دو قسم کی پردہ پوشی (چودھواں باب)

دو قسم کی پردہ پوشی کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 133 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ لوگ معصیت میں ، یا معصیت سے ، پردہ پوشی ، اُس نتیجہ کے خوف سے چاہتے ہیں۔ جو معصیت سے پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی وضاحت فرمائی ہے :-
133) السَّتْرُ عَلَى قِسْمينِ: سَتْرٍ عن المعْصِيَةِ، وسَتْرٌ فيها؛ فالعامَّةُ يَطلُبُونَ مِنَ الله تعالى السَّتْرَ فيها خشيةَ سُقُوطِ مرتبتهِم عِندَ الخلقِ، والخاصةُ يطلبون السترَ عنها خشيةَ سُقُوطِهِم مِن نَظَرِ المَلِكِ الحَقَّ.
پردہ پوشی دو قسم کی ہے :- ایک قسم :- معصیت سے پردہ پوشی ہے اور دوسری قسم :- معصیت میں پردہ پوشی ہے۔
پس عوام :- معصیت میں مبتلا ہونے کی حالت میں، مخلوق کے نزدیک اپنے مرتبہ کے گرنے کے خوف سے ، اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی چاہتے ہیں۔
اور خواص:- اللہ تعالیٰ کی نظر سے اپنے گرنے کے خوف سےمعصیت سے محفوظ رہنے کے لئے ، اللہ تعالیٰ سے پردہ (حفاظت) چاہتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ ستر کے معنی حفاظت کرنا اور ڈھانپنا ہیں اور وہ ظاہر میں :۔ ان آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت کرتا ہے جو بندے کی ہلاکت کا سبب ہوتی ہیں۔ اور باطن میں :۔ رسوائی اورغضب و ناراضی اور مرتبہ کے گرنے سے بچانا ہے۔
اور پردہ معصیت کے اعتبار سے دوقسم کا ہے۔ پہلی قسم :- وہ ہے ۔ جو معصیت کے اندر واقع ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے معصیت کرنے والا رسوا نہیں ہوتا ہے۔ دوسری قسم :- وہ ہے جو معصیت سے واقع ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بندہ معصیت میں مبتلا نہیں ہوتا ہے۔ اگر چہ وہ معصیت کرنا چاہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کی حفاظت اور نگرانی اس کے شامل ہوتی ہے۔ پس عوام :- معصیت میں مبتلا ہونے کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے پردہ پوشی چاہتے ہیں ۔ تا کہ وہ مخلوق کی نظر سے گر نہ جائیں۔ لہذا وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق ہیں :- يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَ هُوَ مَعَهُمُ وہ لوگ آدمیوں سے چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے شرم نہیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے۔
وَٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ ‌أَحَقُّ أَن يُرۡضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤۡمِنِينَ اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں ۔ کہ وہ لوگ اُن کو راضی کریں۔ اگر وہ لوگ مومن ہیں۔
پس عوام کی نظر کی حد ، بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کی نظر سے غائب رہنے کے حال میں صرف مخلوق کا دیکھنا ہے اور یہ اُن کے ایمان کی کمزوری ، یقین کی کمی اور ان کی بصیرت کے اندھا پن کی وجہ سےہے۔
اور بعض اخبار میں وارد ہے:۔
يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : يَا عِبَادِى إن ‌كنتم ‌تعتقدون أني لا أراكم، فالخَللُ في إيمانكم، وإن ‌كنتم ‌تعتقدون أني أراكم فلِمَ جعلتموني أهون الناظرين إليكم تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:۔ اے میرے بندو ! اگر تم لوگ یہ اعتقادر کھتے ہو، کہ میں تم کو نہیں دیکھتا ہوں۔ تو تمہارے ایمان میں خلل ہے۔ اور اگر تم لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہو ، کہ میں تم کو دیکھتا ہوں۔ تو کیوں تم لوگوں نے مجھ کو اپنی طرف دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ کمزور اور حقیر سمجھ لیا ہے۔
لیکن خواص :- تو وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے معصیت سے حفاظت اور پاکیزگی چاہتے ہیں ۔ اس خوف سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر سے گر جائیں گے ۔ کیونکہ بندے سے معصیت کا صادر ہونا بے ادبی ہے اور جو شخص احباب کے ساتھ بے ادبی کرتا ہے ۔ وہ دروازہ کی طرف بھگا دیا جاتا ہے ۔ پھر اگر ان سے کوئی معصیت سرزد ہو جاتی ہے۔ تو وہ معذرت کرنے (معافی مانگنے ) میں جلدی کرتے ہیں۔ اور اُن کو شرمندگی اور عاجزی لاحق ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنی سیر میں کوشش کرتے ہیں۔ اور اپنے نفسوں کے ساتھ نہیں ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی نظر میں نفس کا کوئی وجودہی نہیں ہے ۔ اور نہ اُن کی توجہ مخلوق کی طرف ہے۔ اس لئے کہ اُن کی نظر میں بادشاہ حقیقی اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے شہود میں مخلوق کے دیکھنے سے ، یا حقیقت کے شہود میں محسوس ظاہر کے دیکھنےسے ، یا موسوط کے شہود میں واسطہ کے دیکھنے سے غائب ہو چکے ہیں۔ لیکن خاص الخاص – تو وہ نہ کوئی شے چاہتے ہیں ۔ نہ کسی شے سے خوف کرتے ہیں ۔ تمام اشیاء اُن کے نزدیک ایک شے ہوگئی ہیں۔ اور وہ ایک کے شہود میں ہر ایک سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ اس لئے وہ یہ دیکھتے ہیں۔ کہ قدرت کی اصل سے کیا ظاہر ہوتی ہے۔ پھر وہ قبول اور رضا کے ساتھ اُس کا استقبال کرتے ہیں۔ پھر اگر وہ طاعت ہوتی ہے۔ تو اُس میں احسان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور اگر وہ معصیت ہوتی ہے تو اُس میں قہریت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور اُس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو بہ اور عاجزی کے ذریعے ، حضرت نبی مختار ﷺ کی شریعت کے ادب کو قائم رکھتے ہوئے با ادب رہتے ہیں۔
ان تینوں مقامات کے بارے میں امت کو تعلیم دینے کے لئے احادیث شریف وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے گناہوں پر اور گنا ہوں سے حفاظت کیلئے اور اللہ تعالی کے احکام قہریہ کے سامنے رضا و تسلیم کے مقام کو طلب کرنے کے لئے دعا فرمائی۔ یہ سب دعا ئیں حدیث کی کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لئے ہم انہیں طویل ہونے کے خوف سے بیان نہیں کرتے ہیں۔
پھر جب اللہ تعالیٰ تمہارے عیوب اور گناہوں کو چھپا دے اور لوگ تمہاری طرف تعظیم و تحریم اور بزرگی کے ساتھ متوجہ ہو جائیں تو تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسان کو پہچانو ۔ اور تم اس کو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھو۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں