سالک کی ہمت (باب دوم)

سالک کی ہمت حکمت نمبر20

سالک کی ہمت کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر20 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چوتھا ادب : مخلوقات سے ہمت کو بلند رکھنا، اور عرفان کے مقام میں ہمیشہ ترقی کرتے رہنا ، اور ہرشے پر اللہ تعالیٰ سے استدلال کرنا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا ۔
20) ما أَرادَتْ هِمَّةُ سالِكٍ أَنْ تَقِفَ عِنْدَ ما كُشِفَ لَها إلا وَنادَتْهُ هَواتِفُ الحَقيقةِ: الَّذي تَطْلُبُ أَمامَكَ. وَلا تَبَرَّجَتْ ظَواهِرُ المُكَوَّناتِ إلا وَنادَتْهُ حَقائِقُها: {إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ}.
جب سالک کے سامنے کوئی مقام کھولا جاتا ہے۔ اور سالک کی ہمت اس مقام میں ٹھہر نے کا ارادہ کرتی ہے۔ تو حقیقت کی غیبی آوازیں اس کو پکارتی ہیں: ۔ تو جس کو طلب کرتا ہے وہ ابھی اورآگے ہے۔ اور جب مخلوقات کی ظاہری شکلیں آرائش و زیبائش کے ساتھ اس کے سامنے آتی ہیں۔ تو ان کی حقیقتیں اس کو پکارتی ہیں:۔ ہم در حقیقت آزمائش ہیں۔ پس تو کفر نہ کر۔

آمادہ کرنے والی قوت کا نام

سالک کی ہمت سیر کے لئے آمادہ کرنے والی قوت کا نام ہے۔ اور اس کا کسی مقام میں ٹھہر نا:۔ اس کا یہ یقین کرنا ہے کہ جس مقام میں وہ پہنچا ہے، یہی آخری مقام ہے۔ یا یہی کافی ہے۔
تمرج: کسی شے کا اپنی طرف مائل کرنے کے ارادے سے آرائش و زیبائش کے ساتھ سامنے آنا ہے۔ مخلوقات کا ظاہر ان کی ظاہری شکل کی زینت اور حکمت ہے۔ اور ان کا سامنے آنا ۔ سالک کی ہمت کے زیر اثر اپنی عادت کے خلاف ہونا اور سالک کے حکم کی اطاعت کرنی ہے۔ اسی کا نام کرامت ہے۔ مخلوقات کی حقیقت ۔ ان کا باطنی نور ہے۔ اور وہ ان کے اندر حقیقت کی تجلی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: سالک وہ ہے جو اثر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پس اگر وہ اپنے نفس میں مشاہدہ کرتا ہے تو وہ فقط سالک ہے۔ اور وہ سیر کی حالت میں ہے۔ اور اگر وہ اثر کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے۔ تو وہ سالک مجذوب ہے۔ اور جو مقامات وہ طے کرتا ہے، وہ تین ہیں:
پہلا مقام :- فنافی الافعال افعال میں فنا ہونا۔ دوسرا مقام: فنافی الصفات صفات میں فنا ہونا۔ تیسرا مقام: فنافی الذات۔ ذات میں فنا ہونا۔
یا تم اس طرح کہو : فنافی الاسم نام میں فنا ہونا۔ فنافی الذات ، ذات میں فنا ہوتا۔ فتانی الفناء فنا میں فنا ہوتا ۔ اور یہ بقا کا مقام ہے۔ پھر اس کے بعد ایسی ترقی ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پس جب توحید افعالی کا راز سالک کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ اس کی لذت چکھتا ہے۔ اور اس کی ہمت اس مقام میں ٹھہرنے کا ارادہ کرتی ہے۔ تو فنافی الصفات کی حقیقت کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں ۔ تیرا مطلوب ابھی اور آگے ہے ۔
اور جب سالک ترقی کر کے فنافی الصفات کے مقام میں پہنچتا ہے۔ اور توحید صفاتی کا راز اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ فنائے صفاتی کا شرف حاصل کرتا ہے۔ اور اس کی ہمت اس مقام میں ٹھہر نے کا ارادہ کرتی ہے۔ تو فنافی الذات کی حقیقت کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں۔ تیرا مطلوب ابھی اور آگے ہے ۔
اور جب سالک ترقی کر کے فنافی الذات کے مقام میں پہنچتا ہے ۔ اور توحید ذاتی کا راز اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اس کی ہمت اس مقام میں ٹھہر نے کا ارادہ کرتی ہے۔ تو فنافی الفنا، یا بقاء کی حقیقت کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں۔ تیرا مطلوب ابھی اور آگے ہے ۔
اور جب سالک بقاء کے مقام میں پہنچتا ہے۔ تو غیبی علوم کے ہاتف اس کو پکار کر کہتے ہیں: (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) اور تم کہو اے میرے رب مجھے علم میں زیادہ کر اور حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
‌لا ‌أُحْصِي ‌ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ میں تیری مدح وثنا کی طاقت نہیں رکھتا ہوں۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی مدح وثناکی ہے ۔ یا تم اس طرح کہو:۔ جب سالک کے سامنے فنافی الاسم کا مقام ظاہر ہوتا ہے۔ اور وہ عمل اور ذکر کی لذت پا کر اسی مقام میں ٹھہر نے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو فنافی الذات کی حقیقتوں کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں:۔ تیرا مطلوب ابھی اور آگے ہے اور جب وہ ترقی کر کے فنافی الذات کے مقام میں پہنچتا ہے لیکن ابھی تمکین کے مقام تک اس کی رسائی نہیں ہوتی ہے تو وہ اس مقام کی لذت پا کر اس پر قناعت کرتا ہے۔ اور اس کی ہمت اس مقام میں ٹھہرنے کا ارادہ کرتی ہے۔ تو تمکین کے مقام کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں: تیرا مطلوب ابھی اور آگے ہے ۔
اسی طرح ہر مقام اپنے سے پہلے مقام پر ٹھہرنے والے کو آگے بڑھنے کے لئے پکارتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(يَا أَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ اے یثرب کے رہنے والو تمہارے لئے ٹھہر نے کا مقام نہیں ہے ۔
اور جب مخلوقات کی ظاہری شکلیں اپنی آرائش و زیبائش کے ساتھ سالک یا عارف کے سامنے اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی عادتوں کے خلاف ظاہر ہوتی ہیں۔ اور وہ اپنی ہمت سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ جیسے پانی پر چلنا، اور ہوا میں اڑتا ، اور پانی جاری ہونا ، اور کھانا حاضر کرنا وغیرہ محسوس کرامات کا ظاہر ہونا۔ اور سالک کی ہمت ان کی اس ظاہر حالت کے ساتھ پھیرنے کا ارادہ کرتی ہے۔ اور ان کی محسوس لذت میں مشغول ہوتی ہے۔ تو ان مخلوقات کی باطنی حقیقت کے ہاتف اس کو پکارتے ہیں۔ ہم تمہارے لئے آزمائش ہیں۔ ہمارے ذریعے تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے۔ تو کیا تم مخلوقات کے مالک اور خالق کی ، جو ان کے اندر جلوہ گر ہے۔ معرفت ترک کر کے انہی مخلوقات پر قناعت کر لو گے؟ یا ان مخلوقات کے ظاہر سے منہ پھیر کر ان کے باطنی نور، اور ان کے مالک اور جاری کرنے والے کے مشاہدہ کی طرف بڑھو گے؟ پس تم کفر نہ کرو۔ اوران میں جلوہ گر مالک و خالق سبحانہ تعالیٰ کا دیده ودانسته انکار نہ کرو ۔ کیونکہ انکار میں مبتلا ہونے سے تمہارا شمار جاہلوں یعنی کافروں میں ہوگا ۔

مقامات میں سیر کی مثال

حضرت ساحلی نے اپنی کتاب بغیہ میں ان مقامات اور ان میں سیر کرنے کی مثال اس طرح بیان کی ہے: اس کی مثال یہ ہے: مشرق میں ایک بادشاہ ظاہر ہوا۔ اور اپنی کتاب دے کر اپنے رسول یعنی قاصد کو ہمارے پاس بھیجا ۔ اس رسول نے بادشاہ کی کتاب پڑھ کر ہمیں سنائی۔ اور بادشاہ کے انعامات و اکرامات ( بخششیں ) بیان کر کے اس کی اطاعت کرنے اور اس کے پاس پہنچنے کے لئے ہم کو بہت زیادہ شوق دلایا۔ پس آدمیوں میں سے کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کیا۔ یہی لوگ کافر ہیں۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت قبول کی ۔ اور اس رسول پر ایمان لائے لیکن انہیں بادشاہ کے دربار تک پہنچنے کی طاقت نہیں ہوئی۔ یہ عام مسلمان اور کمزور محبت اور یقین والے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کے دل میں بادشاہ سے ملاقات کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اور اس کی بارگاہ میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے ۔ تو رسول نے ان سے کہا ہم تم لوگوں کو اپنے ساتھ لے چلیں گے ۔ اور راستہ بھر اچھی طرح تمہاری رہنمائی کریں گے ۔ پس ان لوگوں نے رسول کو امام اور رہنما بنا کر اپنے آگے کیا۔ اور اس کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ راستے میں ان لوگوں کو یہ حقیقت نظر آئی کہ بادشاہ نے راستے میں ہر منزل پر شہر بنا رکھا ہے اور اپنے دربار میں آنے والوں کے ٹھہرنے کے لئے بہترین مکانات بنائے ہیں۔ اور ہر منزل اپنے پہلے والی منزل سے بہت بڑی اور عظیم الشان ہے۔ اور اس کی بارگاہ تک ہر منزل میں ایسے انتظامات ہیں۔ تو جب یہ لوگ پہلی منزلوں میں اترتے ہیں اور اس کی شان و شوکت اور خوبصورتی و آرام کو دیکھتے ہیں ۔ تو اسی منزل میں ٹھہر جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ تو بادشاہ کا رسول جو ان کے ساتھ ہے۔ ان سے کہتا ہے: تمہاری مطلوبہ منزل ابھی اور آگے ہے۔ پھر وہ رسول ان لوگوں کو اس منزل سے آگے لے جاتا ہے پھر جب وہ لوگ دوسری منزل میں پہنچتے ہیں تو اس کو پہلے سے بڑا اور عظیم الشان پاتے ہیں تو وہ اس مقام میں ٹھہر نے کا ارادہ کرتے ہیں۔ لیکن بادشاہ کا رسول ان کو اور آگے لے جاتا ہے۔ اس طرح وہ رسول ان لوگوں کو یکے بعد دیگرے ساری منزلیں طے کراتے ہوئے لیجا کر بادشاہ کے حضور میں کھڑا کر دیتا ہے۔ پھر وہ رسول ان لوگوں سے فرماتا ہے: لو اب تم ہو، اور یہ تمہارا رب ہے ۔ پس اب وہ لوگ
ممکن اور مشقت سے نجات پا کر آرام کرتے ہیں ۔ اور ہم نشینی اور دیدار کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اور رسول سے مراد: حضرت نبی کریم ﷺ ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور ان کے خلفاء ہیں۔ جو قدم بقدم ان کے متبع اور شریعت و حقیقت کے جامع ہیں۔ اور منزلیں وہ مقامات ہیں جن کو حقیقت کا ارادہ کرنے والا مرید طے کرتا ہے اور طویل ہونے کے خوف سے یہ مثال مختصر کر کے بیان کی گئی ہے۔ اور حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے اپنے اس کلام میں ان مقامات اور کرامات میں نہ ٹھہرنے کی تنبیہ فرمائی ہے:
فَلَا تَلْتَفِتُ فِي السَّيْرِ غَيْرًا وَكُلُّ مَا سِوَى اللَّهِ غَيْرَ فَاتَّخِذُ ذِكْرَهُ حِصْنَا
پس تم مقامات کی سیر میں غیر کی طرف توجہ نہ کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوال کل اشیاء غیر ہیں ۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قلعہ بنالو۔
وَكُلُّ مَقَامٍ لَا تَقُمْ فِيهِ إِنَّهُ حِجَابٌ فَجِدٌ السَّيْرَ وَاسْتَنْجِدِ الْعَونَا
اور کسی مقام میں نہ ٹھہرو ۔ کیونکہ سارے مقامات حجاب ہیں۔ لہذا تم سیر کی رفتار تیز کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو وَمَهُمَا تَجِدُ كُلَّ الْمَرَاتِبِ تُجْتَلَى عَلَيْكَ فَحُلْ عَنْهَا فَعَنُ مِثْلِهَا حُلْنَا
اور جب تم یہ دیکھو کہ کل مرتبہ تمہارے اوپر ظاہر کئے جاتے ہیں۔ تو تم وہاں سے گزر جاؤ کیونکہ اس قسم کے مقامات سے ہم بھی گزرے ہیں ۔
وَقُلْ لَيْسَ لِي فِي غَيْرِ ذَاتِكَ مَطْلَبٌ فَلَا صُورَةٌ تُجْلِیْ وَلَا طَرْفَةٌ تُجنى
اور تم یہ کہو کہ مجھ کو تیرے غیر سے کچھ مطلب نہیں ہے۔ پھر نہ کوئی صورت ظاہر ہوگی ۔ اور نہ کوئی لمحہ ضائع ہو گا ۔
جاننا چاہیئے کہ یہ آداب جن کا بیان مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس باب میں فرمایا ہے۔ کبھی یہ عارف کےلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ اور کبھی غیر عارف یعنی سالک بھی ان میں شامل ہوتا ہے۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان کو وسیع عبارت میں بیان فرمایا ہے تا کہ یہ عام رہیں۔ کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرید کسی مقام میں ترقی کرتا ہے تو پہلے مقام کی کچھ کسر اس میں باقی رہ جاتی ہے۔ لہذاوہ اسے اس مقام میں پوری کرتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں