ربوبیت اورعبودیت کے اوصاف (تیرھواں باب)

ربوبیت اورعبودیت کے اوصاف کے عنوان سے تیرھویں باب میں  حکمت نمبر 125 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

تیرھواں باب

ربوبیت کے اوصاف کے متعلق ہونے ، اور عبودیت کے اوصاف پر ثابت و قائم ہونے ، آزادی کے وصف میں ، اور اپنی عادت میں اللہ تعالی کے ساتھ تمہارے شریک نہ ہونے کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا: –
125) كُنْ بِأَوْصَافِ رُبُوْبِيَّتِهِ مُتَعَلِّقَاً، وَبِأَوْصَافِ عُبُوْدِيَّتِكَ مُتَحَقِّقَا
اللہ تعالی کے ربوبیت کے اوصاف کے ساتھ متعلق ہو جاؤ اور اپنی عبودیت کے اوصاف پر ثابت قدمی سے قائم ہو جاؤ
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ ربوبیت کے اوصاف :- عزت اور کبریائی ، اور عظمت اور غنا، اور قدرت، اور علم ہے اور ان کے سوا وہ تمام کمالات کے اوصاف ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
اور عبودیت کے اوصاف :- ذلت ، اور محتاجی اور عاجزی اور کمزوری اور جہالت ہے اور ان کے علاوہ وہ تمام عیوب ہیں جو بندگی کیلئے مناسب ہیں۔
اور اللہ سبحانہ تعالی کے اوصاف کے ساتھ تعلق کی کیفیت:- یہ ہے کہ تم اپنے تمام معاملات میں اس سے التجا کرو اور اپنی کل حاجتوں میں اس پر بھروسہ کرو اور اس کے ماسوا سب کو چھوڑ دو اور وجود میں اللہ تعالی کے سوا کچھ نہ دیکھو کیونکہ اگر تم اس کی عزت ، اور کبریائی اور عظمت کی طرف نظر کرو گے تو تم اس کے ساتھ عزت حاصل کرو گے اور اس کے غیر کے ساتھ عزت نہ حاصل کرو گے۔ (یعنی اس کے غیر کے ساتھ عزت حاصل کرنے کی حاجت اور پرواہ تم کو نہ ہوگی ) اور تمہاری نظر میں اس کے سوا ہرشے حقیر ہو جائے گی۔ اور جب تم اللہ تعالی کے وصف فنا کی طرف نظر کرو گے تو تم اس کے غنا سے وابستہ ہو جاؤ گے اور اس کے ماسوی سے بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ اور تم کسی شے کے محتاج نہیں رہو گے۔ اور تم کو اس کے ساتھ ہرشے سے بے نیاز ہو جاؤ گے ۔ اور جب تم اللہ تعالی کے وصف قدرت اور قوت کی طرف نظر کرو گے تو تم اپنی عاجزی اور کمزوری کے حال میں صرف اسی کی قدرت ، اور قوت سے التجا کرو گے۔ اور تم ہرشے کو عاجز اور کمزور سمجھو گے اور جب تم اس کے علم کی وسعت ، اور اس کے احاطہ کرنے کی کیفیت کی طرف دیکھو گے تو تم اس کے علم ہی کو کافی سمجھو گے اور اس سے مانگنے سے بے نیاز ہو جاؤ گے اور زبان حال سے کہو گے ۔
عِلْمُهُ بِحَالِي يُغْنِي عَنْ سُؤالِی اللہ تعالی کو میرے حال کو علم ہونا میرے سوال سے مجھ کو بے نیاز کرتا ہے اور اسی طرح اس کے تمام اوصاف اور اسماء حسنہ میں نظر کرو کیونکہ سب کے سب تعلق پیداکرنے اور ان سے اپنے اخلاق کو آراستہ کرنے اور ان کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہونے کے لائق ہیں۔
اور اللہ سبحانہ تعالی کے اوصاف کے ساتھ تخلق (اپنے اخلاق کو آراستہ کرنے ) کی کیفیت یہ ہے کہ تم اپنے باطن میں اس کے ساتھ عزیز اور قوی ہو جاؤ گے۔ اور اس کے نزدیک عظیم اور کبیر ہو جاؤ اور اس کے دین میں مضبوط اور اس کی معرفت میں کامل اور اس کے احکام کے عالم ہو جاؤ اسی طرح کل اوصاف سے اپنے اخلاق کو آراستہ کرنا ہے، اور اس کا حاصل باطن میں آزادی اور ظاہر میں بندگی کا استعمال کرنا ہے اور اللہ تعالی کے اسماء حسنہ کے ساتھ تحقق ( ثابت قدمی سے قائم ہونے ) کی کیفیت یہ ہے کہ یہ حقیقتیں تمہارے اندر مضبوط ، اور ان کا وجود تمہارے اندر ثابت اور قائم ہو جائے ۔ پس تخلق اللہ تعالی کے اوصاف سے اپنے اخلاق کو آراستہ کرنا ) مجاہدہ ہے۔ اورتحقق (اللہ تعالی کے اسماء حسنہ کی حقیقتوں میں ثابت اور قائم ہو جانا ) مشاہدہ ہے۔ یعنی اس کا وجود اصلی اور فطری ہے۔
اور عبودیت کے اوصاف کے ساتھ اپنے اخلاق کو آراستہ کرنے کی کیفیت :- یہ ہے کہ ظاہر میں ذلت اور عاجزی کے ساتھ قائم ہونا اس طرح کہ ذلت اور عاجزی تمہارے نزدیک پیشہ اور طبیعت بن جائے جس سے تم کو ناگواری نہ محسوس ہو ۔ بلکہ اس میں تم کو لذت حاصل ہو اور اس کے ساتھ تم رشک (فخر ) کرو اور اسی طرح محتاجی ، اور کمزوری ، اور جہالت اور عبودیت کے تمام اوصاف اپنے وجود کے ساتھ تمہارے ظاہر میں مضبوطی سے قائم ہو جا ئیں اس طرح کہ یہ تمہارے نزدیک عزت بن جائے۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی فرماتے تھے : اہل ظاہر بلندی کی حرص رکھتے ہیں کہ کون ان میں اعلیٰ درجہ حاصل کرتا ہے اور اہل باطن عاجزی کی رغبت رکھتے ہیں، کہ ان میں سے کون زیادہ عاجزی وانکساری کرنے والا ہے۔
حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے ۔ ربوبیت کے اوصاف چار ہیں اور ان کے مقابل یعنی مخالف چار اوصاف ہیں وہی عبودیت کے اوصاف ہیں۔
پہلا وصف :-غنا ( بے نیازی ) ہے۔ اس کے مقابلے میں محتاجی ہے۔
دوسرا وصف ۔ عزت ہے اس کے مقابلے میں ذلت ہے۔
تیرا وصف : قدرت ہے اس کے مقابلے میں عاجزی ہے۔
چوتھا وصف :۔ قوت ہے اس کے مقابلے میں کمزوری ہے۔
اور یہ سب اوصاف لازم ملزوم ہیں اگر ان میں سے ایک وصف پایا جائے گا تو کل اوصاف پائے جائیں گے اور مقابل وصف کا موجود ہونا ، اپنے مقابل وصف کے موجود ہونے کیلئے لازم ہے
اس لیے جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ بے نیاز ہوتا ہے وہ اس کا محتاج ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کامحتا ج ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ بے نیاز ہوتا ہے۔ یعنی اس کو کافی سمجھتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ عزت پاتا ہے وہ اس کیلئے ذلیل ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کیلئے ذلیل ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ عزیز ہوتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے ، وہ اپنے نفس کو عاجز دیکھتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس کو عاجز دیکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس کی کمزوری کو دیکھتا ہے وہ اللہ تعالی کی قوت کو دیکھتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کی قوت کو دیکھتا ہے وہ اپنے نفس کی کمزوری کو دیکھتا ہے ۔ پس اگر نظر کی وسعت اپنے اوصاف کی طرف ہو تو تم اللہ تعالی کے محتاج ہو اور اگر نظر کی وسعت اللہ تعالیٰ کے اوصاف کی طرف ہو تو تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے نیاز ہو اور یہ فقر اور غنا – عارف پر یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں، توکبھی اس کے اوپر اللہ تعالی کے ساتھ غنا غالب ہوتا ہے۔ تو اس کے اوپر عنایت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اورکبھی اس کے اوپر اللہ تعالی کے سامنے اپنی محتاجی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو وہ رعایت کو اختیار کرتا ہے اس لیے جس وقت اللہ تعالیٰ کے حبیب پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ غنا غالب ہوتا ہے تو ہزار صاع کھلا دیتا ہے۔ اور جس وقت اس کے اوپر اللہ تعالی کی طرف محتاجی غالب ہوتی ہے تو بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا ہے۔ پس تم اس کو بخوبی سمجھو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ جو ہم نے پہلے بیان کیا ہے اس کی حقیقت یہ ہے – ربوبیت کے اوصاف کے ساتھ تعلق باطن میں ہوتا ہے۔ اور عبودیت کے اوصاف پر قائم ہونا ظاہر میں ہوتا ہے۔ پس باطن میں ہمیشہ آزادی ہے اور ظاہر میں ہمیشہ بندگی ہے تو باطن کی آزادی :۔ یہی ربوبیت کے اوصاف کا مشاہدہ کرتا ہے اور ان اوصاف کے ساتھ تعلق کا یہی مفہوم ہے لیکن اگر یہ مجاہدہ (یعنی محنت اور کوشش
سے حاصل ہو ) تو تعلق ہے اور اگر طبعی اور فطری ہو تو تحقق ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- اگر وہ حال ہو، تو تعلق ہے اور اگر وہ مقام ہو ، تو تحقق ہے۔ اور ظاہر کی عبودیت :۔ حکمت کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اور قدرت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے عبودیت کے اوصاف کا مشاہدہ کرتا ہے۔
حاصل یہ ہے:۔ ربوبیت کی عظمت ، عبودیت کے مظہروں میں ظاہر ہوئی ہے ۔ لہذا جو شخص صرف عظمت کو دیکھتا ہے وہ ربوبیت کی عظمت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے اور جو شخص مظہر کے ظاہر کو دیکھتا ہے وہ عبودیت کے اوصاف کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اور کامل :- دونوں کو ایک ساتھ دیکھتا ہے اس لیے وہ باطن میں ربوبیت کی عظمت کے ساتھ ، اور ظاہر میں عبودیت کے اوصاف کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس لیے وہ ہر حقدار کو اس کا حق دیتا ہے۔ تو اس کے باطن میں سب عیاں ہوتا ہے اور اس کے ظاہر میں فرق موجود ہوتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں