس کے علاوہ دوسری بیماریوں سے قلب کو محفوظ رہنا ہے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے ۔ جو شخص لوگوں سے میل جول رکھتا ہے۔ وہ ان کی خاطر تواضع کرتا ہے اور جو ان کی خاطر تواضع کرتا ہے وہ ان کو دکھانے کے لئے بہت کچھ کرتا ہے۔ اور جو شخص ان کو دکھانے کے لئے بہت کچھ کرتا ہے وہ انہیں برا ئیوں میں مبتلا ہوتا ہے جن میں وہ لوگ مبتلا ہیں ۔ اور جس طرح وہ لوگ بر با دو ہلاک ہوتے ہیں اسی طرح وہ بھی بر بادو ہلاک ہوتا ہے۔؎
ایک صوفی نے فرمایا ہے:۔ میں نے ہرشے سے جدا ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے والے ابدال میں سے ایک شخص سے دریافت کیا:۔ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: تم مخلوق کی طرف نہ دیکھو۔ کیونکہ ان کی طرف دیکھنا تاریکی ہے۔ میں نے کہا: ان کی طرف دیکھنا میرے لئے ضروری ہے تو انہوں نے فرمایا۔ اچھا تم ان کی باتیں نہ سنو ۔ اس لئے کہ ان کی با تیں سننا قلب کی سختی کا سبب ہے۔ میں نے کہا :۔ ان کی باتیں سننا بھی میرے لئے ضروری ہے۔ پھر انہوں نے فرمایا: اچھا ان سے معاملہ نہ کرو ۔ کیونکہ ان سے معاملہ کرنا نقصان اور حسرت و افسوس اور وحشت کا سبب ہے۔ میں نے کہا۔ میں ان کے درمیان رہتا ہوں۔ اس وجہ سے ان سے معاملہ کرنا بھی میرے لئے ضروری ہے۔ پھر انہوں نے فرمایا : اچھا ان کے ساتھ سکونت (رہنا سہنا، اٹھنا بیٹھنا) نہ اختیار کرو۔ اس لئے کہ ان کے ساتھ سکونت اختیار کرنے میں ہلاکت ہے۔ میں نے کہا : ہاں ، یہ ہو سکتا ہے کہ میں ان کے ساتھ سکونت نہ اختیار کروں ۔ تو انہوں نے فرمایا: اے شخص تو کھیل تفریح کرنے والوں کی طرف دیکھتا ہے اور جاہلوں کی باتیں سنتا ہے۔ اور بے ہودہ اور جھوٹے لوگوں سے معاملہ کرتا ہے۔ اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ رہتا ہے اور پھر یہ بھی چاہتا ہے کہ تو عبادت کی لذت حاصل کرے۔ حالانکہ تیرا دل غیر اللہ کے ساتھ ہے۔ افسوس ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ میری نگاہ سے غائب ہو گئے۔
حضرت قشیری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے مجاہدہ کرنے والے جب اپنے قلب کو برے وسوسوں سے بچانا چاہتے ہیں تو وہ دنیا کی اچھی چیزوں کی طرف نہیں دیکھتے ہیں۔ مجاہدہ اور ریاضت کے سلسلے میں یہ ان کا بہت بڑا اصول ہے۔
چوتھا فا ئدہ: دنیا میں زہد اور قناعت کا حاصل ہونا ہے۔ اور اس میں بندے کے لئے بزرگی اور کمال ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ سے اس کی محبت کا سبب ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نےفرمایا ہے:۔
ازْهَدْ ‌فِي ‌الدُّنْيَا ‌يُحِبَّكَ ‌اللَّهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ
تو دنیا سے پر ہیز کر ۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا۔ اور تو لوگوں کے مال و دولت سے پر ہیز کر ۔ لوگ تجھ سے محبت کریں گے ۔
اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جو شخص آدمیوں سے علیحدہ ہو جائے گا اور ان کی ان چیزوں کی طرف نہ دیکھے گا جن میں وہ دنیا کی حرص کی وجہ سے مشغول ہیں اور ان کے پیچھے دیوانوں کی طرح دوڑ رہے ہیں۔ تو وہ ان کی پیروی نہ کرے گا ۔ اور برے اخلاق و عادات سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص لوگوں سے تعلقات بھی قائم رکھے اور ان کی بری عادتوں اور خصلتوں سے محفوظ بھی رہے۔

مُردوں کی صحبت

حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے۔
لَا تُجَالِسُوا الْمَوْتیٰ فَتَمُوتُ قُلُوبُكُمْ، قَالُوا: مِنَ الْمَوْتیٰ يَا رُوحَ اللَّهِ قَالَ: الْمُحِبُّونَ لِلدُّنْيَا الرَّاغِبُونَ فِيهَا
تم لوگ مردوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔ ورنہ تمہارے قلوب مردہ ہو جائیں گے۔ آپ کے اصحاب نے دریافت کیا۔ اے روح اللہ ! مردے کون لوگ ہیں؟ حضرت نے فرمایا: دنیا کی محبت اور خواہش کرنے والے مردہ ہیں۔
پانچواں فائدہ:۔ برے لوگوں کی صحبت اور کمینے لوگوں کے میل جول سے محفوظ رہنا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگوں سے میل جول رکھنے، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بہت بڑا فساد اور خطرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے:۔
وَمَثَلُ الْجَلِيسِ ‌السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ، إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ ‌شَرَارِهِ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ
برے ساتھی کی مثال بھٹی کی طرح ہے۔ اگر وہ اپنی چنگاری سے تم کو نہ بھی جلائے تو اپنی بد بودار اور نقصان دہ ہو ا تم کو ضرور لگا دے گا۔
سیدی حضرت عبد الرحمن مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ برے لوگوں کی صحبت کمینہ بنا دیتی ہے۔ اگر چہ وہ بہ ظاہر صاف ستھری ہو ۔
اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام سے دریافت فرمایا:۔ میں تم کو لوگوں سے کنارہ کش اور تنہا کیوں دیکھتا ہوں؟ حضرت داؤد نے جواب دیا: میں نے تیری رضا مندی کے لئے مخلوق سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے داؤد بہت ہوشیاری سے اپنے لئے ساتھی تلاش کرو۔ اور جو شخص میری رضا مندی میں تمہارا ساتھ نہ دے۔ تم اس کو اپنا ساتھی نہ بناؤ ۔ کیونکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ وہ تمہارے قلب کو سخت کر دے گا ۔ اور تم کو مجھ سے دور کر دے گا۔ لہذا اگر تم صحبت کرنا چاہتے ہو تو حضرات صوفیائے کرام کی صحبت اختیار کرو۔ کیونکہ ان کی صحبت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو صوفیائے کرام کی صحبت میں پہنچا دیتا ہے۔ اور قاریوں کی صحبت سے روک دیتا ہے۔
ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا ہے ۔ اللہ کی قسم ، جو شخص بھی کامیاب ہوا ہے۔ وہ صرف کامیاب ہونے والوں کی صحبت سے کامیاب ہوا ہے۔
چھٹا فائدہ عبادت اور ذکر کے لئے فرصت پانا، اور تقوی اور نیکی کا ارادہ کرنا ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ بندہ جب تنہا ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہو جاتا ہے اور عبادت اور ذکر سے غافل کرنے والے لوگوں کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے جسم اور قلب کے ساتھ عبادت اور ذکر میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ اور کتاب قوت القلوب میں مرقوم ہے: خلوت قلب کو مخلوق سے فارغ کرتی ہے۔ اور ہمت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع کرتی ہے اور ارادے کو ثابت
قدمی پر مضبوط کرتی ہے۔
ساتواں فائدہ عبادتوں کی لذت پانا، اور اپنے سر کے فارغ ہونے کی وجہ سے مناجات کی شیرینی حاصل کرتی ہے اور یہ درست اور مجرب ہے۔ حضرت ابو طالب نے فرمایا ہے: سچا مرید وہ ہے جو خلوت میں ایسی لذت اور خوشی اور طاقت پائے جو اس کو محفل میں نہ ملے ۔ یہانتک کہ اس کی محبت وحدت میں اور اس کی روح خلوت میں، اور اس کے نیک اعمال راز میں ہو جائیں ۔
آٹھواں فائدہ : قلب اور جسم کا آرام حاصل ہونا ہے۔ کیونکہ آدمیوں سے ملنے جلنے میں ان کے کاموں کو درست کرنے کی فکر قلب کی پریشانی اور تھکن کا باعث ہوتی ہے اور ان کی غرضوں اور مرادوں کے پورا کرنے کی کوشش جسم کی تکلیف اور تھکن کا سبب ہوتی ہے۔ اور اگر چہ اس میں ثواب ہے۔ لیکن جوشے ثواب سے زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے وہ اس سے فوت ہو جاتی ہے اور وہ اہم شے اللہ تعالیٰ کے ساتھ قلب کا جمع ہونا ہے۔
نواں فائدہ ان برائیوں اور جھگڑوں میں الجھنے سے جو لوگوں کے میل جول کے لوازمات ہیں نفس اور دین کی حفاظت ہے۔ کیونکہ جب دنیا والوں سے میل جول ہوگا تو ان سے مزاحمت اور ان کی مدافعت بھی کرنی ہوگی ۔ اور ان معاملات کی فکر میں نفس کو شوق ، اور کامیابی کے لئے جلد بازی ہوگی۔
اور اس سلسلے میں حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اشعار ہیں :
مَنْ ‌يَذُقِ ‌الدُّنْيَا فَأَنَّى طِعْمَتُهَا وَسِيْقَ إِلَيْنَا عَذْبُهَا وَعَذَابُهَا
اور جو شخص دنیا کا مزہ چکھتا ہے اور اسکی شیرنی اور تلخی میرے سامنے آچکی ہے ۔
فَلَمْ أَرَهَا إِلَّا غُرُوْرًا بَاطِلًا … كَمَا لَاحَ فِي جَوِّ الفلَاةِ سَرَابُهَا
پس میں نے اس کو بے حقیقت فریب کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ جیسا کہ ریگستان میں سراب چمکتا ہوادکھائی دیتا ہے ۔
وَمَا هِيَ إِلَّا جِيْفَةٌ مُسْتَحِيْلَةٌ عَلَيْهَا كِلَابٌ هَمُّهُنَّ اجْتِذَابُهَا
وہ حال تبدیل ہونے والے مردار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے اوپر کتے اپنی طرف کھینچنے کے ارادے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔
إِنْ تَجتنبها كُنْتَ سِلْمًا لأَهْلِهَا وَ إِنْ تَجْتَذِبْهَا نَازَعَتْكَ كِلَابُهَا
پس اگر تم اس سے پر ہیز کرو گے تو تم اہل دنیا سے محفوظ رہو گے ۔ اور اگر تم اس کو کھینچو گے تو اس کے کتے تم کو پھاڑ کھا ئیں گئے ۔
فَطُوْبَى لِنَفْسٍ وطنت قَعْرَ بَيْتِهَا مُغْلَقَةَ الأَبْوَابِ مُرْخَى حِجَابُهَا
پس ایسے شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس کے گھر کے اندرونی حصے کو جب کہ اس کے دروازے بند تھے اور اس پر پردہ لٹکا ہوا تھا، پامال کر دیا ۔

فکر اور اعتبار کی عبادت

دسواں فائدہ: فکر اور اعتبار کی عبادت سے تمکن (معرفت میں مضبوطی سے قائم ہونا ) ہے۔اور خلوت کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے: تفكُرُ سَاعَةٍ خَيْرٌ مِّنْ عِبَادَةٍ سَبْعِينَ سَنَةٍ
ایک گھڑی کی فکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے تھے:
طُوبِي لِمَنْ كَانَ كَلَامَهُ ذِكْرًا، وَصُمْتُهُ تفِكْرًا، وَ نَظَرُهُ عِبْرَةً ، وَإِنَّ اكْیَسَ النَّاسِ منْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ
اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس کا کلام ذکر ہے۔ اور جس کی خاموشی فکر ہے اور جس کی نظر عبرت ہے اور بے شک سب سے زیادہ عقلمند وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو فرماں بردار کر لیا۔اور آخرت کے لئے عمل کیا۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ جو شخص آخرت کی بزرگی چاہتا ہے اس کو کثرت سے فکر کرنی چاہیئے ۔ اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی بہترین عبادت فکر تھی ۔ اور یہ اس لئے کہ فکر کے ذریعے اشیاء کی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور فکر ہی کے ذریعے نفس کی پوشیدہ آفتوں اور مکاریوں، اور دنیا کی فریب کاریوں کی خبر ہوتی ہے اور نظرہی کے ذریعے ان سے بچنے اور پاک ہونے کی تدبیریں اور طریقے معلوم کئے جاتے ہیں۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: فکر ایسا آئینہ ہے جو تیری برائی سے تیری نیکی کو ممتاز کر کے دکھاتا ہے۔ اور فکرہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی واقفیت ہوتی ہے ۔ جب کہ اس کے آثار و مصنوعات میں فکر کرتا ہے۔ اور فکرہی کے ذریعے اس کی ظاہری و باطنی نعمتوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ پس بندہ فکر کے ذریعے ایسے روشن اور بلند احوال کا فیض حاصل کرتا ہے جن کے باعث قلب کا مرض دور ہو جاتا ہے۔ اور اپنے رب کی عبادت میں مضبوطی سے قائم ہو جاتا ہے۔ یہ حضرت شیخ ابن عباد رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔یہ ابتدائی درجہ والوں کی خلوت کے فوائد ہیں ۔لیکن انتہائی درجہ والے: تو ان کی خلوت ان کے ساتھ لازم ہے۔ اگر چہ وہ مخلوق کے درمیان ہوں ۔ کیونکہ وہ حضرات رضی اللہ عنہم بہت طاقتور ہیں۔ جمع کے ذریعے فرق سے، اور حقیقت کے ذریعے محسوس سے روک لئے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک خلوت اور محفل برابر ہے۔ کیونکہ وہ ہر شے کا حصہ لیتے ہیں لیکن ان کا حصہ کوئی شے نہیں لے سکتی ہے۔
اسی حقیقت کے بارے میں ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مجذوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
الْخَلْقُ نَوَارٌ وَ أَنَا أَرْعَیْتُ فِيهِمْ هُمُ الْحُجُبُ الأَكْبَرُ وَالْمَدْخَلُ فِيهِمُ
حقوق قابل نفرت ہے لیکن میں اس میں چلا ہوں۔ وہ بڑے حجابات میں لیکن انہیں کے درمیان رہنا ہے۔
پس اگر مرید خلوت کے ساتھ خاموشی اور روزہ اور بیداری کا اضافہ کر لے، تو اس کی ولایت کامل ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت ظاہر ہو گی۔ اور اس کے اوپر انوار چمکیں گے اور اس کے قلب کے آئینے سے اغیار کی صورتیں مٹ جائیں گی۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں