خوف و رجاء کی اصل (سولہواں باب)

خوف و رجاء کی اصل کے عنوان سے سولہویں باب میں  حکمت نمبر 149 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے امید اور خوف کی اصل ( بنیاد ) اور ان دونوں کا منشا (سبب) بیان کیا۔ چنانچہ فرمایا:-
149) إِذَا أَرَدْتَ أَنْ يَفْتَحَ لَكَ بَابَ الرَّجَاءِ فَاشْهَدْ مَا مِنْهُ إِلَيْكَ ، وَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ يَفْتَحَ لَكَ بَابَ الْخَوْفِ فَاشْهَدْ مَا مِنْكَ إِلَيْهِ.
گر تم چاہتے ہو کہ تمہارے اوپر امید کا دروازہ کھل جائے ۔ تو تم ان نعمتوں کو دیکھو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کوملی ہیں۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے او پر خوف کا دروازہ کھل جائے تو ان گناہوں کو یاد کرو ۔ جو تم نے اللہ تعالیٰ کے پاس روانہ کیا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اے انسان ! اگر تم یہ چاہتے ہو، کہ کریم ومنان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہاری امید قوی ہو۔ تو تم اللہ تعالیٰ کے اُس احسان اور مہربانی اور بھلائی کو دیکھو ، جو اُس نے تمہارے اوپر کیا ہے۔ تو کیا اس نے تم کو بھلائی کے سوا کسی چیز کا عادی بنایا ؟ اور کیا اُس نے تمہاری طرف احسان کے سوا بھی کچھ روانہ کیا؟ تمہارے اوپر اپنے احسان کو پھیلا دیا اور تمہارے لئے اپنی جنت تیار کر دی۔ اُس نےاس دنیا میں تمہارے او پر انتہائی نعمتوں کے ساتھ انعام کیا۔ اور اس نے تمہارے لئے اس پر قناعت نہیں کیا۔ بلکہ تمہارے لئے دار السلام ( سلامتی کا گھر ) جنت تیار کی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی اور قائم رہے گی۔ پھر اس نے اپنے سابق قدیم احسان کو پورا کرنے کے لئے ، اپنے بزرگ و مقدس چہرہ کے دیدار کا تحفہ عطا فرمایا۔ اور اگر تم یہ چاہتے ہو، کہ تمہارے لئے غم اور خوف کا دروازہ کھل جائے تو تم اپنی برائی اور عبادت میں کوتاہی اور خواہش کی موافقت اور غفلت کے ساتھ خوشی اور انسیت کو دیکھو۔ جو تم نے اس کی طرف روانہ کیا ہے۔ کیونکہ بیشک اگر تم ان کو دیکھو گے۔ تو تمہارا غم ہمیشہ رہے گا۔ اور تمہارا خوف مضبوط ہو جائے گا۔ لیکن اکثر اوقات یہ تمہارے رب کے ساتھ تمہاری بدظنی کا سبب ہو جائے گا۔
( فَتَزِلُّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا ) پھر قدم جم جانے کے بعد پھسل جائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے :-
لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَ جَاءَ بِقَوْمٍ آخَرِينَ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو لے جاتا۔ (فنا کر دیتا ) اور ایک دوسری قوم کو لے آتا ۔ ( پیدا کرنا ) وہ گناہ کرتے۔ پھر استغفار کرتے ۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا۔ بے شک وہ بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔
یہ حدیث شریف اس بات کی دلیل ہے:۔ کہ لطف وکرم کا دیکھنا ، انتقام کے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہے۔
دو خصلتیں ایسی ہیں ، جن سے بڑی کوئی نیکی نہیں ہے :۔
پہلی :- اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن ۔
دوسری: اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن ظن ہے
۔ اور دو خصلتیں ایسی ہیں، جن سے بڑھ کر کوئی برائی نہیں ہے :۔
پہلی:۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدظنی ۔
دوسری : اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بدظنی ہے ۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
اور تیسرا مرتبہ :۔ جس کا بیان باقی رہ گیا ہے۔ وہ اُس کے مشاہدہ میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ امید اور خوف سے غائب ہونا ہے۔ اور یہ اہل شہود کا مقام ہے۔ اس وجہ سے اُن کا معاملہ تمام حالات میں یکساں ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے ذکر خیر سے ہم کو فائدہ پہنچائے ۔ آمین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں