زاہد اور راغب کے اعمال (باب پنجم)

زاہد اور راغب کے اعمال حکمت نمبر45

زاہد اور راغب کے اعمال کے عنوان سے  باب  پنجم میں  حکمت نمبر45 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
شیخ کے اندر جس صفت کی مضبوطی کی تحقیق کرنی ہے یعنی جس صفت کا موجود ہونا اہم اور ضروری ہے وہ دنیا میں زہد ( کنارہ کشی اختیار کرنا اور ہمت کو اس کی طرف سے ہٹا لینا ہے۔ اگر چہ اس کا عمل ظاہر میں کم ہو۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
45) مَا قَلَّ عَمَلٌ بَرَزَ مِنْ قَلْبٍ زَاهِدٍ ، وَلاَ كَثُرَ عَمَلٌ بَرَزَ مِنْ قَلْبٍ رَاغِبٍ.
زاہد کے قلب سے جو عمل صادر ہوتا ہے۔ وہ کم نہیں ہے ۔ اور راغب (دنیا کی طرف رغبت کرنے والے )کے قلب سے جو عمل صادر ہوتا ہے وہ زیادہ نہیں ہے ۔

زہد کسے کہتے ہیں

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : کسی چیز میں زہد اس چیز کی محبت دل سے نکل جانا اور اس کی طرف سے دل کا سرد ہونا ہے۔ اور اہل تصوف کے نزدیک ہر اس شے سے نفرت کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرےاور اس کے حضور سے رو کے اور زہد :
ایک تو مال میں ہوتا ہے اور اس کی علامت یہ ہے: اس کے نزدیک سونا اور مٹی ، چاندی اور پتھر ، دولتمندی اور محتاجی ، روکنا اور دینا، برا بر ہوتا ہے۔
اور دوسرا جاہ و مرتبہ میں ہوتا ہے اس کی علامت یہ ہے : اس کے نزدیک عزت اور ذلت ، شہرت اور گمنامی تعریف اور بد گوئی، او پر اٹھنا اور نیچے گرنا، برا بر ہوتا ہے۔
اور تیسرا :۔ مقامات و کرامات اور خصوصیات میں ہوتا ہے:۔ اس کی علامت یہ ہے۔ اس کے نزدیک امید اور ڈر، طاقت اور کمزوری، کشائش اور تنگی برابر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ جس حال میں چلتا ہے۔ اسی حال میں اس کے ساتھ بھی چلتا ہے۔ اور اس میں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ جس طرح اس میں معرفت حاصل کرتا ہے۔ پھر خالق اور اس کے حکم کے مشاہدہ میں تمام حقوق میں زہر ہوتا ہے۔ تو جب مرید زہد میں ان مقامات پر یا اکثر مقامات پر قائم ہو جاتا ہے تو اس کے علم کے مشاہدہ میں تمام حقوق میں زہد ہوتا ہے تو جب مرید زہد میں ان مقامات پر یا اکثر مقامات پر قائم ہو جاتا ہے تو اس کے سب مثل حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت عظیم الشتان ہو جاتے ہیں اگر چہ ظا ہر میں لوگوں کے نزدیک کم ہوں۔ حضرت نبی کریم ﷺکے اس فرمان مبارک کا یہی مفہوم ہے

تھوڑ امسنون عمل زیادہ بدعتی عمل سے بہتر ہے

عَمَلٌ قَلِيلٌ فِي سُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ عَمَلٍ كَثِيرٍ فِي بِدْعَةٍسنت کا تھوڑ اعمل بدعت کے زیادہ عمل سے بہتر ہے ۔
اور دنیا کی محبت اور قلب اور جسم کے ساتھ سر کے بل اس پر گرنے سے زیادہ بڑی اور عظیم الشان کون سی بدعت ہے جو نہ حضرت نبی کریم کی ﷺ کے زمانہ میں تھی نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تھی۔ یہاں تک کہ فرعونوں کا گروہ ظاہر ہوا اور انہوں نے بڑی بڑی عمارتیں بنا ئیں اور ان کو خوب مضبوط کیا اور خوب آرائش وزیبائش کی ۔ پس یہی حقیقی بدعت ہے تو ایسے لوگوں کا عمل حقیقت میں کم ہے اگر چہ ظاہر میں زیادہ ہو۔ اس لئے کہ جسموں کی حرکت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ حقیقتا اعتبار روحوں کے خضوع یعنی عاجزی کا ہے۔ زاہد کی عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ راغب کی عبادت نفس کے ساتھ نفس کیلئے ہے۔ زاہد کی عبادت: زندہ اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور راغب کی عبادت: مردہ اور فنا ہو جانے والی ہے۔ زاہد کی عبادت متصل یعنی ہمیشہ جاری ہے اور راغب کی عبادت پوری ہوئے بغیر منقطع ہو جانے والی ہے۔ زاہد کی عبادت : اللہ تعالیٰ کے حضور کی مسجدوں میں ہوتی ہے جن کے بلند کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور راغب کی عبادت گندگیوں کے ڈھیر پر ہوتی ہے جن کے ہٹانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

ایک عارف کا قول

ایک عارف نے فرمایا ہے دولت پر سب کی عبادت گند گیوں کی ڈھیر پر نماز پڑھنے والے کی طرح ہے۔ زاہد کی عبادت:۔ جو ظاہر میں کم ہونے کے باوجود حقیقت میں زیادہ ہوتی ہے اور راغب کی عبادت:۔ جو ظاہر میں زیادہ ہوتی ہے لیکن حقیقت میں کم ہوتی ہے۔ دونوں کی مثال :- دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے بادشاہ کے حضور میں ہدیہ پیش کیا ان میں سے ایک شخص نے ایک چھوٹا سا یا قوت صاف شفاف جس کی قیمت ساٹھ قنطار ہے ہدیہ پیش کیا اور دوسرے شخص نے ساٹھ خالی بکس پیش کیا ۔ تو اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ بادشاہ یا قوت کو قبول کرے گا اور اس کے پیش کرنے والے کی عزت واحترام کرے گا۔ اور بکسوں کو واپس کر دے گا اور اس کے پیش کرنے والیے کو ذلیل ورسوا کرے گا اور اس کے اوپر غصہ کرے گا کیونکہ اس نے خالی لکڑی جس کی شہرت اس کی منفعت سے زیادہ ہے۔ ہدیہ پیش کر کے بادشاہ کے ساتھ مذاق کیا ہے۔
میں نے اپنے شیخ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ۔ دنیا میں راغب :۔ غافل ہے اگر چہ اپنی زبان سے ہمیشہ اللہ اللہ کہتا ہے۔ کیونکہ زبان کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور دنیا میں زاہد :- ہمیشہ ذاکر ہے اگر چہ زبان سے اس کا ذکر کم ہو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: بعض عارف مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ (لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا) وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے ہیں مگر کم۔ یعنی غفلت اور دنیا میں رغبت کے ساتھ اگر چہ ظاہر میں زیادہ ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے :۔
كُونُوا لِقُبُولِ الْعَمَلِ أَشَدَّ مِنْكُمْ اهْتِمَامًا لِلْعَمَلِ فَإِنَّهُ لَمْ يَقِلُ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وَكَيْفَ يَقِلُّ عَمَلُ يُقبل تم لوگ اسے عمل کے قبول ہونے کیلئے عمل کے درست کرنے میں دوسروں سے زیادہ سخت ہو جاؤ بیشک تقوی کے ساتھ عمل کم نہیں ہوتا ہے اور جو عمل مقبول ہو جائے وہ کم کیسے ہو سکتا ہے؟
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔
رَكَعَتَانِ مِنْ زَاهِدٍ عَالِمٍ خَيْرٌ وَأَحَبُّ عِندَ اللَّهِ مِنْ عِبَادَةِ الْمُتَعَبدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ إِلَى آخِرِ الدَّهْرِ ابدا
زاہد عالم کی دورکعت نماز، زندگی کے آخری وقت تک کوشش کر کے ہمیشہ عبادت میں رہنے والوں کی عبادت سے اللہ تعالی کے نزدیک افضل اور محبوب ہے۔

ایک اہل اللہ کا قول

اور سلف صالحین میں سے ایک صالح نے فرمایا ہے:۔ حضرت محمدﷺ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے تم کو نہ زیادہ نماز ادا کرنے کا فتوی دیانہ زیادہ روز و ر کھنے کا ۔ مگر یہ کہ وہ لوگ دنیا کے زاہد یعنی تارک تھے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی حکایت بعض حدیث میں وارد ہے:۔ سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام ایک سونے والے کے پاس سے گزرے اس جگہ بہت سے لوگ عبادت کر رہے تھے، حضرت عیسی علیہ السلام نے اس سے فرمایا اٹھو، اور سب لوگوں کے ساتھ تم بھی عبادت کرو۔ اس نے کہا: اے روح اللہ میں نے عبادت کر لی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تمہاری عبادت کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے دنیا کو دنیا والوں کیلئے چھوڑ دیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: تم سو جاؤ۔ یہ بہترین عبادت ہے۔ یا جس طرح فرمایاہو، علیہ السلام۔
ایک شخص نے حضرت شیخ ابوالحسن رحمہ اللہ تعالیٰ سے کہا:۔ میں ایسا کیوں دیکھتا ہوں کہ لوگ آپ کی عزت و تعظیم کرتے ہیں اور میں نے آپ کا کوئی برا عمل نہیں دیکھا۔ حضرت ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صرف ایک سنت کے سبب لوگ میری عزت کرتے ہیں۔ وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر فرض کیا۔ میں نے اس سنت کو مضبوطی سے پکڑا ، اس شخص نے پوچھا ۔ وہ کون سی سنت ہے ؟ حضرت نے جواب دیا: تم سے اور تمہاری دنیا سے نفرت کرنا ہے۔
زاہدوں کی فضیلت تین وجہوں سے ہے حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ زاہدوں کیلئے یہ فضیلت ہے تین وجہوں سے ہے۔
پہلی وجہ شواغل ( اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی چیزوں ) اور شواغب (برائی پر ابھار نے والی چیزوں) سے انکا قلب خالی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے، محبت میں صدق و اخلاص کے ساتھ وہ حاضر ہیں کیونکہ دنیا محبوب ہے وہ نہیں چھوڑی جا سکتی ہے مگر اس کیلئے جو اس سے زیادہ محبوب ہو حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ۔ (‌الصَّدَقَةُ ‌بُرْهَانٌ) صدقہ دلیل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے بندے کے محبت کی دلیل ہے۔
تیسری وجہ:۔ یہ ہے ، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے اور پر وثوق و اعتماد کی دلیل ہیں ۔ کیونکہ موجود کو خرچ کرنا، معبود پر اعتماد کی دلیل ہے۔ اور موجود کو روکنا: معبود سے بدظنی کی دلیل ہے۔ چونکہ ظاہری عمل کی خوبی ، اور اس کی وہ مضبوطی جس سے وہ کامل اور ناقص ہوتا ہے در حقیقت وہ باطن اور اس کے احوال کی خوبی کا نتیجہ ہے لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا:


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں