ظاہری وباطنی نور کا اظہار (سولہواں باب)

ظاہری وباطنی نور کا اظہار کے عنوان سے سولہویں باب میں  حکمت نمبر 153 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس نور کے حاصل ہونے کا نتیجہ بیان فرمایا اور وہ نتیجہ اشیاء کی حقیقتوں کا ظاہر ہونا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:-
153) نُورٌ يَكْشِفُ لَكَ بِهِ عَنْ آثَارِهِ ، وَنُورٌ يَكْشِفُ لَكَ بِهِ عَنْ أَوْصَافِهِ .
ایک نور ہے، جس کے ذریعے تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ایک نور ہے جس کے ذریعے تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ظاہر ہوتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: نور کی حقیقت ، اس حیثیت سے کہ وہ کشف ہے۔ تو ظاہری محسوس نور ، محسوسات کو ظاہر کرتا ہے اور باطنی نور مفہومات کو ظاہر کرتا ہے۔
یا تم اس طرح کہو : ۔ ظاہری نور، اوانی ( حقیقت کا ظرف ) کو ظاہر کرتا ہے اور باطنی نور ، حقیقتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اوانی کے دیکھنے کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ جبکہ وہ حقیقتوں سے خالی ہوں ۔ اور باطنی نور، اپنی طاقت اور کمزوری کے اعتبار سے تین قسموں میں تقسیم کی گئی ہے۔
پہلی قسم :- اسلام کا نور : وہ ستاروں کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تمہارے سامنے اپنے آثار کے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ تا کہ تم ان آثار (مخلوق) کے ذریعے ان کے بنانے والے ( خالق ) پر استدلال کرو ۔ (اس کی طرف رہنمائی حاصل کرو)
دوسری قسم : ایمان کا نور :- وہ چاند کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تمہارے سامنے اپنے اوصاف کے ثبوت کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا جب کوئی شے حرکت کرتی ہے یا ٹھہرتی ہے۔ تو تم اس کی حرکت اور سکون کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا ارادہ اور اس کے علم اور اس کی حیات اور اس کی دوسری صفات کے ساتھ دیکھتے ہو۔
تیسری قسم :- احسان کا نور – اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تمہارے سامنے اپنی ذات کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا تم کسی شے کو نہیں دیکھتے ہو ۔ مگر اس کے اندر اس کے خالق کو اس کی تجلیوں کے واسطہ سے دیکھتے ہو۔ اور یہ نور سورج کی طرح ہے:-
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
پس پہلے نور کے ظاہر ہونے کا انجام، افعال میں فنا ہونا ہے۔ اور دوسرے نور کے ظاہر ہونے کا انجام ، صفات میں فنا ہوتا ہے۔ اور تیسرے نور کے ظاہر ہونے کا انجام فنافی الذات میں ثابت اور قائم ہونا ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسرے نور کے بیان کو کافی سمجھا اور تیسرے نور کے بیان کو ضروری نہیں سمجھا۔ اس لئے اس کو بیان نہیں کیا۔ کیونکہ فنافی الصفات ، فنافی الذات کے قریب ہے۔ اس لئے که صفات اپنے موصوف سے جدا نہیں ہوتی ہیں۔ لہذا جو شخص اپنے سننے اور اپنے دیکھنے اور اپنی حرکت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیکھتا ہے۔ وہ اپنے وجود کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیکھتا ہے۔ اسی لئے بعض عارفین نے فنافی الذات کے بیان کے ساتھ فنافی الصفات کا بیان ضروری نہیں سمجھا ہے۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اس لئے جب دونوں میں سے کوئی ایک بھی ثابت ہو گیا۔ تو دوسرا بھی ثابت ہو گیا۔والله تعالى اعلم
اور احتمال یہ ہے کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول سے ایک نور ہے۔ جس کے ذریعے تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کے آثار (مخلوقات ظاہر ہوتے ہے ) وہ ظاہری نور مراد لیا ہو ، جو ظاہری آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور اس قول سے ایک نور ہے۔ جس کے ذریعے تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ظاہر ہوتے ہیں بصیرت کا باطنی نور مراد لیا ہو
اور حضرت شیخ ابن عباد رضی اللہ عنہ نے اس کو کافی سمجھا ہے۔ لیکن ظاہری آنکھ کا نور ، اثر میں موثر کو ( مخلوق میں خالق کو )مستقل طریقے پر نہیں دیکھ سکتا ہے۔ جب تک باطنی عقلی انوار اس کی مدد نہ کرے۔ تو یہ صرف باطنی انوار پر منحصر ہے۔
لیکن ظاہری انوار :- تو وہ ہر شخص کو نظر آتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جانور بھی ان کو دیکھتے ہیں ۔ لہذا اس کے لئے کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ وباللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں