سترغافلوں سے بدتر صحبت (باب پنجم)

سترغافلوں سے بدتر صحبت حکمت نمبر44

ستر غافلوں سے بدتر صحبت کے عنوان سے  باب  پنجم میں  حکمت نمبر44 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
ایسے شخص کی صحبت خالص نقصان ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔
44) رُبَّمَا كُنْتَ مُسِيئًا فَأَرَاكَ الإِحْسَانَ مِنْكَ صُحْبَتُكَ مَنْ هوَ أَسْوَأُ حَالاً مِنْكَ.
اکثراوقات تم برے حال میں ہوتے ہو۔ لیکن اپنے سے برے حال والے کی صحبت تم کو تمہاری اچھائی دکھاتی ہے۔
اس عبارت کی تقدیر اس طرح ہے:۔ اکثر اوقات تم اپنے حال میں برے، اور اپنے عمل میں کوتاہی کرنے والے ہوتے ہو تو جب تم اپنے سے بدتر حالت والے کی صحبت اختیار کرتے ہو تو اس برے حال والے شخص کی صحبت تم کو تمہاری نیکی دکھاتی ہے کیونکہ تم اپنے نفس کی نیکی اور اپنے ہم صحبت کی خطا اور قصور کو دیکھتے ہو تو اسکے اوپر اپنی بڑائی اور افضلیت کا اعتقاد کرتے ہو کیونکہ علم وعمل اور حال میں اپنی بڑائی اور فضیلت اور دوسرے کی خطا و قصور کو دیکھنا نفس کی فطری عادت ہے بخلاف اس کے کہ جب تم اپنے سے اچھے شخص کی صحبت اختیار کرتے ہو تو نفس اپنا قصور اور کوتاہی دیکھتا ہے اور اس میں زیادہ بھلائی ہے

ایک اہم نصیحت

حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ میرے دوست نے مجھ کو وصیت کی۔ اپنے قدموں کو نہ بڑھاؤ مگر ایسی جگہ جہاں تم کو اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امید ہو۔ اور نہ بیٹھو مگر ایسی جگہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رہو اور اپنی صحبت کیلئے نہ منتخب کرومگر ایسے شخص کو جس سے تمہارے یقین میں زیادتی ہو اور ایسے لوگ کم ہیں۔
نیز دوست نے ان سے یہ بھی فرمایا: تم ایسے شخص کی صحبت نہ اختیار کرو جو اپنی ذات کو تمہارے اوپر ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ بیشک کمینہ ہے نہ اس شخص کی صحبت اختیار کرو جو تم کو اپنے اوپر ترجیح دیتا ہو کیونکہ یہ کم ہے۔ ہمیشہ نہیں ہوتا ہے۔ تم اس شخص کی صحبت اختیار کرو کہ جب وہ ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جب وہ شہود میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کوغنی کرتا ہے اور جب وہ گم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قائم مقامی کرتا ہے اس کا ذکر قلوب کا نور ہے اور اس کا مشاہدہ غیوب کی کنجیاں ہیں۔
اس کا حاصل یہ ہے:۔ تم ایسے شخص کی صحبت نہ اختیار کرو جس کیلئے تم کو کوشش سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑے اور نہ اس شخص کی صحبت اختیار کرو جس کو تمہارے لئے کوشش سے زیادہ تکلیف برداشت کرنی پڑے اور معاملات میں بہتر معتدل اور درمیانی حالت ہوتی ہے اور یہ وصیت غالبا دوستوں کی صحبت کے بارے میں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
لیکن شیخ کی صحبت :۔ تو جس چیز کا شیخ حکم دے یا اسکی طرف اشارہ کرے یا تم یہ سمجھتے ہو کہ شیخ اس کو پسند کرتا ہے۔ تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ امکان کے مطابق اس کی تعمیل کیلئے سبقت کرو اور اگر وہ عادتا محال ہو تو بھی اس کے کرنے کیلئے آمادگی اختیار کرو۔
حضرت شیخ الشیوخ سیدی عربی بن احمد بن عبداللہ فقیر رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے ۔ صدیق وہ ہے کہ جب اس کا شیخ حکم دے کہ تم سوئی کے ناکے میں داخل ہو جاؤ تو وہ پس و پیش نہ کرے فورا ًاٹھے اوراس کے حکم کی تعمیل میں جلدی کرے اگر چہ یہ کام اس سے انجام نہ پاسکے اور یہ بھی فرمایا کہ ہمارا ساتھی وہ ہے جس کو ہم ایک بال میں لپیٹ دیتے ہیں
حضرت علی خواص نے اپنی کتاب میں فرمایا تم یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے طالب کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب کرنے والی عارف باللہ کی صحبت جیسی دوسری کوئی چیز نہیں ہے اگر وہ عارف باللہ کو پائے اور اگر عارف باللہ کو نہ پائے تو اس پر واجب ہے کہ رات اور دن کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور دنیا والوں سے اس طرح کنارہ کشی کرے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے ان سے بات کرنے اور ان کی طرف دیکھنے سے پر ہیز کرے کیونکہ وہ لوگ زہر قاتل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز اتنا دور نہیں کرتی جتنا جاہل فقیر کی صحبت دور کرتی ہے۔ جاہل فقیر: غافل عوام سے ہزار گنا زیادہ برا ہے۔
عارف باللہ کی صحبت :۔ خلوت سے افضل ہے اور خلوت :۔ غافل عوام کی صحبت سے افضل ہے اور غافل عوام کی صحبت :۔ جاہل فقیر کی صحبت سے افضل ہے جاہل فقیر کی صحبت کے مثل مرید کے قلب کو سیاہ کرنے والی کوئی بھی مخلوقات میں نہیں ہے۔ جس طرح عارف باللہ ایک نظر یا ایک لفظ سے بندے کو اللہ سے واصل کر دیتا ہے ایسے بھی جاہل باللہ فقیر ۔ اکثر اوقات ایک نظر یا ایک لفظ سے مرید کو اللہ تعالیٰ سے ضائع کر دیتا ہے۔ پھر اس سے بھی زیادہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت عبد الرحمن مجذوب پر رحمت نازل فرمائے:۔ وہ اپنے بعض کلام میں فرماتے ہیں: بد کاروں کی صحبت ذلیل ورسوا کرتی ہے اگر چہ بظا ہر وہ صحبت پاک وصاف ہو۔
ان سے بچو
حضرت سہل بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ تین قسم کے آدمیوں سے پر ہیز کرو۔
(1)غافل سرداروں ۔
(2) سست قاریوں ۔
(3) جاہل متصوفوں (تصوف کا دعوی کرنے والے ) سے۔
حضرت شیخ زروق نے اس میں علمائے ظاہر کا اضافہ کر کے چارقسم فرمایا۔ اور فر مایا ۔ اس لئے کہ علمائے ظاہر پر ان کے نفوس غالب ہیں میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس زمانے میں علمائے ظاہر کی صحبت : ۔ ستر غافل عوام اور جاہل فقیر کی صحبت سے بدتر ہے۔ اس لئے کہ وہ صرف ظاہر شریعت کو جانتے ہیں اور جو شخص اس ظاہر میں ان سے اختلاف کرتا ہے اس کو خطا کار یا گمراہ سمجھتے ہیں اور اس کی تردید کی کوشش کرتے ہیں ان کا اعتقاد ہے که وہ نصیحت کرتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت کو چھپاتے اور دھوکا دیتے ہیں پس مرید کو چاہیئے کہ اپنی طاقت کے موافق ان کی صحبت اور انکے قریب جانے سے پر ہیز کرے اور اگر کسی مسئلہ کو معلوم کرنے کی ضرورت ہو اور اہل باطن میں سے کسی ایسے شخص کو نہ پائے جس سے اس مسئلہ کو دریافت کرے تو اس کو عالم ظاہر سے ڈرتے ہوئے اور بچتے ہوئے پوچھنا چاہیئے ۔ اوربچھو اور سانپ کے پاس بیٹھنے والے کی طرح اس سے ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیئے ، اللہ کی قسم میں نے فقرا میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا کہ ان علمائے ظاہر کی صحبت اور قربت اختیار کر کے خصوصیت کے طریقے میں کامیاب ہواہو۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت نازل فرمائے جو انہوں نے فرمایا ۔
و الله لا اسئلهم دنيا ولا استفتھم عن دینھم خدا کی قسم میں ان سے نہ دنیا کے بارے میں کچھ پوچھتا ہوں۔ نہ دین کے متعلق کوئی فتوی دریافت کرتا ہوں۔
اور یہ انہوں نے صحابہ کرام کے علما کے بارے میں فرمایا: تو اس زمانے کے علما کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جبکہ وہ دنیا کے جمع کرنے اور لباسوں کی آرائش اور دستاروں کے بڑا کرنے اور کھانے پینے اور مکانوں اور سواریوں کے بہتر اور خوبصورت بنانے میں مشغول ہیں اور انہوں نے اس کو سنت نبو یہﷺ سمجھ رکھا ہے ۔
فَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّهَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

امت محمدی کہاں ہے

حضرت یحی معاذ رازی رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے علما سے فرماتے تھے ۔ اے علما کی جماعت !تمہارے گھر:۔ ہامان کے گھر کی طرح ہیں۔ اور تمہاری سواریاں : قارون کی سواریوں کی طرح میں اور تمہارے کھانے ۔ فرعون کے کھانوں کی طرح ہیں اور تمہارے ولیمے ۔ جالوت کے ولیموں کی طرح ہیں اور تمہارے جلسے اور محفلیں زمانہ جاہلیت کی طرح ہیں اور تم لوگوں نے اپنے مذہبوں کو شیطانی بنا دیا ہے پس ملت محمدیہ ﷺتم کہاں ہے؟ (یعنی تمہارے طریقوں کو ملت محمدی سے کیا نسبت ہے)


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں