صحبت اہل باطن کا احسان (چودھواں باب)

صحبت اہل باطن کا احسان کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 138 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اللہ تعالیٰ نے اہل باطن کی صحبت کے سلسلہ میں جو احسان میرے اوپر فرمایا۔ اس کے آثار میں سے یہ ہے۔ جب میں اپنی بصیرت کی آنکھ سے ، اس کے عرش سے اس کے فرش تک مخلوق کی طرف نظر کرتا ہوں تو ساری مخلوق فنا اور نیست و نابود نظر آتی ہے۔ اور ان کا کوئی نشان باقی نہیں دکھائی دیتا۔
( وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ العظيم اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے۔
(تنبیہ) حضرت سیدی احمد بن یوسف ملیانی رضی اللہ عنہ سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوال کیا گیا: کیا وہ معنوی ہے یا حسی؟ (باطنی ہے یا ظاہری) تو انہوں نے جواب دیا۔ اس کی ذات ایسی ظاہری ہے جو سمجھی نہیں جاسکتی ہے۔ حضرت سیدی عبداللہ الھبطی رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا :۔ ان کا قول ۔
معرفت میں اُن کے ثابت و قائم ہونے کی دلیل ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مقدس ذات موجود ہے، لطیف ہے۔ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتی ہے۔ اور عقلیں اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی ہیں۔ وہ باطنی اور حقیقی صفات سے متصف ہے۔ اور اگر وہ مقدس ذات صفت یا حقیقت ہوتی۔ جیسا کہ اس کو عیسائیوں نے گمان کیا ہے۔ تو وہ باطنی اور حقیقی صفات سے متصف نہ ہوتی۔ اس لئے کہ صفت اور حقیقت بذات خود قائم نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ لازمی ہے کہ وہ اپنے غیر کے ساتھ قائم ہو۔ اور صفت دوسری صفت سےمتصف نہیں ہوتی ہے۔
لیکن بعض متاخرین کا قول : باطن ظاہر کے بغیر سمجھی نہیں جاسکتی۔ نیز ان کا یہ قول – ظاہر کی طرف نہ دیکھو۔ باطن کے سمندر میں گھسو۔ نیز ان کا قول ہے مخلوق حقیقتوں کو اٹھانے والے ظروف ہیں۔
لہذا تم یہ جان لو یہ بیان پہلے گزر چکا ہے۔ کہ عارفین ، ذات کے اسرار یعنی ازلی تقدیم جو ہر کو ، اس کی پوشیدگی اور لطافت کی بنا پر معانی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس وجہ سے معافی کے مشابہ ہو گیا ہے۔
تو حاصل یہ ہوا یہ کہ باطن کے بغیر ظا ہر قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ اور باطن ذات کے اسرار کی حقیقتیں ہیں۔ پس تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں۔ اور اس کے ساتھ ان کا وجود نہیں ہے اورحضرت ابن فارض نے اس کی طرف اپنے کلام میں اشارہ فرمایا ہے ۔
وَقَامَتْ بِهَا الْأَشْيَاءُ ثُمَّ لِحِكْمَةٍ بِهَا احْتَجَبَتْ عَنْ كُلَّ مَنْ لَا لَهُ فَهُمْ
تمام اشیاء اسی مقدس ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ پھر وہ حکمت کی بنا پر اس کے ساتھ ہر نا سمجھ سے پوشیدہ ہوتی ہے۔
یعنی تمام اشیاء اس ذات عالی کے ساتھ یعنی اس کے لطیف ازلی اسرار کے ساتھ قائم ہیں۔
نیز اس کا یہ قول: ذات عیں صفات ہے۔ اور صفات عین ذات ہے۔
پس تم یہ جان لو ۔ چونکہ صفات کے انوار کے بغیر ذات ظاہر نہیں ہو سکتی ہے۔ اور ذات کے بغیر صفات قائم نہیں ہوسکتی ہیں اور صفات موصوف سے جدا نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ایسا ہوا کہ گویا یہ عین یہ ہے۔
لہذا ان حضرات نے جمع کے خوف اور تفریق سے بچنے کے لئے اس عبارت میں کلام کیا ہے۔
اور یہ عارفین کی اصطلاح ہے جو کثیف ہوگئی اور جس کے سامنے ظاہر ہوئی اس کا نام انہوں نے صفات رکھا اور ربوبیت کے راز میں سے جو باطن (پوشیدہ) ہے ۔ اس کا نام انہوں نے ذات‘ رکھا۔ یا معنی (حقیقت) ساتھ موسوم کیا۔ اور صفات موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی ہے۔
جس طرح تم برف کو دیکھتے ہو ۔ اس کا ظاہر برف ہے اور اس کا باطن پانی ہے تو برف صفات ہے اور پانی ذات ہے۔ برف محسوس ہے اور پانی حقیقت ہے۔ اپنی لطافت اور پوشیدگی کی بنا پر گویا کہ وہ حقیقت ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں فرمایا ہے :- ( وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ )
جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تابع فرمان بنایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہرشے میں اس کے اسماء حسنے میں سے ایک اسم ہے اور ہرشے کا نام اس کے نام سے جداہے۔ لہذا تم اس کے اسماء اور صفات اور افعال کے درمیان ہو۔ اس حال میں کہ وہ اپنی قدرت کے ساتھ باطن (پوشیدہ ) اور اپنی حکمت کے ساتھ ظاہر ہے۔ وہ اپنی صفات کے ساتھ ظاہر ہے۔ اور اپنی ذات کے ساتھ باطن ہے۔ اس نے ذات کو صفات سے پوشیدہ کیا اور صفات کو افعال سے پوشیدہ کیا اور علم کو ارادے کے ساتھ اور ارادہ کو حرکتوں کے ساتھ ظاہر کیا اور صانع کو صنعت میں پوشیدہ کیا اور صنعت کو ذاتوں میں ظاہر کیا۔ لہذا وہ اپنے غیب میں باطن ہے ۔ اور اپنی حکمت اور قدرت کے ساتھ ظاہر ہے
ليسَ كَمِثْلِهِ شَيء وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) اس کے مثل کوئی شے نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے بدایہ السلوک کے شارح نے اس عبارت کو اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا ہے۔ پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول :- ذات کو صفات سے پوشیدہ کیا :- یعنی ذات کے اسرار کو صفات کے انوار سے پوشیدہ کیا۔ اور وہ اس کا نشان ہے۔ اور ان کا قول :- صفات کو افعال سے پوشیدہ کیا: کیونکہ افعال ، صفات کے لئے ظروف ہیں۔ کیونکہ وہ صفات کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔ اور اُس کا مظہر ہے۔ اور اُن کا قول :۔ علم کو ارادہ کے ساتھ ظاہر کیا یعنی اس نے اس چیز کو جو اس کے علم میں پہلے سے یعنی ازل سے آچکی ہے۔ اس کے ظاہر کرنے کے مخصوص وقت پر ، اپنے ارادہ سے ظاہر کیا۔
اور اُن کا قول : ارادے کو حرکتوں کے ساتھ ظاہر کیا : یعنی ازل میں جو ارادہ اس نے کیا۔ اُس کو ایسی حرکتوں کے ظہور کے ساتھ ظاہر کیا۔ جو اُس کے ارادے پر رہنمائی کرنے والی ہیں۔
اور اُن کا قول :- صنعت کو ذاتوں میں ظاہر کیا :۔ یعنی اپنی قدرت ، اجرام اور تمام ذاتوں میں ظاہر کیا ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب میں ذات وصفات کی تشریح اس طرح فرمائی ہے: ہر وہ شے جو جلال ہے ، وہ ذات ہے اور ہر وہ شے جو جمال ہے، وہ صفات ہے۔ اور یہ صرف تشبیہ کے طور پر ہے۔ کیونکہ صفات کی سب تجلیاں جمال ہیں ۔ اس لئے کہ وہ عارفین کے ارواح کی تفریح کا مقام ہے اور اسی کے ذریعے اہل دلیل رب العالمین کی معرفت تک ترقی کر کے پہنچتے ہیں۔
اور اسی کو حضرت شیخ ابن حشیش رضی اللہ عنہم نے اپنے کلام میں باغیچہ سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے:۔ ملکوت کے باغیچے صفات کے انوار ہیں۔ نیز صفات :- وہ ہیں ۔ جن کا مشاہدہ ممکن ہو اور جن کی معرفت حاصل ہو سکے۔ بخلاف ذات کی تجلی کے ۔ کیونکہ ذات : خالص جلال ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ اگر ایک ذرہ بھی اس کے اصلی نور سے بلا واسطہ ظاہر ہو جائے ۔ تو مخلوق بالکل جل جائے۔
حدیث شریف میں وارد ہے:۔ ( حِجَابُهُ النَّارُ) وَفِي رِوَايَةٍ :- (النُّورُ ، لَو كَشَف عَنْهَا لَا حُرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيءٍ أَدْرَكَهُ بِصُرُهُ
اس کا حجاب آگ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے :۔ اس کا حجاب نور ہے۔ اگر اس کے چہرے سے حجاب اٹھ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ، ان تمام اشیا کو جلا دیں گی۔ جو اس کے سامنے ہوں گی۔ (اور کل مخلوق اس کے سامنے ہے) لہذا صفات کی کل تجلیاں جمال ہیں اور ذات کی کل تجلیاں جلال ہیں۔
اس لئے تشبیہ کے طور پر اس طرح کہا گیا۔ ہر وہ شے جو نفس کے لئے دشوار ہوتی ہے۔ وہ ذات ہے۔ کیونکہ وہ ذات کی تجلی کی طرح جلال ہے اور ہر وہ شے جونفس کے لئے آسان ہوتی ہے۔ ووصفات ہے۔ کیونکہ وہ صفات کی تجلی کی طرح جمال ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
اور میں نے اس مسئلہ کی تشریح کے لئے ، اس وجہ سے مضمون کو طویل کیا۔ کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا ۔ جس نے اس کی تشریح کی ہو۔ اور سیر حاصل بحث کی ہو۔
اور میں اس مسئلے میں مزید بحث کرتا۔ لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس مسئلے میں میری تشفی کرتا۔ اور یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے۔ وہ ہے، جو اس سلسلے میں میرے سامنے ظاہر ہوا ہے۔اور میری فکر کا نتیجہ ہے۔ والله تعالیٰ اعلم ۔ وبالله التوفيق
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کے ظاہر ہونے پر اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کیا ہے۔
هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُوہی اول ، اور آخر اور ظاہر اور باطن ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں