دنیا وی مسافت کا طے ہونا (باب  نہم)

دنیا وی مسافت کا طے ہونا کے عنوان سے  باب  نہم میں  حکمت نمبر 88 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
دنیا کی مسافت کا طے ہونا، صرف اس میں زہد یعنی اس سے کنارہ کشی سے ہی ممکن ہے۔ اور اس میں زہد صرف مخلوق سے ہمت کے اٹھا لینے، اور بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے ، اور جو کچھ مخلوق کے ہاتھ میں ہے اس سے مایوس ہو جانے سے ثابت اور قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا:
88) الْعَطَاءُ مِنَ الْخَلْقِ حِرْمَانٌ ، وَالْمَنْعُ مِنَ اللهِ إِحْسَانٌ.
مخلوق کی جانب سے عطا ( بخش ) محرومی ہے۔ اور مخلوق کی طرف سے عطا سے منع ( محروم کرنا )
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہتا ہوں: مخلوق کی طرف سے بخشش ، تین وجوہ سے، اللہ تعالیٰ کی بخشش سے محرومی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مخلوق کی عطا میں نفس کا فائدہ اور اس کی خوشی ہے۔ اور اس کی خواہشات اور فوائد کا حاصل ہونا ہے۔ اور اس میں قلب کی سختی اور موت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں درجات کی کمی ، اور مرتبوں اور مقامات کے کمال سے نیچے اتر تا ہے۔ اور اسی وجہ سے بزرگان دین نے خواہشات سے فائدہ اٹھانا ترک کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اذْهَبْتُمُ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا تم لوگوں نے اپنی بہترین چیزیں دنیا میں حاصل کرلیں۔
اور کبھی ایسا ہوتا ہے۔ کہ مریدا اپنے نفس کی موت ، اور روح کی حیات کے لئے سوال کرتا ہے۔ لیکن جب اس پر مخلوق کی طرف سے بخشش زیادہ ہو جاتی ہے تو نفس خوش ہوتا ہے ۔ اور مانوس ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس ذریعہ سے جلدی نہیں مرتا ہے۔ بخلاف اس کے کہ جب اس کا سامنا محرومی سے ہو جائے ۔ تو وہ جلدی مرجاتا ہے۔ کیونکہ محرومی میں اس کے لئے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اسی بناء پر جس جہاد میں مال غنیمت حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس کا درجہ اس جہاد سے بڑا ہے۔ جس میں مال غنیمت حاصل ہوتا ہے۔ صحیح حدیث شریف میں حضرت رسول اللہ ﷺوارد ہے۔ حضرت نے فرمایا ہے ۔
إِذَا خَرَجَتْ طَائِفَةٌ لِلْغَزْوِ فَجَاهَدُوا وَ غَنمُوا فَقَدْ تَعَجَّلُوا ثُلُتَى أَجْرِهِمْ، وَإِذَا لَمْ يَغْنَمُوا رَجَعُوا بِأَجْرِهِمْ كَامِلاً
جب کوئی گروہ جنگ کے لئےنکلتا ہے۔ پھر وہ لوگ جہاد کرتے ہیں۔ اور بعد میں مال غنیمت پاتے ہیں۔ تو وہ لوگ اپنے اجر کا دو تہائی حصہ فورا پا لیتے ہیں اور ایک تہائی ان کو آخرت میں ملے گا) اور جب انہیں مال غنیمت نہیں ملتا ہے تو وہ اپنا پورا جر لے کر لوٹتے ہیں۔ (یعنی آخرت میں ان کو پورا اجر ملے گا) یا حضرت نے جس طرح فرمایا ہو۔صلی اللہ علیہ وسلم۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اور مخلوق کی بخشش میں مخلوق کی طرف توجہ، اور ان کی طرف محبت کے ساتھ قلب کا مائل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نفس کی یہ پیدائشی فطرت ہے کہ جو اس کے ساتھ احسان کرے۔ وہ اس کے ساتھ محبت کرے تو وہ اس کے لئے چوری ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں قید ہو جاتا ہے۔
سیدنا حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی وصیت میں ہے:
لا تَجْعَل بَيْنَكَ وَبَيْنَ اللهِ منعماً، وَعِدْ نِعْمَةٌ غَيْرِهِ عَلَيْكَ مَغْرَماً
اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی دوسرا انعام دینے والا نہ بناؤ ۔ اور غیر اللہ کی نعمت کو اپنے اوپر قرض یا تاوان شمار کرو۔
نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مبارک اشعار ہیں:
لَعَمُرُكَ مَنْ اَولَيتَهُ مِنْكَ نِعْمَةٌ وَمَدَّ لَهَا كَفَّا فَأَنْتَ آمِيرُهُ
تمہارے عمر کی قسم جس شخص کو تم نے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کی ۔ اور اس نے اس کے لینے کے لئے تمہارے سامنے ہاتھ پھیلایا۔ تو تم اس کے امیر ہو
وَمَنْ كُنتَ مُحْتَاجاً إِلَيْهِ فَإِنَّهُ أَمِيرُكَ تَحْقِيقاً وَ أَنْتَ أَسِيرہُ
اور جس شخص کے تم محتاج ہو ۔ وہ تمہارا حقیقی امیر ہے۔ اور تم اس کے قیدی ہو۔
وَمَنْ كُنْتَ عَنْهُ ذَاغِنِّى وَهُوَ مَالِكٌ أَزِمَّةَ أَهْلِ الدَّهْرِ أَنْتَ نَظِيرُهُ
اور جس شخص سے تم بے نیاز ہو ۔ وہ اگر چہ اہل زمانہ کا مالک اور سردار ہو۔ پھر بھی تم اس کے مثل اوربرابر ہو۔
فَعِشَ قَانِعَا إِنَّ الْقَنَاعَةَ لِلْفَتى غِنَاهُ وَهَذَا مُقْتَضَى مَا أَشِيرُهُ
پس تم قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ کیونکہ قناعت نوجوان کے لئے غنا ہے۔ اور جس کی طرف میں اشارہ کرتا ہوں۔ اس کا تقاضا یہی ہے۔ اور ایک دوسرا شعر ہے۔
فَلَا الْبَسُ النَّعْمَاءَ وَ غَيْرُكَ مُلبسِى وَلَا أَمْلِكُ الدُّنْيَا وَ غَيْرُكَ وَاهِبِي
میں ایسی نعمتوں کو نہیں پہنتا ہوں جس کو تمہارے سوا کوئی دوسرا پہنانے والا ہو۔ اور میں ایسی دنیا کا مالک ہونا نہیں چاہتا ہوں جس کا دینے والا تمہارے سوا کوئی دوسرا ہو۔
ہمارے شیخ الشیوخ ، اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد ہمارے طریقہ کی بنیاد، مولائےعبد السلام بن مشیش رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوالحسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوالحسن جتنا تم ، لوگوں کی برائی سے بھاگتے ہو۔ اس سے زیادہ ان کی بھلائی سے بھا گو۔ کیونکہ ان کی بھلائی کا اثر تمہارے قلب میں پہنچے گا۔ اور ان کی برائی کا اثر صرف تمہارے بدن پر ہوگا ۔ اور جس چیز کا اثر صرف تمہارے بدن پر پہنچے، وہ اس چیز سے بہتر ہے جس کا اثر تمہارے قلب میں پہنچے ۔ اور وہ دشمن جس کے ذریعہ تم اپنے رب تک پہنچ جاؤ۔ اس دوست سے بہتر ہے جو تم کو تمہارے رب سے جدا کردے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے: پاکیزگی کی عزت فائدہ کے سرور سے زیادہ کامل ہے۔ اسی بناء پر حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
إذا أسدَى إِلَيْكُمْ أَحَدٌ مَعْرُوفاً فَكَا فِئوهُ
جب کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی نیکی کرے تو تم اس کا بدلہ اس کو دو ۔ تا کہ تم اپنے سر سے اس کے احسان کو اتار دو۔ اور اس کی غلامی کو اپنے سے منقطع کردو۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع یعنی محروم کر دینا۔ دو وجوہ سے احسان ہے ۔
پہلی وجہ یہ ہے:۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو نہ بخیلی کی وجہ سے محروم کیا ہے، نہ عاجزی کی وجہ سے۔ بلکہ تمہارے اوپر اچھی نظر رکھنے کے باعث تمہیں محروم کیا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو۔ وہ فی الحال تمہارے لئے بہتر و مناسب نہ ہو ۔ اس لئے اس نے اس چیز کو آنے والے ایسے وقت کے لئے موقوف کر دیا ہو، جو تمہارے لئے زیادہ بہتر اور مناسب ہو ۔ یا اس نے اس کو تمہاری محتاجی کے دن (آخرت) کے لئے جمع کر دیا ہو۔
دوسری وجہ یہ ہے:۔ اس محرومی میں ہمیشہ اس کے دروازے پر ٹھہرے رہنا ، اور اس کی بارگاہ میں پناہ لینا ہے۔ اور ان میں تمہارے لئے انتہائی بزرگی ، اور تمہارے مرتبہ کی بلندی ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ حضرت رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے:
إِذَا دَعَا العَبدُ الصَّالِحُ يَقُولُ الله تَعَالَى لِلْمَلائِكَةِ :- آخِرُوا حَاجَتَهُ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أسْمَعَ صَوْتَهُ، وَإِذَا دَعَا الْفَاجِرُ قَالَ لِلْمَلَائِكَةِ إِقْضُوا حَاجَتَهُ فَإِنِّي أَكْرَهُ صَوْتَهُ أو كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ
جب صالح بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اس کی حاجت پوری کرنے میں تاخیر کرو۔ کیونکہ میں اس کی آواز کو سننا پسند کرتا ہوں ۔ اور جب فاسق و فاجر دعا کرتا ہے۔تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے۔ اس کی حاجت پوری کر دو۔ کیونکہ میں اس کی آواز کوسننا نا پسند کرتا ہوں ۔ یا حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہو۔
تنبیہ : حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے مخلوق کی عطا کو محرومی قرار دیا ہے وہ سائرین، یازاہدین و عابدین کے اعتبار سے ہے۔ لیکن واصلین باللہ متمکنین مع اللہ ،تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سر پرستی اپنے ذمہ لی ہے۔ اور ان کو مخلوق کے مشاہدہ سے غائب کر دیا ہے تو وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصرف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ دفع کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے کو موجود نہیں سمجھتے ہیں ۔ ایک عارف کے اشعار ہیں ۔
مُذْ عَرَفْتُ الَّا لَهُ لَم اَرَ غَيْراً وَكَذَا الْغَيْرُ عِنْدَنَا مَمنوع
جب سے میں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا پھر اس کے بعد غیر کونہیں دیکھا کیونکہ غیر ہمارے نزدیک ممنوع ہے۔
مُذْ تَجَمَّعْتُ مَا خَشِيتُ افْتَرَاقاً فَانَا الْيَوْمَ وَاصِل مَجْمُوع
جب سے میں جمع ہوا پھر اس کے بعد مجھے جدائی کا خوف نہیں ہوا۔ تو میں آج بھی واصل اورجمع کیا ہوا ہوں۔
پس واصلین : ۔ عطا کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیکھتے ہیں۔ وہ مخلوق کی طرف کبھی دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ مگر یہ کہ اس میں حکمت کا واسطہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک عارف کا شعر ہے:
إِذَا مَا رَأَيْتَ اللهَ فِي الْكُلِّ فَاعِلاً رَأَيْتَ جَمِيعَ الْكَائِنَاتِ مِلاحاً
جب تم اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوق میں فاعل دیکھتے ہو۔ تو پھر تمام مخلوق تمہاری نگاہ میں بے حقیقت ہے۔ وباللہ التوفیق
وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ
خلاصہ
یہاں نواں باب ختم ہوا۔ اس باب کا حاصل : عارف کے کمال کی علامت اور طلب میں اور بسط و قبض میں ، اور منع و عطا میں اس کیلئے آداب ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی تمام بخششوں میں سے وہ بخشش ہے۔ جو نیکیاں وہ اپنے بندوں کو نیک اعمال کے صلے میں عطا کرتا ہے۔ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دسواں باب کی ابتدا اسی کے بیان سے کی ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں