طلوع انوار کے مقامات (سولہواں باب)

طلوع انوار کے مقامات کے عنوان سے سولہویں باب میں  حکمت نمبر 151 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے۔
151) مَطَالِعُ الأَنَوَارِ – القُلُوبُ وَالأَسْرَارُ .
انوار کے طلوع ہونے کے مقامات قلوب اور اسرار ہیں ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:- انوار سے مراد – واردات اور کشوفات ہیں۔ (کشف کی جمع) جوحجابات کو کھول دیتی ہیں۔ اور کائنات کے مظہروں سے حفاظت کا چادر دور کر دیتی ہیں۔ اور یہ بیان پہلے گزر چکا ہے:۔ کہ نفس ، اور عقل اور قلب اور روح اور سر اکثر صوفیائے کرام کے نزدیک ، ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں۔ اور وہ صرف روح ہے ۔ جو صفائی اور ترقی کے مطابق مختلف نام اور حالت اختیار کرتی ہے۔
تو جب تک وہ اپنے فوائد اور خواہشات میں مشغول رہتی ہے۔ تو وہ نفس ہے۔ اور اس کا نور گہن میں چھپا ہوا ہے۔ پھر جب وہ روک دی جاتی ہے اور شریعت کی رسی سے باندھ دی جاتی ہے۔ مگر وہ نافرمانیوں اور گناہوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔ لہذا کبھی نافرمانی کرتی اور تو بہ کرتی ہے۔ اور کبھی طاعت کرتی اور ثواب پاتی ہے۔ تو اس کا نام عقل رکھا جاتا ہے۔ اور اس کا نور تھوڑا سا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ کائنات کے قید خانے میں گرفتار ہے۔ دلیل و برہان کی بندش سے بندھی ہوتی ہے۔ پھر جب وہ گناہوں سے باز آ جاتی ہے۔ لیکن غفلت اور بیداری اور طاعت اور معصیت کے درمیان پھرتی رہتی ہے۔ تو اس کا نام قلب رکھا جاتا ہے۔ اور یہ انوار کا پہلا مطلع ہے۔ کیونکہ اس پر توجہ کے انوار روشن ہوتے ہیں پھر ہمیشہ واردات یعنی توجہ کے انوار متواتر اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سکون حاصل کرتی ۔ اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتی ہے۔ تو اب اس کا نام روح رکھا جاتا ہے۔ اور یہ مواجہت کے انوار کا پہلا مطلع ہے۔ پھر انہیں انوار سے حجاب دور ہوتا ہے۔ اور دروازہ کھلتا ہے اور وہ احباب کی بارگاہ میں داخل ہوتی ہے پھر جب وہ حس ( ظاہر) کی تاریکی سے صاف اور اغیار کی کدورتوں سے پاک ہو جاتی ہے۔ اس وقت اس کا نام سر رکھا جاتا ہے۔ اور یہ مشاہدہ کے انوار کا پہلا مطلع ہے۔ پھر جب وہ انوار کی آلودگی سے پاک ہو جاتی ہے۔ اور یہ مقامات قرب میں قیام اور کرامات کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ تو اس کا نام سرالسر رکھا جاتا ہے۔ اور یہ معائنہ اور مکالمہ (دیکھنا اور بات کرنا ) کے انوار کا پہلا مطلع ہے۔ پھر اس کے بعد نہ کوئی حال ہے۔ نہ کوئی مقام ہے۔
(يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ) اے یثرب والو تمہارے لئے کوئی مقام نہیں ہے۔ تو لوٹ جاؤ۔ لیکن علوم و معارف میں ترقی تو اس کی بھی انتہا نہیں ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ جاری رہتی ہے پس قلوب :- توجہ کے انوار کے مطلعین اور مشرقین ( طلوع ہونے اور روشن ہونے کی جگہ ) ہیں۔ اور اسرار : – مواجہ اور مشاہدہ اور معائنہ کے مطلعین اور مشرقین ہیں۔ اور روح اور سر :- مرتبہ میں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ارواح کے بیان سے خاموشی اختیار کی ہے۔ کیونکہ ارواح ، اسرار میں داخل ہیں۔ حاصل یہ ہے:۔ کہ نفسوں اور عقلوں پر ظلمت غالب ہے ۔ اس وجہ سے کہ دونوں محسوس میں مشغول ہیں۔ اور تار یکی اورپیچھے ہٹنے میں فنا ہیں۔ اس لئے یہ دونوں کسی نور کے مطلع نہیں ہیں۔ کیونکہ دونوں کی توجہ کریم اور غفور اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہے۔ لیکن قلب اور روح اور سر : انوار کے مطالع ، یعنی انوار کے طلوع ہونے اور روشن ہونے کے مقامات ہیں۔ مگر یہ کہ قلب : ۔ توجہ کے انوار کا مطلع ہے۔ اور روح اور سر : – مواجہت کے انوار کا مطلع ہیں ۔ اور دونوں کی تشریح، مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول :۔ سفر کرنے والے ہدایت پاتے ہیں کے ضمن میں پہلے گزر چکی ہے۔ اور مصنف نے دونوں کو برابری کے درجے میں رکھا ہے۔ اور اُن کا مرا دو ہی ہے ۔ جو ہم نے بیان کیا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں