طمع حرص کا قیدی (باب ہفتم)

طمع حرص کا قیدی کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر62 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
کیونکہ کسی شے سے تمہاری محبت، تم کو اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے اور یہی عبودیت کی حقیقت ہے۔ اور اسی حقیقت کے بارے میں یہ شعر کہا گیا ہے۔
62) أنْتَ حُرٌّ مِمَّا أنْتَ عَنْهُ آيِسٌ، وَعَبْدٌ لِمَا أنْتَ لَهُ طَامِعٌ.
بندہ آزاد ہے جب تک قناعت کرتا ہے۔ اور آزاد بند ہ غلام ہو گیا جب اس نے طمع کی۔
وہ انسان کتنا بدترین اور بد بخت ہے، جس کو اس کا مالک بادشاہ بنانا چاہتا ہے اور وہ غلام رہناچاہتا ہے ۔ اور اس کا مالک اس کو آزاد رکھنا چاہتا ہے اور وہ بندہ رہنا چاہتا ہے۔ اس کے مالک نے اس کے لئے مخلوق کو اس کے حکم اور منع کا فرماں بردار بنا کر پیدا کیا۔ لیکن وہ خود مخلوق کی فرماں برداری کرتا ، اور کمترین شے کی عبادت کرتا ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) اپنی کتاب تنویر میں، اللہ تعالیٰ کی مناجات میں، ہاتف غیب کی زبان سے فرماتے ہیں:۔ بے شک اے بندے! میں نے تیرا مرتبہ اس سے بلند کیا، کہ تو اپنے نفس کے حکم میں مشغول ہو۔ تو اے وہ شخص جس کو میں نے بلند کیا۔ اپنا مرتبہ ضائع نہ کر۔ اور اے وہ شخص جس کو میں نے عزت دی۔ تو اپنے کو میرے غیر کے حوالے کر کے ذلیل نہ ہو ۔ تجھ کو مبارک ہو۔ کہ تو ہمارے نزدیک اس سے بہت بلند ہے کہ ہمارے غیر کے ساتھ مشغول ہو ۔ میں نے تجھ کو اپنے حضور کے لئے پیدا کیا۔ اور اس کی طرف تجھ کو دعوت دی۔ اور اپنی عنایت کی کشش سے میں نے تجھ کو اس کے لئے کھینچا۔ بس اگر تو اپنے نفس کے ساتھ مشغول ہوگا۔ تو میں تجھ کو حجاب میں کردوں گا۔ اور اگر تو اس کے خواہشات کی پیروی کرے گا۔ تو میں تجھ کو اپنے دروازے سے بھگا دوں گا۔ اور اگر تو اپنے نفس سے جدا ہو گیا۔ تو میں تجھ کو اپنا قرب عطا کروں گا۔
اور اگر تو نے میرے ماسوا سے منہ پھیر کر مجھ سے محبت کی ۔ تو میں تجھ سے محبت کروں گا۔ پس حاصل یہ ہے کہ اشیاء کی محبت اور اس میں طمع ، ذلت اور رسوائی اورمخلوقات کی عبادت وبندگی کا سبب ہے۔ کسی عارف شاعر نے بہت خوب اشعار فرمائے ہیں:
رأيتُ الْقِنَاعَةَ رَأسَ الْغنا فَصِرْتُ بِاذْيا لها ممتسك
میں نے قناعت کو فنا کی بنیاد دیکھا۔ تو میں نے اس کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔
فَالْبَسَنِي عِزُّهَا حُلَّةٌ یَمُرُ الزَّمَانُ وَلَا تَنتهك
تو قناعت نے مجھ کو ایسا لباس پہنایا ، جس پر زمانہ گزرے گا، لیکن وہ بوسیدہ اور پرانا نہ ہوگا۔
فَصِرْتُ غَنِيًّا بِلا دِرْهَم أَتِيُّهُ عَلَى النَّاسِ تِيهَ الْمَلِكُ
پس میں بغیر درم کے غنی ہو گیا ہوں ۔ میں آدمیوں پر بادشاہ کی طرح فخر کرتا ہوں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ عقلمندوں کے نزدیک یہی غناء اکبر اور اکسیر ہے ۔ اور صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اس کا نام ورع ہے۔ یعنی ورع خاص ۔ اور وہ ماسوا سے ہمت کا اٹھالینا ہے۔ لطائف المدن میں فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر رحم کرے۔ تم یہ معلوم کرو کہ ورع خاص کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ پس بے شک ان لوگوں کے جملہ ورع میں سے، غیر اللہ کے ساتھ سکوں پانے ، غیر اللہ کی محبت کی طرف مائل ہونے، غیر اللہ کے فضل و خیر کی طمع کے ساتھ اپنی طمع بڑھانے سے ان کا پر ہیز کرنا ہے۔ اور ان کے ورع میں سے واسطوں ، اور سببوں کے ساتھ خوف سے شر کا ء و ار باب سے، ان کا پر ہیز کرنا ہے۔ اور ان کے ورع میں عادتوں کے ساتھ ٹھہرنے ، طاعتوں پر بھروسہ کرنے ، تجلیات کے انوار میں سکون سے ان کا پر ہیز کرنا ہے ۔ اور ان کے ورع میں سے دنیا کی آزمائشوں، اور آخرت کے ساتھ ٹھہرنے، سے ان کا پر ہیز کرنا ہے۔ وہ دنیا سے وفا کی بناء پر اور آخرت سے صفائی کی بناء پر پرہیز کرتے ہیں ۔
حکایت
حضرت شیخ عثمان بن عاشوراء نے فرمایا ہے:۔ میں نے موصل جانے کے ارادہ سے بغداد سے سفر کیا۔ تو میں چل رہا تھا۔ تو دنیا اس کی عزت اور مرتبہ اور بلندی ، اور اس کے سواریوں ، اور لباسوں ، اور اس کی دل لبھانے والی صورتوں کے ساتھ میرے اوپر پیش کی گئی ۔ تو میں نے اس سے منہ پھیر لیا۔ پھر جنت اس کے حور و قصور اور اس کے نہروں اور پھلوں کے ساتھ پیش کی گئی ۔ تو میں اس کے ساتھ بھی نہیں مشغول ہوا۔ تب مجھ سے فرمایا گیا: اے عثمان !اگر پہلے کے ساتھ تو ٹھہر جاتا تو میں دوسرے سے تجھ کو حجاب میں کر دیتا۔ اور اگر دوسرے کے ساتھ ٹھہر جاتا تو میں اپنے سے تجھ کو حجاب میں کر دیتا۔ تو لے ۔ میں تیرے لئے ہوں۔ اور دنیا و آخرت سے تیرا حصہ تیرے پاس پہنچے گا۔
حکایت
حضرت شیخ عبدالرحمن مغربی نے فرمایا ہے:۔ اور وہ مشرقی اسکندریہ میں مقیم تھے ۔ میں نے ایک سال حج کیا۔ جب میں حج کر کے فارغ ہوا تو اسکندریہ واپس آنے کا ارادہ کیا۔ تو مجھے غیب سے یہ آواز سنائی دی آئندہ سال پھر ہمارے پاس آنا ۔ تو میں نے اپنے دل میں سوچا جب آئندہ سال پھر یہاں آنا ہے تو میں اسکندریہ واپس نہ جاؤں گا۔ پھر یمن جانے کا خیال ہوا۔ تو میں روانہ ہو کر عدن پہنچا۔ میں ایک روز سمندر کے کنارے چل رہا تھا۔ اور تاجر اپنا سامان تجارت نکالے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا۔ ایک شخص در یا پر مصلی بچھائے ہوئے پانی پر چل رہا تھا۔ تو میں نے اپنے دل میں کہا: میں نہ دنیا کے لائق ہوا نہ آخرت کے تو فوراً مجھے غیب سے یہ آواز سنائی دی ۔ جو شخص نہ دنیا کے لائق ہے نہ آخرت کے وہ میرے لائق ہے۔
حضرت ابوالحسن نے فرمایا ہے:۔ ورع: – ان لوگوں کے لئے بہترین طریقہ ہے جنہوں نے اپنی میراث میں جلدی کی اور اپنے ثواب کو مقرر کیا ہے۔ تو ان کو ورع نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ سے لینے ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بات کرنے ، اور اللہ تعالیٰ کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل کرنے کی طرف واضح دلیل کی بناء پر پہنچایا ۔ پس وہ اپنے عام اوقات اور تمام احوال میں نہ تدبیر کرتے ہیں ، نہ اختیار کرتے ہیں ، نہ ارادہ کرتے ہیں، نہ فکر کرتے ہیں، نہ نظر کرتے ہیں نہ بات کرتے ہیں، نہ پکڑتے ہیں، نہ چلتے ہیں، نہ حرکت کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے لئے ۔ جس حیثیت سے وہ علم رکھتے ہیں۔ علم نے ان کو حقیقت امر پر جمع کر دیا۔ پس وہ معین جمع میں جمع کر لیے گئے ہیں۔ تو وہ تنہائی میں جدا ہوتے ہیں نہ ادنی ہیں۔ لیکن ادنی سے ادنی تو اللہ تعالیٰ ان کو اس سے، ان کے اوپر شریعت کے احکام کی حفاظت کے ساتھ ان کے ورع کے ثواب کے لئے بچاتا ہے اور جس شخص کے علم اور عمل کی میراث نہیں ہے۔ تو وہ دنیا کے ساتھ محجوب ہے۔ یا دعوی میں مصروف ہے اور اس کی میراث اللہ تعالیٰ کے مخلوق کے سامنے عزت حاصل کرنا، اور اپنے جیسے لوگوں پر بڑائی چاہنا، اور فخر کرنا ، اور اپنے علم سے اللہ تعالیٰ پر دلیل قائم کرنا ہے۔ تو یہ کھلا ہوا گھاٹا ہے۔ اور اس سے میں اللہ بزرگ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اور عقلمند لوگ اس ورع سے پر ہیز کرتے ہیں ۔ اور وہ اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور جس نے اپنے علم و عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تاج ہو کر اور اپنے نفس کو حقیر سمجھ کر ، اور اس کی مخلوق کے ساتھ تواضع کر کے راستہ کا توشہ نہیں بنایا۔ تو وہ ہلاک ہونے والا ہے۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے بہت سے صالحین کو ان کی صلاحیت کی وجہ سے ان کے اصلاح کرنے والے سے منقطع کر دیا ہے۔ جیسا کہ بہت سے فساد کرنے والوں کو ان کے فساد کے سبب ان کے ایجاد کرنے والے سے منقطع کر دیا ہے۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے اولیائے کرام کے راستہ کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اور اپنے دوستوں کی پیروی کرنے کے ساتھ تمہارے اوپر احسان فرمائے۔ تم اس پر غور کرو ۔ یہی وہ ورع ہے ۔ جس کو شیخ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے: کیا تمہاری سمجھ ورع کے اس قسم تک پہنچ سکتی ہے؟ کیا شیخ کے اس قول کو تم نہیں دیکھتے ہو؟ اس ورع نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ سے لینے ، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل کرنے کی طرف واضح دلیل کی بناء پر پہنچایا ہے۔ پس یہ ابدال اور صدیقین کا ورع ہے۔ نہ کہ فصاحت سے باتیں کرنے والوں کا ورع۔ جو برے گمان اور وہم کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ یہ ورع جو شیخ نے بیان کیا ہے۔ یہ خواص ، یا خواص الخواص کا ورع ہے۔ اور یہی طمع کے مقابلہ میں ہے۔ جیسا کہ حضرت حسن بصری کے قول میں گزر چکا ہے دین کی صلاح ورع ، اور دین کا فساد جمع ہے۔ عوام کا ورع نہیں ، جو مشتبہ اور حرام کا ترک کرتا ہے ۔ کیونکہ وہ پوری طرح طمع کا مقابلہ نہیں کرتا ہے۔ اور اس کا حاصل یقین کی درستی ، اور اللہ رب العالمین کے ساتھ مکمل تعلق ، اور اس کی طرف سکون ، اور اس کے اوپر ارادے کا مضبوطی سے جم جانا، اور اس کے ساتھ اطمینان قلب ہے۔ اس درجہ پر کہ اس کی توجہ اس کے ماسوا سے کسی شے کی طرف نہ ہو ۔ پس یہی ورع ہے جو فساد پیدا کرنے والی طمع کا مقابلہ کرتا ہے۔ اور اسی سے اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والا ہر عمل ، اور نیک بختی پیدا کرنے والا ہر حال درست ہوتا ہے۔ حضرت یحیی بن معاذ نے فرمایا ہے۔ ورع کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ظاہر میں ورع:۔ وہ یہ ہے کہ تم کوئی حرکت نہ کرو ۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے ۔ دوسری قسم ۔ باطن میں درع : ۔ وہ یہ ہے کہ تمہارے قلب میں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہ داخل ہو ۔ بیان کیا گیا ہے کسی صوفی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ جن لوگوں کی یہ صفت ہے ان میں سے کسی کو دیکھے تو وہ ان کی تلاش میں کوشش کرنے لگے اور ان کے پاس تک پہنچنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی اپنے مال میں سے کچھ لیتے۔ اور فقیروں اور مسکینوں کے پاس جاتے اور جس کو دیتے ۔ اس سے کہتے ۔ اسے لو ۔ لیکن یہ تمہارے لئے نہیں ہے وہ لوگ ان سے مال لے لیتے تھے۔ اور وہ ان میں کسی سے اپنے مقصد کے مطابق جواب نہیں سنتے تھے۔ اسی طرح وہ برابر کرتے رہے۔ ایک روز وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور یہ اس طرح کہ انہوں نے ان میں ایک شخص سے کہا: اسے لو لیکن یہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ تو اس نے ان کو جواب دیا: میں اس کو لیتا ہوں۔ لیکن تم سے نہیں۔ تو اگر بندے کی توجہ مخلوق کی طرف ہو۔ یا روزی آنے کے پہلے، یا اس کے بعد ان کی طرف نظر جاتی ہو۔ تو اس ورع کا تقاضا، اور ادب کے حق میں واجب یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو اس میں سے کچھ نہ دے۔ جو اس حال میں اس کے پاس آتا ہے۔ تا کہ اپنے ہم جنس کی طرف دیکھنے کی وجہ سے اس کے نفس کی سزا ہو جائے ۔ جیسا کہ ایوب حمال کا واقع حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہما کے ساتھ واقع ہوا۔ اور یہ واقعہ مشہور ہے۔
حکایت
اور جیسا کہ حضرت شیخ ابو مدین رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے ان کے پاس ایک بوجھ ڈھونے والا شخص گیہوں یا ستو لے کر آیا ۔ تو ان کے نفس نے ان سے جھگڑا کیا اور کہا: کیا دیکھتے ہو کہ یہ کہاں سے آیا ؟ تو انہوں نے نفس کو جواب دیا: اے اللہ کے دشمن ! میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ اور اپنے ایک مرید کو حکم دیا کہ یہ کسی فقیر کو دے دو ۔ یہ اپنے نفس کو سزا دینے کے لئے کیا۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے دیکھنے سے پہلے مخلوق کو دیکھا۔ بیان کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر حلال وہ ہے جس نے دل میں خطرہ نہیں کیا۔ اور نہ کسی عورت یا مرد سے تم نے سوال کیا۔ حضرت شیخ عبد العزیز مہدوی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ ورع :- یہ ہے کہ تم نہ کوئی حرکت
کرو نہ سکون ۔ مگر تم حرکات وسکون میں اللہ تعالیٰ کو دیکھو ۔ تو جب اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ حرکت و سکون ختم ہو گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ باقی رہا۔ پس حرکت اس کا ظرف ہے جو اس میں ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ۔ ہم نے کسی شے کو نہیں دیکھا۔ مگر اس میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ پس جب اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ وہ چیز ختم ہو گئی۔ نیز یہ بھی فرمایا:۔ علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مطلق حلال وہ ہے جو واسطوں کے ختم ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے لیا جائے ۔ اور یہ تو کل کا مقام ہے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے: حلال وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے۔ یہ حضرت ابن عباد سے منقول ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں